کیا ہم ایک ناکام ریاست کے امین ہیں

ایک زمانہ تھا جب ہمارے یہاں جمہوری حکومتوں کو کام کرنے کا موقعہ نہیں دیا جاتا تھا


Dr Mansoor Norani August 25, 2014
[email protected]

ایک زمانہ تھا جب ہمارے یہاں جمہوری حکومتوں کو کام کرنے کا موقعہ نہیں دیا جاتا تھا۔اندرونِ خانہ بعض عناصردوسروں کے آلہ کار بن کر منتخب حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنے میں معاون و مددگار بن جایا کرتے تھے۔ساری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہوا کرتی تھی۔ہمارا ازلی دشمن بھارت ہمیں لعن و طعن کیا کرتا تھا۔وہاں کے حکمراں ہماری اِس جمہوری عدم استحکام کو غیر مناسب اور تضحیک آمیز انداز میں بیان کیا کرتے تھے۔

پھر 1958 میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے اقتدارِ اعلیٰ پر قبضہ کرکے اگرچہ اِس آئے دن کی تبدیلی کا خاتمہ تو کر دیا لیکن سارے ملک کو ایک ایسی دس سالہ آمریت کے سپرد کر دیا جس میں سیاستدانوں سمیت تمام شہریوں کے بنیادی حقوق بھی ضبط کر لیے گئے۔ نہ کسی کو لب کشائی کی آزادی تھی اور نہ اپنا حق مانگنے کی اجازت۔ پھر تین سالہ یحییٰ دور اور گیارہ سالہ ضیاء دور بھی اِسی طرح گذرا۔ گویا اِن 29سالوں میں صرف پانچ سال ایسے گذرے جس میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کا پانچ سالہ جمہوری دوربمشکل پنپ سکا۔

وہ بھی محض اِس لیے ممکن ہو پایا کہ یحییٰ کی ناقص منصوبہ بندی اورغلط پالیسیوں کی بدولت 1971 میں ہمارا ملک اپنی وحدت و سالمیت برقرار نہ رکھ سکا اور دولخت ہوگیا۔بعد ازاں ضیاء الحق نے بظاہر مستقبل میں ممکنہ فوجی مداخلت کو روکنے کی غرض سے دستورِ پاکستان میں ایک ایسی ترمیم کردی جس نے اگلی کئی جمہوری حکومتوںکو اپنی آئینی مدت پوری کیے بناء گھر کا راستہ دِکھلا دیا۔

سیاستدانوں کو ناکام اور نامراد ٹہرانے کی غرض سے دو تین سالوں میں ہی اُنہیں اقتدار کے ایوانوں سے بیدخل کرنے کا یہ فعلِ قبیح صدارت کے منصب پر فائزافراد نے ادا کیا۔ جس حکومت کو کرپشن، مالی بدعنوانی اور ناقص طرزِ حکمتِ عملی جیسے الزامات کی بھر مار کے ساتھ رخصت کیا اُسے پھر دو تین سال بعد والہانہ انداز میں خوش آمدید بھی کہا۔یعنی 1990میں محترمہ بے نظیر حکومت کو معطل کرکے میاں صاحب کو حکمراں بنانے والوں نے1993 میں ایک بار پھر بے نظیر کو مسندِ اقتدار پر بخوشی بٹھایا۔

مقصد بے نظیر کی اہلیت و قابلیت کو تسلیم کرنا نہیں تھا بلکہ اپنے دوسرے مخالف یعنی میاں صاحب کو سبق سکھانا تھا ۔جمہوری حکومتوں کو سکون و اطمینان کے ساتھ کبھی کام کرنے موقعہ ہی نہیں دیا گیاجب کہ غیر جمہوری حکومتوں نے بلا روک ٹوک دس دس سال پورے کیے۔اِس کے باوجود اگر کارکردگی کے لحاظ سے اِن ادوار کو دیکھا اور پرکھا جائے تو جمہوری حکمرانوں کے اِن مختصر ادوار میںملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے بہتر کوششیں کی گئیں۔یہ اور بات ہے کہ اُنہیں تکمیل کے مراحل تک پہنچنے سے پہلے ہی ضایع کر دیا گیا۔

جمہوری حکومتوں کی اِس بیخ کنی کی وارداتوں کا سلسلہ ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں چلتا رہا۔ کبھی طالع آزماؤں کے سرکشی کی صورت میں تو کبھی ہارس ٹریڈنگ کے ذریعہ اور کبھی آئین کی شق 58-B2کا استعمال کرکے۔ اب جب یہ سارے راستے رفتہ رفتہ مفقود اور بند ہوتے گئے تو اب لانگ مارچ اور دھرنوں کو اِن مقاصد اور عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔سابقہ زرداری حکومت کے پانچ سالہ دور کے بعد ہم اِس خوش گمانی میں مبتلا تھے کہ شاید اب اِس ملک میں جمہوریت کو پنپنے اور مستحکم ہونے کا موقعہ مل پائے گا۔

مگر افسوس کہ ہماری یہ خوش فہمی بہت دیر تک قائم نہ رہ سکی اور جلد ہی اُس کے خاتمے کا ساماں ہونے لگا۔الیکشن میں مبینہ دھاندلی کو لے کر ہمارے ملک میں آج کل جو ہنگامہ بپا ہے اُس کے اغراض و مقاصد تو وقت آنے پر ہی عیاں ہونگے لیکن فی الحال ہمار ا وطنِ عزیز جس غیر یقینی اور بے چارگی کی صورتحال سے دوچار ہے اُس کا ذمے دارکس سیاسی جماعت کو قرار دیاجاتا ہے وہ تو بعد کی بات ہے مگر ابھی تو خود ہمارے وطن کی حالتِ زار دگرگوں ہوتی جا رہی ہے۔

مسلسل بحرانوں اور طوفانوں سے گذر کر ہم ابھی کنارے لگ ہی پائے تھے اور ہماری معیشت میں کچھ بہتری کے آثار نمودار ہونے لگے تھے کہ اچانک ہم پھرانحطاط پذیری کی جانب دھکیل دیے گئے۔ غیر ملکی سرمایہ دار جو پہلے ہی یہاں اپنا سرمایہ لگانے سے خوفزدہ تھے ایک بار پھر موجودہ کشیدہ صورتحال دیکھ کر مایوس اور متنفر ہونے لگے ہیں ۔بڑی مشکل سے اُنہیں اِس بات پر آمادہ کیا گیا تھا کہ اب یہاں اُن کی سرمایہ کاری کو مکمل تحفظ ملے گا ۔کوئی دہشت گرد دشمن ہماری اقتصادی ترقی کا راستہ نہیں روک پائے گا۔

ہمیں یہ پختہ یقین تھا کہ جمہوریت کا تسلسل اِس بات کی ضمانت دیگا کہ نئے انتخابات کی صورت میں حکمرانوں کے چہرے تو ضرور بدل سکتے ہیں لیکن قومی مفاد میں شروع کیے جانے والے خوشحالی کے منصوبے یونہی پروان چڑھتے رہیں گے۔ 65برسوں کی بڑی جدو جہد اور قربانیوں کے بعدقوم کو حسین ثمرات کی نوید ملنے لگی تھی۔ قوم ابھی دہشت گردی کی جنگ سے نکل کر سرخرو بھی نہ ہوپائی تھی کہ پھر اُسے تباہی و بربادی اور زبوں حالی کی راہ پر موڑ دیا گیا۔انقلاب اور تبدیلی کے سحر انگیز اور دلفریب نعروں پر افراتفری اور ہنگامہ آرائی شروع کر دی گئی۔

غریب عوام کے مسائل و مصائب کو ایشو بنانے کی بجائے ایک ایسے مفروضے کو اِس سارے کھیل تماشے کی بنیاد بنایا گیا ہے جس کی تصدیق ابھی ہونا باقی ہے۔صرف شک اور شبے کی بنیاد پر یہ سارا تماشہ رچایا گیا ہے۔الیکشن کمیشن کی چیئرمین شپ کے لیے اپنے ہی تجویز کنندہ اور نامزد کردہ شخص کو دھاندلی کا موردِ الزام ٹہرا کر رسوا اور بدنام کیا گیا۔ جس چیف جسٹس کی بحالی کے لیے خود سڑکوں پر نکل پڑے تھے آج اُسی چیف جسٹس کو سرِ عام نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اسلام آباد کی سڑکوں پر جاری گیارہ روز سے کیے جانے والا دھرنا اپنا مطلوبہ اہداف تو ہنوز حاصل نہیں کر پایا ہے البتہ اِس ساری مشق میں ہمارا قومی تشخص یقینا دھندلا سا گیا ہے ۔ دنیا یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ہم ایک کیسی عجیب ریاست اور مملکت کے امین ہیں۔جنھیں امن وامان اورراحت و سکون کبھی راس ہی نہیں آتا۔ جنھیں بحرانوں میں ڈوبے رہنا کتنا مقدم اور عزیز ہے۔ کبھی دوسروں کی لڑائی میں خود کو ملوث کرکے آپ اپنی تباہی کا ساماں کرتے اور کبھی آپس میں دست و گریباں ہوکر مضروب و مضمحل ہوتے۔

کبھی آمریت کے خلاف معرکہ آرائی کرتے تو کبھی جمہوریت کے خلاف جلوس اور دھرنا دیتے۔ملک کے دشمنوں سے محاذ آرائی کی بجائے اپنے ہی لوگوں سے لڑ مر کر ساری توانائی ضایع کرتے۔ دنیا ترقی و خوشحالی کے مراحل طے کرکے کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم ابھی تک اپنی منزل کا تعین ہی نہیں کر پائے ہیں۔جب ذرا ملک کے حالات نااُمیدی اور مایوسی کے سایوں سے نکل کر بہتری کی راہوں پر گامزن ہونے لگتے ہیں تو پھرکوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔

جمہوریت کے علمبردار ہی اُسکی جڑیں کاٹنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب کو معلوم ہے کہ اِس ملک و قوم کی بقاء جمہوریت کے تسلسل ہی میں مضمر ہے۔ اِس نظام میں اگر کچھ خامیاں اور خرابیاں موجود ہیں تو اُنکی اِصلاح بھی اِسی کے اندر رہ کر کی جا سکتی ہے اِسے سبوتاژ کرکے نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں