ذہن و روح کی اکائی
یہ حقیقت ہے کہ ہم محبت کرنے کا سلیقہ بھلا بیٹھے ہیں۔ محبت جو زندگی کا خالص پن ہے۔۔۔
موجودہ دور میں ملک کو کئی سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کے درمیان گھری ہوئی انفرادی سوچ منتشر ہے۔ ذات کا انتشار اجتماعی شعور کو پنپنے نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے سر ''ڈھر'' میں اہل سندھ کو مستقبل کے خطرات سے آگہی عطا کی ہے۔ انگریزی کے شاعر ولیم بلیک نے اپنی نظم میں شاعر کو ولی اور پیغمبر کا خطاب دیا ہے، جو بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل کا علم رکھتا ہے۔ جو غافل انسانوں کو اپنے روشن لفظوں کے توسط سے سوچ کی مرکزیت عطا کرتا ہے۔ بعض اوقات قوم کی زندگی میں سماجی شعور ٹھہرے ہوئے پانی جیسا ہو جاتا ہے اور قومی مفاد سامراجی قوتوں کے جال کے شکنجے میں پھنسنے لگتا ہے۔
رہنا اے گوسفند تو ہوشیار
دفعتہً و نظر بدلتے ہیں
گلہ بانوں سے رہتے ہیں خائف
گلہ بانوں کے گھر میں پلتے ہیں
قوموں کی زندگی میں وقت پر فیصلے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ چاہے فرد واحد ہو یا مشترکہ مفاد ہو وقت پر کیے گئے فیصلے اور دور اندیشی قوم کو گمنامی کی دلدل میں گرنے سے بچا لیتے ہیں۔ یہ ذاتی کمزوری اور تذبذب شیکسپیئر کے کرداروں میں ہمہ وقت موجود ہے، جسے Hamartia ہمرشیا کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی کیفیت نے منیر نیازی سے شہرہ آفاق نظم ''ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں'' تخلیق کروائی۔ شاہ کے کردار یقین کی طاقت رکھتے ہیں۔
خود آگہی کے جوہر سے بہرہ ور ہیں ہر سازش سے باخبر ہیں، جو چالاک دشمن نے اپنے حریف کو پسپا کرنے کے لیے ترتیب دی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شاہ صاحب بار بار اپنے شعر کے ذریعے، ہر عام و خاص کو چوکنا رہنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ یہ زندگی قدم قدم پر خطرات میں گھری ہوئی ہے۔ اگر یہ یکجہتی کے محور سے ہٹ جائے تو بند گلی کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔ اور ذہن ایک قید خانہ بن جاتا ہے۔
دل صیاد میں بھی ناوک تھا
کونج کو یہ نہ ہو سکا معلوم
دفعتہً اک فریب نے اس کو
کر دیا اپنے جھنڈ سے محروم
ڈھر کے معنی نغمگی، شعریت اور کوہستانی سلسلوں کی وادی ہے۔ سر ڈھر کا خیال غفلت میں گھرے ہوئے انسان کو بیدار کرتا ہے۔ وہ عام آدمی کو اس خطرے سے واقف کرتا ہے جو اس کے قومی تشخص اور تہذیب کو مٹا دینا چاہتا ہے۔ اگر وہ اپنی زبان، جغرافیائی وحدت اور فرض سے غافل ہے، تو دشمن کو وار کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ سر ڈھر کا مرکزی خیال ملک کے موجودہ مسائل اور انتشار کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ معاشرہ اتفاق کے ہنر کو کھو چکا ہے۔ یہ ربط باہمی کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے ہر طرف نفرت، عداوت، تعصب اور غلط فہمی کے مہیب بادل چھائے ہوئے ہیں۔ اناپرستی کے اندھیروں میں لوگ راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ نفرت سے کبھی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ تضادات ہمیشہ محبت سے حل ہوتے ہیں۔
آدمیوں میں بھی ہے مگر کمیاب
ان پرندوں میں جو اخوت ہے
ایک ہی غول ایک ہی منزل
ہمسفر، راہبر محبت ہے
یہ حقیقت ہے کہ ہم محبت کرنے کا سلیقہ بھلا بیٹھے ہیں۔ محبت جو زندگی کا خالص پن ہے۔ جس سے دوری عارضی اور سطحی رویوں کو جنم دیتی ہے۔ محبت جن معاشروں سے روٹھ جاتی ہے، وہ خواہشوں کا سلگتا ہوا جہنم بن جاتے ہیں۔
شاعر اپنے دور کا ترجمان کہلاتا ہے۔ شاہ صاحب نے جاگیرداری نظام کی خامیاں دیکھی تھیں۔ سندھ میں کلہوڑہ دور حکومت نے انتشار برپا کر رکھا تھا تو دوسری طرف ہندوستان میں مغلیہ دور انتظامی بدنظمی سے مرقع تھا وہ اور اورنگزیب کا بدترین دور حکومت تھا۔ اسی دوران، نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی نے سندھ پر جو حملے کیے، وہ تمام تر تکلیف دہ مراحل کا مشاہدہ، شاہ صاحب نے اپنے اشعار کے توسط سے بیان کیا ہے۔ کوئی بھی تباہی فقط اپنے اندر تباہ کن اثرات نہیں رکھتی، برے تجربات و مشاہدات تعمیری رخ بھی اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ مگر یہ سوچ کا انداز ہے کہ فقط تعمیری سوچ یا پھر محض تخریبی رویے اپنا لیے جائیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ منفی رویوں سے کبھی بھی حوصلہ افزا نتائج سامنے نہیں آتے۔
شاہ صاحب نے سندھ کے سیاسی، سماجی و معاشی حالات کا تجزیہ باریک بینی سے کیا۔ اور ان مسائل کا حل اپنے شعروں کے توسط سے دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کی نظر میں انسان کی بے خبری انتشار کو ہوا دیتی ہے۔ بے خبر شخص ذات کے فریب میں مبتلا ہے۔ وہ انفرادی سوچ کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ سچائی پر مبنی اس کی پرفریب باتیں، محض دکھاوا ہیں۔ اس لیے وہ عوام سے کہتے ہیں کہ یہ جھوٹی اور من گھڑت باتیں ہیں۔
جو راستہ تمہیں دکھایا جا رہا ہے، وہ صحرا کے دشوار گزار راستوں کی طرف لے جائے گا۔ پیاس اور دھوپ کی شدت موت کا پیغام لے کر آئے گی۔ لہٰذا کسی دوسرے کی آنکھوں سے دنیا کو مت دیکھو، نہ اس کے کانوں سے سنو اور نہ ہی اس کے ذہن سے سوچو۔ رہبر باہر کہیں نہیں ہے، وہ تمہارے اپنے اندر موجود ہے۔ کیونکہ منزل کی طرف جانے والے تمام تر راستے انسان کی اپنی سوچ سے نکلتے ہیں۔ اگر دل میں اندھیرا ہے تو باہر کی روشنی بے اثر ہے۔ بالکل اسی طرح یقین کامل ساتھ نہ ہو تو منزل بھی ہر قدم کے ساتھ دور ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ انسان کو ذہن و روح کی اکائی چاہیے۔ یہ وحدت انسان کو ذاتی تنظیم عطا کرتی ہے۔ وہ نہ فقط زندگی کے محاذ پر اپنا دفاع کرسکتا ہے بلکہ بھٹکے ہوئے مسافروں کی بھی راہنمائی کرتا ہے۔
یہی پیغام مولانا رومی کا بھی ہے:
فرد میگیرد ز ملت احترام
ملت ز افراد می یا بد نظام
فرد کی اہمیت اجتماعیت سے ہے، جو تحفظ عطا کرتی ہے تنظیم کو، اسی فرد واحد سے۔
شاہ صاحب بھی فرد واحد کو اپنے اندر کی قوت سمجھنے اور محسوس کرنے کی ترغیب اپنے اشعار کے ذریعے دیتے ہیں۔ درحقیقت شاہ صاحب کے الفاظ سچ کی صدا ہیں۔ آواز و خیال ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ لہٰذا کہنے اور سننے کے درمیان ناسمجھی کا کوئی خلا سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ جو سوچ کو یقین کے محور سے بھٹکا سکے۔ ذہن و روح کی اکائی سے ہی منتشر سوچ اپنے مرکز کی طرف لوٹ آتی ہے۔
ملک کے موجودہ حالات دن بہ دن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ قومی مفادات کے پیش نظر تمام تر رہبروں کو محاذ آرائی کی سیاست سے گریز کرنا چاہیے۔ جمہوریت تو ہے مگر جمہوری رویے مفقود ہیں۔ جس سے جمہوریت کی روح بری طرح سے زخمی ہو جاتی ہے۔ وسیع النظری، منطقی و مہذب گفتگو معاملات کی پیچیدگی کو سلجھا سکتے ہیں۔ شاہ صاحب اس رہبر کامل کی بات کرتے ہیں جو قطع نظر اپنی ذات اور انا کی برتری کے عام لوگوں کی بھلائی کی بات کرتا ہے۔
خوشا وہ لوگ بیداری سے جن کو
یقیں کی روشنی حاصل ہوئی ہے
شبانہ خلوتوں میں جن کے دل کو
سحر کی تازگی حاصل ہوئی ہے