عراق کے حالات پر علمائے اسلام کا موقف
عراقی اسلامی پارٹی بھی سنی مذہبی جماعت ہے اور عراقی سیاست میں فعال ہے ۔۔۔
مسئلہ صرف شام و عراق کا نہیں، پاکستان، افغانستان، یمن اور بعض افریقی ممالک میں بھی دہشت گردوں نے طویل عرصے سے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ہر ملک میں دہشت گردوں نے مختلف روپ اور مختلف نام اپنا رکھے ہیں، لیکن سب کا ہدف ایک ہے کہ اسلام کو بدنام، مسلمان ممالک کو کمزور اور مختلف طبقات کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیں۔ پاکستانیوں سے زیادہ کون اس فتنے کو جانتا ہوگا۔
سعودی عرب کے اسامہ بن لادن اور مصر کے ایمن الظواہری کو خلافت کی سوجھی تو اپنے ملکوں کے بادشاہوں تختہ الٹنے کے بجائے دنیا بھر میں دہشت گردی کے لیے پاکستان و افغانستان کی سر زمین استعمال کی۔ یہی حال ان کے ہم فکر ابومصعب زرقاوی کا تھا جو اردن کے شہری تھے لیکن انھوں نے عراق میں القاعدہ بنا ڈالی۔
زرقاوی مارا گیا تو اس کے ہمخیال گروہوں نے ایک نئے فتنے کو مقدس نام دے دیا یعنی دولت اسلامیہ فی العراق و الشام۔ پہلے یہ داع تھی اور شام کے اضافے کے ساتھ داعش ہو گئی۔ انگریزی میں اسے اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (ISIS) اور اسلامک اسٹیٹ ان عراق ایند لیونٹ (ISIL) کے نام سے شناخت کیا جا رہا ہے کیونکہ اردو میں جس ملک کو شام کہتے ہیں اسے عرب سوریا، ایرانی سوریہ اور انگریز سیریا کہتے ہیں۔ عرب جس علاقے کو شام کہتے ہیں انگریزی میں اسے لیونٹ کہا جاتا ہے۔
امریکی کنزرویٹو ویب سائٹ ورلڈ نیٹ ڈیلی کے مطابق داعش یا ISIS یا ISIL نامی دہشت گرد گروہ کے دہشت گردوں کو امریکا کی اسپیشل فورسز نے اردن میں دہشت گردی کی ٹریننگ دی ہے۔ سی این این کو انٹرویو میں ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر رینڈ پال کا کہنا تھا کہ امریکا داعش کو شام میں مسلح کرتا رہا، اس لیے صورتحال یہاں تک پہنچی۔ معروف امریکی تحقیقاتی صحافی، مصنف اور کالم نگار وین میڈسن نے بتایا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹرجنرل جون برینن نے داعش کی تخلیق کی اور اسے عروج بخشا۔ اور اب تو سابق امریکی وزیر خاجہ ہیلری کلنٹن نے بھی یہ اعتراف کیا کہ امریکی حکومت کی غلط پالیسی نے داعش کو جنم دیا۔
خطے میں صہیونی فائدے کے لیے قائم اتحاد میں بعض مسلم ممالک بھی امریکا کے اتحادی ہیں۔ داعش کا پہلا سربراہ عمر بغداد ی تھا اور اب ابوبکر بغدادی ہے۔ دبئی کے انگریزی روزنامہ دی نیشنل کے مطابق شام میں جو دہشت گرد زخمی ہوئے ان کا علاج صہیونی ریاست اسرائیل میں ہوا ۔ ترکی میں زیر علاج دہشت گرد کی تصویر حریت ڈیلی نے شایع کی تور ی پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے ترک حکومت سے وضاحت طلب کی۔
امریکا اور اس کے ناکام اتحادی فراموش کر جاتے ہیں کہ مصر کے عرب بہار کے نتیجے میں آنے والی اخوان المسلمین کی مرسی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل سیسی کو لانے والے بھی وہ خود ہیں۔ پھر یہ کہ جب ابراہیم جعفری کے سیاسی انتخابی اتحاد نے عراق کا پہلا جمہوری الیکشن جیتا تھا اور وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے تب امریکا ہی نے نوری المالکی کی حمایت کی تھی اور ابراہیم جعفری کو استعفیٰ پر مجبور کیا تھا۔
یہ تفصیلات اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے اپنی یادداشتوں کی کتاب نوہائیر آنر میں لکھیں اور امریکی صحافی باب وڈ ورڈ نے عراق جنگ پر اپنی کتاب اسٹیٹ آف ڈینائل میں تحریر کیں۔ نوری المالکی نے شام کے خلاف امریکی اسرائیلی اتحاد کا ساتھ نہیں دیا۔ اس الیکشن میں بھی ان کا انتخابی اتحاد جیت چکا ہے۔ لیکن اب حیدر ال عبادی ان کے امیدوار ہیں۔
پھر یہ بھی ہے کہ تبلیغاتی جنگ کے ذریعے فرقہ واریت پھیلانے کی سازش پر بھی عمل ہو رہا ہے۔ حالانکہ عراق میں سنی عرب اور کرد اقتدار میں شریک ہیں۔ نوری المالکی کے اتحاد میں بھی وہ شامل ہیں۔ عراق کے سب سے سینئر سیاستدان و سفارتکار عدنان باجہ جی اور ان کے ہم فکر سنی عرب سب عراقی نظام کا حصہ ہیں۔ صالح ال مطلک کا گروہ بھی اتحاد قائم کر کے الیکشن میں کئی نشستیں جیتتا ہے۔
عراقی اسلامی پارٹی بھی سنی مذہبی جماعت ہے اور عراقی سیاست میں فعال ہے۔ اسی جماعت کے رہنما اسپیکر منتخب ہوئے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ لبنانی نژاد صحافی ذکی شہاب نے 2005ء میں ہی اپنی کتاب میں عراقی صدر جلال طلبانی کی یہ گفتگو تحریر کر دی تھی کہ کرد بھی تو سنی ہیں، آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ سنی عراقی حکومت میں نہیں۔ اب بھی ان ہی کی جماعت کا ایک رہنما فواد معصوم عراق کا صدر ہے۔کردستان ویسے تو چار صوبوں پر مشتمل ہے لیکن کرد کرکوک کے بھی حکمران بنے بیٹھے ہیں۔
بصرہ ہو یا ضیالہ یا سامرہ ، سنی قبائل نے آیت اللہ سیستانی کے فتوے کے بعد مقامات مقدسہ سمیت عراق کی حفاظت کے لیے عراقی حکومت اور شیعہ رضاکاروں کی معاونت میں شرکت کے لیے السنہ نام کی تنظیم بھی بنائی اور کہیں بغیر تنظیمی ناموں کے خود کو رجسٹر کروایا ہے۔ عراق میں سنی شیعہ اتحاد کا یہ ناقابل انکار اظہار بتاتا ہے کہ عراق میں اسرائیل کے حامیوں اور اسرائیل کے دشمن صف آرا ہیں۔
عراق کے سنی علماء اور خاص طور پر مجلس علمائے عراق کے سربراہ خالد ال ملا نے امام خامنہ ای کے موقف کی تائید کی ہے اور سنی عربوں پر زور دیا ہے کہ وہ اتحاد امت کا مظاہرہ کریں۔عراق کے مختلف مقامات پر بعثی باقیات نے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے داعش کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے۔ اب بھی وہ طاقت کے زور پر عوام کو زیر کر رہے ہیں۔ ان کے اور داعش کے نظریات کو عوام نے مسترد کر دیا ہے۔
ترکی کے عام کرد ہوں یا عراق کے سنی عرب سبھی داعش سے خوفزدہ ہیں کیونکہ داعش نے صوفیوں، خواتین اور بچوں کو بھی گولیوں سے بھون ڈالا حتیٰ کہ سگریٹ پینے پر لوگوں کو سزائے موت دی۔ داعش کے اس سفاکانہ کردار کے بعد کوئی دیوانہ ہی اس کی حمایت میں بولے گا۔ انھوں نے شام میں سیدہ بی بی زینب کے روضے پر حملہ کیا۔ اور موصل میں شیعہ و سنی بزرگان کے مزارات کو حتیٰ کہ حضرت یونس علیہ السلام کے مزار کو بھی مسمار کیا۔
اسی لیے دنیا بھر کے سنی علماء نے داعش کی مذمت کی۔ علمائے اہلسنت بصرہ نے اس کے خلاف اجتماعی فتویٰ دیا۔ جمعیت علمائے اہلسنت عراق کے شیخ خالد الملاء اور جمعیت علمائے عراق کے شیخ محمد امین نے اسے غیر ملکی تخلیق قرار دیا۔ ان کے مطابق یہ تکفیری، صہیونی و امریکی مثلث ہے۔ فلسطین کی علماء کونسل کے سربراہ شیخ نمر زغموط نے داعش کو اسلام سے خارج قرار دیا۔ لبنان کی دعوت اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ شیخ عبد الناصر جبری نے داعش سے مقابلے کی تاکید کی۔
مصر کی الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر اشرف فہمی مرسی ٰنے کہا کہ دہشت گردوں کو خلیفہ کے تعین کا کوئی حق نہیں، اسلام لوگوں کے اموال لوٹنے اور ناموس پر حملوں کی اجازت نہیں دیتا۔ لبنان کی جمعیت علائے اسلام کے رکن شیخ رہبر جعیدی نے کہا کہ تکفیری اسلام کے دشمن ہیں اور انھوں نے مغربی ممالک کی مدد و حمایت سے شام میں جارحیت کی اور ناکام ہونے پر عراق آ گئے۔ ایران کے سنی عالم مولوی نذیر احمد نے کہا کہ داعش سمیت سارے دہشت گردوں کا مقصد صہیونی حکومت کا تحفظ ہے۔
ایرانی عالم امام جمعہ مریوان مصطفی شیرازی نے کہا کہ امریکا و صہیونی فنگر پرنٹس نمایاں ہیں دشمن اپنے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے اسلام کو متشدد مذہب بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے۔ ایرانی سنی علماء امام جمعہ بیجار ماموستا معروف خالد، امام جمعہ سنندج ماموستا امین راستی، ماموستا سید محمد سعید حسینی، کرمانشاہ کے امام جمعہ ملا محمد محمدی، جوان رود کے امام جمعہ ماموستا احمدی، ملا رشید صانعی اور امام جمعہ ملا نعمت حسینی نے بھی داعش کی مخالفت و مذمت کی۔ ان کے مطابق امریکا نے داعش ایجاد کی تا کہ دنیا کو اسلام سے ڈرائے۔
ان کا کہنا تھا کہ داعش نہ تو سنی ہے اور نہ ہی شیعہ بلکہ یہ دہشت گرد گروہ ہے۔ بھارت کے سنی عالم اور سابق رکن پارلیمنٹ مولانا عبیداللہ اعظمی نے کہا کہ داعش کے اقدامات اسلام و مسلمین کے خلاف اور امریکا و اسرائیل کی رضایت کے لیے ہیں۔ افغان رکن پارلیمنٹ محمد اکبری نے کہا کہ عالمی حمایت کی وجہ سے داعش بنی۔ برطانیہ میں مقیم سنی عالم مشرف حسین نے کہا داعش و دیگر دہشت گرد دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ یہی رائے پاکستان کے علمائے اہلسنت علامہ راغب نعیمی، اعجاز ہاشمی، رضائے مصطفی نقشبندی، علامہ محمد قاسم ودیگر اکابرین کی بھی ہے۔