پاکستان ایک نظر میں ہم بھی انسان ہیں

بڑے افسروں کی جھڑکیاں،عوام کی گالیاں اور میڈیا میں پولیس گردی کی گردان کے بعد تو ہمیں عادی ہو جانا چاہیے۔


شہباز علی خان August 31, 2014
بڑے افسروں کی جھڑکیاں،عوام کی گالیاں اور میڈیا میں پولیس گردی کی گردان کے بعد تو ہمیں عادی ہو جانا چاہیے۔ فوٹو فائل

اگر آج پولیس والے بھی ایک دھرنے کا آغاز کر دیں تو پھر کیا ہوگا؟کہ ہمیں ان سیاہ سیاستدانوں کے ہاتھوں ڈگڈگی پر ہاتھ پیچھے باندھ کر بند ر یا ریچھ کی طرح رقص کرنا منظور نہیں ہے کہ آخر میں ان کی غلاضت بھی ہم صاف کریں اور ان کو بچانے کے لئے اپنا ایک آدھا سول سرونٹ بھی قربان کریں۔یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی۔ہمارے پیٹی بھائی نے اچھا ہی کیا جو ادھر سے ادھر ہو گیا مجھے ایک بات پریشان کرتی ہے وہ اتنا اچھا ہو کیسے گیا،مگر پھر سوچتا ہوں کہ موقف بدلنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے،شاید وہ بھی کسی امید کے پیچھے چل پڑا ہواور یہ بھی اچھا ہی ہوا کہ رمضان کانسٹیبل کو وقت پر ہوش آگیا، نئے پاکستان کی محبت میں اپنی روزی لات مارنے کا جلدی احساس ہو گیا اوراس نے اپنا استعفی واپس لے لیا مگر وہ خالی خولی تنخواہ میں گزارا کیسے کرے گا؟مگر پھر سوچتا ہوں وہ بھی اس جمود سے تنگ آگیا ہو گا۔

اتنے دنوں سے اسے وہاں پر رکھڑا رکھا تھا۔ ہم بھی انسان ہیں ہمارے جسم بھی ایک خاص وقت کے بعد تھکتے ہیں،انہیں بھی دو گھڑی آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک طرف ہم پر الزام کہ ہم واردات کے بعد ٹائم پر نہیں پہنچتے، اب بندے ہیں جن تو نہیں ہیں،ہماری ڈیوٹیاں پولیس اسٹیشن پر تو اب ہوتی نہیں ہیں،جمہوری لیڈران کے گھروں اور دفاتر کے باہر جو بانسوں کی طرح صبح سے لے کر شام تک کھڑے رہتے ہیں وہ ہم ہی تو ہیں۔ذرا سا سلیوٹ ڈھیلا پڑ جائے تو مصیبت۔اب جس وزیر موصوف کے گھر میں فرائض کی ادائیگی سر انجام دے رہا رہوں ان کی سبزی لانا بھی میرے فرائض میں سے ایک ہے،کل کی بات ہے اس نے مجھے آلو لینے اس لیے بھیجا کہ بڑے صاحب کو ڈھنگ کی سبزی لینا نہیں آتی ،سبزی والا باتوں میں الجھا کر گلی سڑی سبزی دے دیتا ہے تم جاؤ اور ساتھ دو چار سپاہی لے جاؤ ،سستی بھی اور زیادہ بھی لے آؤ گے۔

ا ب میں وردی پہنے سرکاری جیپ میں دو کلو آلو اور ہری مرچیں لینے گیا ہوا تھا۔ان سیاست دانوں کے چونچلے اب میں کیا بتاؤں ۔بس پردہ ہی پڑا رہنے دیں اور گھر کی بات کیا کروں گھر تو بھول ہی گیا ہوں، عید یا شب رات پر بھی چھٹی نہیں ملتی مگر بوڑھے ماں باپ کی دوائیاں ، دو بچوں کی ا سکول کی فیس اور کپڑے لتے ، آٹا چینی کا بھاؤ اور بجلی گیس کے بلز چین نہیں لینے دیتے ۔ابھی یہ شکر ہے کہ بیوی صابر ملی ہے یاد نہیں آخری مرتبہ کب اسے نئے کپڑے لے کر دیے تھے۔ میں نے بھی کیا رونا شروع کر دیا ہے بڑے افسروں کی جھڑکیاں،عوام کی گالیاں اور میڈیا میں پولیس گردی کی گردان کے بعد تو ہمیں عادی ہو جانا چاہیے مگر قدرت نے بھی ہمارے ساتھ زیادتی کی کہ عزت نفس اور ضمیرکے خانے بھی رکھ دیئے حالانکہ اسے پتا تھا کہ ہم نے پاکستان کی پولیس کا حصہ بننا ہے تو پھر ان بے وقعت چیزوں کی کیا ضرورت تھی۔

اوئے جلدی سے تیس کا ایزی لوڈ دینا میں نے سلاما باد فون کر کے خیر خبر معلوم کرنا ہے۔

یہ وہ گفتگو تھی جو جدید موہنجو ڈارو میرا مطلب اسلام آباد سے کم ہ بیش ہزار کلومیٹر دور جنوبی پنجاب کے ایک شہر رحیم یار خان کے ایک مشہور چوک میں بنی ایزی لوڈ کی دکان پر ایک ہیڈ کانسٹیبل نے مجھ سے کی۔ گفتگو سے زیادہ یہ خود کلامی تھی۔

مگر کیا ہم میں سے کوئی ان کے ساتھ ان کے کسی بھی موقف پر کھڑا ہوگا؟کیا سول نا فرمانی کا آغاز ہو چکا ہے؟آئی جی اسلام آباد آفتاب چیمہ نے کیا پہلا پتھر مارا ہے؟ اور کیا آگے برسات ہونے والی ہے؟ کیا ہر پولیس اہلکار جرم کو روکنے، ملزم کو پکڑنے، یا شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے ہنگامی حالات میں تحریری حکم کا مطالبہ کرے گا کہ تحریری حکم آئے تو وہ کارروائی کرے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے اپنے آپ کو کبھی اتنا غیر محفوظ نہیں سمجھا جتنا آج محسوس ہوتا ہے آپ تصور کریں کہ رات کے درمیانی پہر ڈاکو آپ کے گھر میں گھس جائیں گھر والے یا کوئی ہمسایہ پولیس کو اطلاع دے ، پولیس موقع پر پہنچ کر مسلح ڈاکوؤں سے مقابلہ کے لئے تحریری حکم کا انتظار کرے تو آپ کی کیا حالت ہوگی؟

ہمارے ہاں وہ ادارے جو اس پست قد اور منحنی جسامت کی بھوک زدہ جعلی قوم کے لئے بنائے جاتے ہیں وہ بوجھ بن کر ان کے ناتواں جسموں پر سوار ہی ہو جاتے ہیں۔ کیا اس نئے پاکستان میں ان کی اصلاح ممکن ہو گی؟ کیا یہ سسٹم ہم واقعی میں ٹھیک کر سکتے ہیں؟۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں