ایک بدنصیب کی بپتا
میں اس وقت بھی موجود تھا، جب ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ کا نعرہ لگا۔ مگر میرے بچے قرض کے بوجھ سے آزاد نہیں ہوئے ۔۔۔
ہاں، میں عمران خان کے جلسے میں شریک تھا۔
میں ہزاروں شرکاء میں سے ایک تھا۔ میں نے گرمی اور حبس برداشت کیا۔ طوفانی بارشیں سہیں۔ میں اس وقت بھی موجود تھا، جب خان نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا۔ اور اس وقت بھی، جب اُن کا کنٹینر ریڈ زون میں داخل ہوا۔
اور میں قادری صاحب کے دھرنے میں بھی موجود تھا۔ میں نے راتیں فٹ پاتھ پر گزاریں۔ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ گندے غسل خانوں کا رخ کیا۔ میں اس وقت بھی موجود تھا، جب قادری صاحب نے کوٹ کھول کر بازو پھیلائے، اور کہا؛ چلائو گولی اور اس وقت بھی، جب تاروں میں شارٹ سرکٹ سے ہلکا سا دھماکا ہوا۔
میرا قصہ یہیں تمام نہیں ہوتا۔ میں اس لانگ مارچ میں بھی شریک تھا، جس کا مقصد چیف جسٹس کی بحالی تھا۔ میں نے اعتزاز احسن کی نظمیں سنیں۔ علی احمد کرد کے ساتھ نعرے لگائے۔ میں نے تحریک میں حصہ لینے والوں کو وزیر اطلاعات، وزیر قانون، وزیر اعظم بنتے دیکھا۔ میں اُس روز بھی موجود تھا، جب میاں صاحب اپنے متوالوں کے ساتھ اسلام آباد کی سمت بڑھے تھے، اور اعلیٰ افسران نے حکومتی احکامات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
اور میں 18 اکتوبر کے اس ہجوم میں شامل تھا، جو محترمہ بے نظیر بھٹو کا استقبال کرنے کراچی ایئرپورٹ پہنچا۔ میں ہزاروں جیالوں میں سے ایک تھا۔ میں گھنٹوں ان کی گاڑی کے ساتھ چلتا رہتا۔ دھماکے میرے سامنے ہوئے۔ لاشیں میرے سامنے بچھیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کون ہوں، کوئی تجزیہ کار، کوئی سیاسی کارکن یا کوئی پولیس افسر؟
نہیں۔ میں کوئی تجزیہ کار نہیں کہ وہ فقط ٹھنڈے کمروں میں پائے جاتے ہیں۔ سیاسی کارکن بھی نہیں کہ میں طاقت اور دولت؛ دونوں سے محروم ہوں۔ میں وہ صحافی نہیں، جو ریاست کا چوتھا ستون ہے اور وہ پولیس افسر بھی نہیں، جو نہتے شہریوں پر گولیاں چلاتا ہے۔
پریشان مت ہوں۔ میں اپنی شناخت مخفی رکھنے میں دل چسپی نہیں رکھتا۔ کیوں کہ میری کوئی شناخت، کوئی حیثیت نہیں۔ میں ایک عام آدمی ہوں۔ ایک بدنصیب آدمی۔ جس کی پاکستانی تاریخ میں کوئی اہمیت نہیں۔
تو میں ایک عام آدمی ہوں، جو روزگار کے ہر وعدے، روشن مستقبل کے ہر نعرے پر گھر سے نکل پڑتا ہے۔ جو کالا کوٹ پہن کر انصاف کے سپنے کا تعاقب کرتا ہے۔ ٹھنڈی گاڑیوں سے اترنے والے سیاست دانوں کی نظمیں سننے کے لیے دھوپ میں کھڑا رہتا ہے۔ بھوکا پیاسا اپنے لیڈروں کی گاڑی کے ساتھ دوڑتا ہے۔ جون کی گرمی میں جلسوں میں نعرے لگاتا ہے۔ سردیوں میں دھرنے دیتا ہے۔ ایک عام آدمی، جسے انقلاب کا، آزادی کا نعرہ خوش کن لگتا ہے۔ وہ سڑکوں پر احتجاج کرتا ہے۔ ڈنڈے کھاتا ہے۔ جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ اور پھر بُھلا دیا جاتا ہے۔ سسک کر مر جاتا ہے۔
تو میں ایک عام آدمی ہوں، جو آزادی اور انقلاب مارچ میں موجود تھا۔ میں نے ''پاکستان کھپے'' کے نعرے پر یقین کیا اور اگلے پانچ برس اپنے گائوں کی ترقی کا منتظر رہا۔ میں نے سیاسی مخالفین کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے وعدے کو حق جانا، اور پھر ناحق مارا گیا۔ میں نے ''سب سے پہلے پاکستان'' کہنے والوں کا ساتھ دیا اور اپنے خاندان کو بارودی پرندوں کا شکار بنتے دیکھا۔
میں اس وقت بھی موجود تھا، جب ''قرض اتارو، ملک سنوارو'' کا نعرہ لگا۔ مگر میرے بچے قرض کے بوجھ سے آزاد نہیں ہوئے۔ میں نے سیاسی جماعتوں کو اصول تج کر مفاہمت کرتے دیکھا۔ سیاست دانوں کو یہ عہد کرتے دیکھا کہ وہ آمروں کا مشن پورا کریں گے۔ اور آمروں کو یہ عہد کرتے دیکھا کہ وہ 90 دن میں الیکشن کروا دیں گے۔ اور میں نے مذہب کو سیاسی نعرہ بنتے دیکھا۔ میرے سامنے بھٹو صاحب کو عروج ملا، اور میرے سامنے پھانسی لگائی گئی۔ ہتھیار ڈالنے والوں کو قومی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔ جمہوری نظام اکھاڑ دیا گیا، عدلیہ کے توسط سے نظریۂ ضرورت کا ڈول ڈالا گیا۔
تو میں ایک عام آدمی ہوں، جو بہت کرب سہہ چکا ہے۔ سانحات برداشت کر چکا ہے۔ اس نے سیکڑوں بار دھوکا کھایا۔ اس کی روح چھلنی ہے، بدن زخموں سے چور ہے۔ وہ ہر بار اس امید پر گھر سے نکل آتا ہے کہ شاید اِس بار تبدیلی کا خواب سچ ہو جائے۔ شاید اس کی تقدیر بدل جائے۔ شاید حالات میں بہتری آ جائے۔ مگر کچھ نہیں بدلتا۔ چیزیں جوں کی توں رہتی ہیں، کیوں کہ ہمارے لیڈر خود کو بدلنا نہیں چاہتے۔ اُنھیں اپنے اقتدار، اپنے اثاثوں کی فکر ہے۔ رشتے داروں کو عہدے بانٹنے میں دل چسپی ہے۔ گو اہل اقتدار آئین اور قانون کی بالادستی کا نعرہ لگاتے ہیں، مگر حقیقتاً فقط اپنے مفادات کی تکمیل پر یقین رکھتے ہیں۔
سندھ عشروں قبل جہاں تھا، آج بھی وہیں کھڑا ہے۔ بلوچستان کی شورش کو نظرانداز کرنے کا سلسلہ جاری۔ خیبرپختون خوا دہشت گردی اور غربت کی لپیٹ میں۔ مرکز کا ذکر ہی کیا کہ چودہ اگست کو جنم لینے والے بحران نے قوم کو دیوانہ بنائے رکھا۔ اندیشے، خدشات ہمیں کھاتے رہے۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔ نہ جانے آنے والا کل کیا سانحہ ساتھ لائے۔ البتہ ایک بات ہم جانتے کہ سیاست دانوں نے ہمیں مایوس کیا۔ یہ آپ اپنے دشمن ثابت ہوئے۔ خود پیروں پر کلہاڑی ماری، اور فوجی حکومتوں کے لیے راہ ہم وار کی۔
اس وقت ملک میں ن لیگ کی حکومت۔ میاں صاحب پاکستان کے وزیر اعظم۔ اس حیثیت سے وہ میرے اور اٹھارہ کروڑ عوام کے لیڈر ہیں۔ ہم اور یہ ملک اُن کی ذمے داری۔ ان کے کاندھوں پر اوروں سے زیادہ بوجھ ہے۔ عوام کے ووٹوں نے اُنھیں پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا بستر دیا ہے۔ اور عوام چاہتے ہیں کہ اُن کا لیڈر ماضی کی غلطیاں نہ دہرائے۔
تو صاحبان، میں آپ کی طرح ایک عام آدمی ہوں۔ اور آپ کی طرح ہر چھوٹی بڑی، سیاسی غیر سیاسی تحریک میں شامل رہا ہوں۔ اور آگے بھی شامل رہوں گا۔
یہی مجھ بدنصیب کی بپتا ہے۔