زرداری کے نام ایک جیالے کا پیام
میثاق جمہوریت کا خیال جیسے ہم نے کیا‘ ن لیگ نے نہیں کیا۔ ہمیں بتایا جائے کہ کیا قربانی دینے کا ٹھیکہ ہم نے لے رکھا ہے۔
میں لکھنا تو موجودہ سیاسی صورت حال پر چاہتا تھا لیکن سیاسی منظرنامہ اسقدر دھندلا ہے کہ کچھ نظر نہیں آ رہا' ایسے میں ذہن ادھر ادھر بھٹک رہا تھا' موضوع جگنو کی طرح چمک کر بجھ رہے تھے کہ اسی دوران پیپلز پارٹی کا ایک شناسا جیالا ملنے آ گیا۔ اس نے اپنی پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے دورہ لاہور پر گفتگو کی اور پھر اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا مراسلہ میری میز پر پھینکا، ''اس میں پیپلز پارٹی کے جیالوں کے جذبات ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھ دیے ہیں' پڑھ لیں''۔ میں نے اسے پڑھا' مجھے اچھا لگا ہے' آپ بھی پڑھ لیں' اس سے پیپلز پارٹی کے جیالوں کی سوچ کا اندازہ بھی ہو جائے گا۔
''جناب محترم میرے چیئرمین آصف علی زرداری صاحب میں نے بچپن بھٹو شہید کے قدموں میں گزارا' جوانی شہید قائد محترمہ بینظیر بھٹو کے قدموں میں' بڑھاپا آپ کے قدموں میں گزارنا چاہتا ہوں کیونکہ آپ میرے لیڈر ہیں۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں ان پڑھ نہیں یونیورسٹی کا پڑھا لکھا جیالا ہوں۔ آپ کی مفاہمتی اتحادی ق لیگ کے کہنے پر میں نے اور کئی اور جیالوں نے اپنی پارٹی کے دور حکومت میں ہی نوکر یاں گنوائیں' پاکستان پیپلز پارٹی میں جیالوں کی اولاد انجینئر' ڈاکٹر' ایم فل' پی ایچ ڈی' ایم بی اے' ڈبل ایم اے موجود ہیں۔ ان میں سے جن کو پچھلے دور میں نوکری ملی انھیں ''ن لیگ'' نے نکال دیا۔ عدالت نے ان کی بات سنی نا ''ن لیگ'' نے سنی۔
ہماری مفاہمتی ساتھی ''ق لیگ'' کے ایک برخوردار نے جیالوں کو نوکریوں سے نکالا اور جعلی ڈگری والوں کو بھرتی کیا۔ اپنے بھی کم نہیں تھے' رخسانہ بنگش' فوزیہ حبیب نے بھی کارکنوں کی نہیں سنی۔
میرے کیس کے بارے میں جو چوہدری پرویز الٰہی' فرحت اللہ بابر' سید خورشید شاہ' رضا ربانی' آیت اللہ درانی' فوزیہ حبیب' سردار لطیف کھوسہ' بی بی فریال تالپور صاحبہ' سید نوید قمر'سید مخدوم امین فہیم' پی پی پی لاہور کی پوری تنظیم' پی پی پی پنجاب کی تنظیم سب آگاہ ہیں۔ مزے کی بات سرکاری اداروں میں آج بھی ریٹائرڈ لوگ نوکریاں کر رہے ہیں۔اب آپ نے جمہوریت بچانے کے لیے میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی ہے۔ میں اور میرے جیسے دیگر جیالے ایک سال سے آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمیں کامیابی نہیں ملی۔
ن لیگ کی اعلیٰ قیادت تو ہمیں سڑکوں پر گھسیٹنے کا کہتی تھی۔ مینار پاکستان کے سائے تلے لوڈشیڈنگ کا اسٹال لگاتی تھی آج آپ سے مدد مانگ رہی ہے۔ جمہوریت کو ضرور بچائیں لیکن جیالوں کا بھی خیال رکھیں۔ ان کو بھی ملاقات کا وقت دیں۔ ہمیں خود لاہور میں بیٹھ کر پنجاب میں پارٹی کو مضبوط کرنے کا فارمولا سمجھائیں۔ ورنہ بھٹو شہید' بینظیر بھٹو شہید قیامت والے دن ہم کو معاف نہیں کرے گی۔ پارٹی کے جیالے بہت صبر کرنے والے ہیں۔
لاہور تنظیم کی میٹنگ میں مجھ سمیت جیالوں کو روتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہم نے اپنے کاروبار کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن پھر بھی پی پی پی کے ساتھ نشے کی طرح سے لگے ہوئے ہیں اور آپکو' ذوالفقار علی بھٹو شہید' بینظیر بھٹو شہید اور بلاول بھٹو زرداری کو اپنا لیڈر مانتے ہیں اور مانتے رہیں گے۔ آپ نے جمہوریت کے لیے 11 سال قید کاٹی۔ بینظیر بھٹو شہید نے شہادت دی لیکن سچ یہ ہے کہ فائدہ ان سیاسی جماعتوں کو ہوا' جنہوں نے ہم کو گالیاں دیں' وہ آج اقتدار پر قابض ہیں۔ آپ ان کو سمجھائیں جس طرح ہم نے ہر مشکل میں آپ کا ساتھ دیا ہے آپ بھی ہمارے جیالوں پر نظرثانی کریں۔
میثاق جمہوریت کا خیال جیسے ہم نے کیا' ن لیگ نے نہیں کیا۔ ہمیں بتایا جائے کہ کیا قربانی دینے کا ٹھیکہ ہم نے لے رکھا ہے۔ نواز لیگ نے اپنے دور حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو نوکری سے فارغ کیا۔ محترم چیئرمین صاحب آپ کو اپنے ورکروں' کارکنوں' جیالوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ آپ نے میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی لیکن اچھا ہوتا وہ کراچی آ کر آپ سے ملاقات کرتے۔ اس سے جیالوں کو حوصلہ ملتا اور دوسری جماعتوں کو پیغام جاتا کہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری سیاست میں صحیح کردار ادا کرتے ہیں۔ کیا آپ کے علم میں ہے کہ عوام کس حال میں ہیں۔
اب تو حد ہو گئی ہے۔ بجلی مہنگی' کالج کی فیس ڈبل' سبزیاں' پھل نایاب' پانی کا بل ڈبل' لاقانونیت سوئی گیس' ٹیلی فون' گھروں پر ٹیکس بہت زیادہ۔ آج صدر زرداری کو الٹا لٹکانے کی بات کیوں نہیں کی جاتی بلکہ اب تو ملاقات کے لیے دبئی سے بلوایا گیا ہے۔ میری جناب آصف زرداری سے اپیل ہے کہ جمہوریت کی خاطر' پاکستان کی بقا کی خاطر' اپنے جیالوں کو بھی درشن کروائیں۔ کارکن پریشان ہیں کہ ہم نے کس طرف جانا ہے۔ جیالوں سے بڑھ کر قربانی دینا کوئی نہیں جانتا۔ پی پی پی کی اعلیٰ قیادت نے بھی شہادتیں دیں۔ جیل کاٹی' کوڑے کھائے۔ اسے کارکن کسی جماعت کے پاس نہیں ہیں۔
مفاہمت سے اگر جیالوں کو فائدہ ہو تو مفاہمت ضرور کریں ورنہ پہلے کی طرح مفاہمت میں کارکنوں کا نقصان' پارٹی کا نقصان ہو گا۔ جسے اب برداشت کرنا جیالوں کے لیے بہت مشکل ہو گا۔لاہور میں چوہدری اعتزاز' بشیر ریاض' پروفیسر اعجاز الحسن' باجی ثمینہ خالد گھرکی جیسی شخصیات بیٹھی ہیں۔ انھیں پاور فل کیا جائے۔ میں ثمینہ خالد گھرکی کو سلام پیش کرتا ہوں۔ وہ جیالوں کی سخت باتوں کو بھی برداشت کرتی ہیں۔
جناب عالیٰ! جیالوں کو بتایا جائے کہ انھوں نے کیا کرنا ہے۔ ن لیگ' عمران خان' طاہر القادری' ق لیگ' کس کا ساتھ دینا ہے۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ گھر جاتے ہیں تو گھر والے کھینچتے ہیں' باہر بات کریں تو عوام کھینچتے ہیں۔ لیڈروں سے ملاقات مشکل ہے۔ کس کے پاس جائیں' صرف میڈیا کے ذریعے پیغامات ملتے ہیں۔ ہم بھٹو شہید' محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے جیالے ہیں۔ آپ کی سیاست کو جمہوری سیاست کے طور پر ساری دنیا پسند کرتی ہے لیکن جیالوں کی سنیں' انھیں بھی اعتماد میں لیں۔
آخر میں آپ سے یہ کہنا چاہوں گا کہ پنجاب کے عوام اور جیالے کیا چاہتے ہیں' اس کے لیے آپ چھ ماہ مسلسل لاہور میں بیٹھیں۔ پنجاب کی پارٹی قیادت سے ملیں' ضلعی سطح کی قیادت سے ملاقات کریں' تحصیل سطح کے کارکنوں کو بلائیں اور پھر یونین کونسل سطح کے ورکروں سے ملیں' وہی آپ کو اصل حقائق بتائیں گے۔''
فضل الرحمن بٹ' نائب صدر پیپلز پارٹی لاہور۔
پیپلز پارٹی کے جیالوں کی ایسی باتیں میرے لیے نئی نہیں ہیں' ممکن ہے کہ قائدین تک نہ پہنچتی ہوں۔ میں نے کچھ ضروری ترامیم کے ساتھ جیالے کے جذبات لکھ دیے ہیں' اب جیالوں کے مقدر کہ ان کی سنی جاتی ہے یا مفاہمتی سیاست اور مفادات باہم مل کر یونہی چلتے رہتے ہیں۔ جیالوں کا کیا ہے' وہ تو بھوکا رہ کر اور مار کھا کر بھی جیالا ہی رہے گا۔