واضح موجودہ خطرہ

جن لوگوں کی اہمیت ہے انھیں وسیع النظری کا اصول اپنانا چاہیے تا کہ آئینی اتھارٹی مکمل طور پر شکست و ریخت سے محفوظ رہے


اکرام سہگل August 28, 2014

ایک آدمی نے ایک سینما گھر میں آگ آگ کا شور مچا دیا جس سے وہاں بھگدڑ مچ گئی جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ زخمی ہو گئے جب کہ کئی فلم بینوں کی جان جانے کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا ،کیا اس آدمی کو سزا دینا اس کے آزادی اظہار کے حق کے خلاف ہو گا، کیا ایسی آزادی کہ جس سے بے شمار معصوم لوگوں کی جانیں جانے کا اندیشہ ہو اس کے لیے انصاف کی کوئی منطقی توجیہہ بیان کی جا سکتی ہے؟

امریکی سپریم کورٹ کے جسٹس اولیور وینڈل نے آزادی اظہار کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جہاں خطرہ صاف صاف موجود ہو اس صورت میں اس قسم کے آزادی اظہار کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس سے بہت سے لوگوں کا نقصان ہونے کا احتمال ہو۔

امریکی آئین میں اعلان جنگ کا اختیار صرف کانگریس کو دیا گیا ہے اور اس بات کا فیصلہ بھی کانگریس ہی کرتی ہے کہ کس کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ اس اجازت کے بعد امریکی صدر کمانڈر انچیف کی حیثیت سے جنگ کی کمان سنبھال لیتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امریکی صدور کانگریس کی اجازت کے بغیر کوئی جنگ کر ہی نہیں سکتے حالانکہ ایسا درجنوں بار ہو چکا ہے مگر آج تک کسی امریکی صدر کا اس حوالے سے مواخذہ نہیں کیا گیا۔

1861ء میں ''Habeas Corpus'' کو معطل کرتے ہوئے مختلف علاقوں میں مارشل لاء لگانے کی اجازت دے دی گئی اور یہ کام امریکا کے سب سے عظیم تصور کیے جانے والے صدر ابراہام لنکن نے کانگریس کی منظوری کے بغیر ہی کیا تھا، وجہ اس کی یہ بیان کی گئی کہ قومی مفاد کا تحفظ باقی تمام چیزوں پر فوقیت رکھتا ہے جس کے لیے قانون کی روح پر عمل کرنا قانونی اصطلاحات پر عمل کرنے سے مقدم ہے۔

اب اگر ہم اسلام آباد میں آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت سیکیورٹی فورسز کو طلب کرنے کے معاملے کو دیکھیں تو یہ کام بھی حکومت کی طرف سے سیاسی مفاد حاصل کرنے کی خاطر کیا گیا ہے۔ مینول آف پاکستان ملٹری لاء (ایم پی ایم ایل) کے باب 9 کے تحت فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے طلب کیا جا سکتا ہے لیکن اس صورت میں فوجی افسروں کو ڈیوٹی مجسٹریٹ سے تحریری ہدایات حاصل کرنا ہوتی ہیں۔

اگر مجسٹریٹ غیر حاضر ہو تو فوجی افسر عوام کی سلامتی کے لیے اپنے طور پر عمل کر سکتا ہے لیکن ایسا کرنے میں اس پر لازم ہے کہ وہ کم سے کم طاقت استعمال کرے تا کہ لوگوں کو یا ان کی املاک کو کم سے کم نقصان پہنچے اور ضروری ہو تو شرپسندوں کو گرفتار کر لیا جائے لیکن اگر وہ افسر پوری طاقت کا استعمال شروع کر دے جو کہ اس کے پاس موجود ہوتی ہے تو اس صورت میں ہر قطرہ خون جو زمین پر گرے گا وہ ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دے گا۔

16 جون کو جب ماڈل ٹاؤن پولیس کی فائرنگ سے 14 افراد جاں بحق جب کہ 95 زخمی ہوگئے تھے تو یہ قانون کی صریح خلاف ورزی تھی آخر ایسا کس کے حکم سے ہوا کہ پولیس نے اشتعال انگیزی کی کسی کوشش کے بغیر گولی چلا دی۔ انٹیلی جنس ایجنسیز نے اس موقع پر ہونے والی گفتگو کی جو رپورٹ (ڈی سی آر) پیش کی ہے وہ ہماری حکمران اشرافیہ کے لیے خاصی مشکلات کا باعث ہو سکتی ہے۔مزید برآں وفاقی اور پنجاب حکومت نے ایف آئی آر درج کرانے سے روکنے کی کوشش کی ہے جس پر احتجاج کرنے والوں نے وزیراعظم کا استعفیٰ طلب کیا ہے۔

اب ایک اخلاقی الجھائو پیدا ہو گیا ہے کہ جمہوریت کی ایک تحریک جو قانون کی حکمرانی کے لیے چلائی جا رہی ہے کیا اسے بالجبر روکا جا سکتا ہے۔ کیا اس حوالے سے عمل اور بے عملی میں کوئی توازن برقرار رکھا جانا چاہیے کہ نہیں۔ کیا اس قسم کے مطالبات کے ذریعے قانون کو یرغمال بنایا جا سکتا ہے۔

یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ 1993ء میں جنرل وحید کاکڑ نے کس آئینی شق کے تحت صدر اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف دونوں کو گھر بھجوا دیا تھا اور یاد کریں 2008ء میں جنرل کیانی نے صدر زرداری پر زور ڈال کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کروایا تھا جب میاں محمد نواز شریف چوٹی کے آئینی وکیل اعتزاز احسن کے ہمراہ ماڈل ٹاؤن سے پولیس کا حصار توڑ کر گوجرانوالہ تک پہنچ گئے تھے۔ کیا اس وقت قومی مفاد زیادہ مقدم تھا یا آئین کے الفاظ۔ چیف جسٹس کو بحال کروانا تکنیکی طور پر غیر قانونی تھا جسے کہ چیف جسٹس نے ایک سال کے بعد اپنے طور پر قانونی قرار دے دیا تھا۔

جن لوگوں کی اہمیت ہے انھیں وسیع النظری کا اصول اپنانا چاہیے تا کہ آئینی اتھارٹی مکمل طور پر شکست و ریخت سے محفوظ رہے۔ پاکستان آرمی کو بخوبی احساس ہے کہ عملی طور پر ملوث ہونے کے بجائے ملکی بہتری کے لیے ان کا ''جج اور جیوری'' کا کردار زیادہ مناسب اور آئین کے دائرہ کار کے اندر ہے جب کہ حکومت اپنے کھیل کے منصوبے میں بہت سی غلطیاں کر رہی ہے جس کی وجہ سے اس کی ساکھ دائو پر لگ چکی ہے۔ بہت سی دیگر مشکلات کے ساتھ ساتھ اس وقت ایک بہت واضح اور موجودہ خطرہ نظر آ رہا ہے تاہم قانونی آراء اس بارے میں مختلف ہیں کہ آیا فوج آرٹیکل 245 کے تحت سپریم کورٹ میں جا سکتی ہے تا کہ اس سیاسی ڈیڈ لاک کو حل کروایا جا سکے یا نہیں۔

اگر سپریم کورٹ آرمی کی درخواست کو قانونی بنیادوں پر سماعت کرنے سے انکار کر دے یا سیاسی بحران حل کرنے میں ناکام ہو جائے تو پھر متبادل انتظام زیادہ دور نہیں رہتا اور چونکہ جمہوریت کا متبادل کوئی نظام نہیں جس کے لیے کہاوت ہے کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین مارشل لاء سے بہتر ہے۔ تو ایسی صورت میں ہمارے لیے کیا اختیار رہ جاتا ہے۔ مارشل لاء کبھی بھی جمہوریت سے بہتر نہیں ہو سکتا لہٰذا صاف صاف نظر آنے والے خطرے کا سدباب ضرور کیا جانا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں