’’ٹرام‘‘ تاریخ کی نظر میں
ایک وقت تھا جب شہری کراچی کی سڑکوں پر ٹراموں میں سفر کیا کرتے تھے۔۔۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق صدر (کراچی) کی مخصوص سڑکوں کو وہیکل فری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ایمپریس مارکیٹ کے اطراف کی سڑکوں پرگاڑیوں کی آمدورفت بند کرکے پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص کیا جائے گا، صدر میں ٹرام وے چلائی جائیں گی، منصوبے کی تیاری کے لیے مشیر کا تقرر کردیا گیا، ٹرام وے منصوبہ 2 سال میں مکمل ہوگا، درمیانی مدت میں شٹل بس سروس شروع کی جائے گی، منصوبے کی نگرانی کے لیے ویجیلنس کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔
ایک وقت تھا جب شہری کراچی کی سڑکوں پر ٹراموں میں سفر کیا کرتے تھے۔ اس وقت یہ بہت ہی مقبول سواری تھی۔ آج اس سواری کی یادیں، چند تصاویر اور کچھ نشانیوں کی صورت میں باقی رہ گئی ہیں۔ اگر آپ کسی ایسے شخص سے بات کرلیں، جس نے کراچی کی رونقوں کو 1975 تک دیکھا ہوا ہے تو وہ اس شہر میں اس وقت چلنے والی ٹراموں کی یاد میں کھو جائے گا۔ 1975 کے دوران ہی ٹراموں کا نیٹ ورک ختم کردیا گیا کیوں کہ صدر کا علاقہ کافی گنجان ہوچکا تھا، جس کی وجہ سے ٹراموں کے ساتھ حادثات میں اضافہ ہوگیا اور پھر مزید یہ کہ ٹراموں کی اپنی حالت بھی خستہ ہوچکی تھی اور مرمت میں دشواریاں پیش آرہی تھیں۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اتنے سارے ٹرام جو چل رہے تھے اور وہ پورا انفرااسٹرکچر جو اس نظام کو چلا رہا تھا، آخر کہاں تحلیل ہوگیا؟ معلوم نہیں۔ البتہ مجھے اتنا یاد ہے کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ چاکیواڑہ ٹرام پٹہ جنکشن(لیاری) سے صدر بازار کے لیے سفر کیا کرتا تھا۔ ٹرام کا ہینڈل پیتل کا ہوا کرتا تھا، ڈرائیور کے پاؤں بریک اور گھنٹی (ہارن) کے ساتھ تھے اور میں شرارتی طور پر چپکے سے ڈرائیور کے پاؤں کے قریب جاکر اس گھنٹی کو بجاتا جس سے (ڈگ ڈگ) کی آواز آتی اور میں لوگوں کی ٹانگوں کے نیچے چھپ جاتا۔ مجھے آخری بار ٹرام کی سواری اچھی طرح یاد ہے۔ میں اور میرا بڑا بھائی ڈاکٹر نظیر احمد تاج لڑکپن میں تھے ٹرام پٹہ چاکیواڑہ (لیاری) سے سوار ہوئے فی کس کرایہ 15 پیسہ (ایک سکہ 10پیسے کا اور ایک سکہ 5 پیسے کا دیا) اور ایم اے جناح روڈ پر واقع نشاط سینما کے اسٹاپ پر اترے اور مارننگ شو میں پاکستانی فلم ''دشمن'' دیکھی جس کی کاسٹ میں محمد علی، زیبا، وحید مراد، ممتاز اور ادیب شامل تھے۔
''آٹا مہنگا ہے چاچا'' محمد علی کا یہ مکالمہ آج بھی مجھے یاد ہے اور آج بھی آٹا مہنگا ہے غریبوں کے لیے۔ اس کے بعد 1980 تک میں نے کراچی میں غیر استعمال شدہ ٹرام کی پٹڑیوں کو زنگ آلود حالت میں بھی دیکھا اور انھیں سڑک سے اکھاڑتے اور اس میں دفن ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔کراچی ٹرام وے کی تاریخ 90 سال پر محیط ہے (1885-1975) اس کی بنیاد کراچی شہر کے میونسپل سیکریٹری اور انجینئر جیس اسٹراچن نے ڈالی جن کو میتھیوز نے ٹراموے نیٹ ورک کی تعمیر کے ٹینڈر پیش کیے۔ 1883 تک کاغذی تیاریاں مکمل کرکے ٹراموے سروس کو بھاپ سے چلنے والے انجن سے شروع کرنے کے لیے حکومت کو منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔ اکتوبر 1884 سے اس کی تعمیرکا باقاعدہ کام شروع ہوا۔ 10 اپریل 1885 کو کراچی میں عوام کے لیے پہلی مرتبہ ٹرام سروس شروع ہوئی۔
سابقہ نیٹی جیٹی پل موجودہ جناح کریک برج (ٹاور) سے کیماڑی تک ٹرام کی پٹڑی بچھائی گئی تھی۔ اس موقعے پر ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جن ممتاز شخصیتوں نے اس تقریب میں شرکت کی۔ ان میں کمشنر سندھ ہنری نیپئر جی ارسکائن، سندھ ڈسٹرکٹ کمانڈنگ آفیسر بریگیڈیئر جنرل جی لک اور ان کی صاحبزادی، اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر جے پولین اور قندھار افغانستان کے سابق والی ہز ہائی نس پرنس شیرے علی خان بمع اسٹاف شامل ہیں۔ ان تمام افراد کو پٹڑیوں پر اسٹیم سے چلنے والی ٹرام میں بٹھاکر اسکاچ چرچ سے کیماڑی لایا اور واپس لے جایا گیا۔ اس پروجیکٹ کے لیے اسکاچ چرچ پر ایک بہت بڑا خیمہ لگایا گیا تھا، جہاں ان مہمانوں کی خاطر تواضح کی گئی۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کمشنر سندھ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ''کراچی ٹراموے ویسٹرن انڈیا میں اسٹیم سے چلنے والا پہلا ٹراموے ہے، یہ ٹراموے پیسنجروں کے ساتھ ساتھ بار برداری کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ اس وقت بار برداری کے لیے ٹراموے کی اشد ضرورت تھی کیونکہ ان دنوں کراچی پورٹ کی گہرائی بہت محدود تھی۔ جہاز موجودہ کیماڑی بندر گاہ میں لنگر انداز ہوتے تھے اور چھوٹی کشتیوں کے ذریعے مال میری ویدر گودی (موجودہ جناح برج) نیٹی جیٹی میں پہنچا دیا جاتا تھا۔1886 میں ٹرامز کو بھاپ کے بجائے گھوڑوں کی طاقت سے چلایا گیا۔ اس تبدیلی سے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ بھاپ کے انجنوں سے رہائشی اور تجارتی علاقوں میں کافی شور ہوتا تھا۔ ہر پندرہ منٹ بعد اسٹیم ٹرام مصروف علاقوں سے گزر کر شہریوں کے آرام میں خلل ڈال دیتا تھا۔
گھوڑوں کے آنے کے بعد اسٹیم ٹرام ڈپو تک ہی محدود ہوگئے۔ جب کراچی کے ٹرام دو گھوڑوں کی طاقت سے چلتے تھے تو اخراجات کے لحاظ سے یہ بہت سستا نظام تھا۔ اس کے برعکس اسٹیم ٹرام کوئلہ چلانے سے حرکت میں آتے تھے اور یہ کوئلہ انگلینڈ سے منگوایا جاتا تھا، جو بہت مہنگا پڑتا تھا۔ موجودہ سندھ (بشمول کراچی) کا نظام 1912 تک بمبئی پریذیڈنسی کے تحت چلتا تھا۔ آج بھی ڈینسو ہال کے قریب اور صدر کے کچھ علاقوں میں جانوروں کے لیے مخصوص اصطبل کے نشانات باقی ہیں، جو ان دنوں میں ٹرام کھینچنے والے گھوڑوں کے کھانے پینے کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔
جلد ہی گھوڑوں کی طاقت سے چلنے والے ٹرام سائز کے لحاظ سے بڑھتے گئے۔ کچھ ڈبے لائٹ ریلوے کی صورت اختیار کرگئے۔ پھر ان ٹرامز میں نہ صرف پیسنجرز(مسافر) بلکہ پٹرول انجن استعمال کرکے مال و اسباب بھی لادا گیا۔ جو کمپنی ٹراموے چلا رہی تھی اس کا نام بعد میں دی ایسٹ انڈیا ٹراموے کمپنی رکھا گیا۔ اس کمپنی کے چیف انجینئر جان برنلٹس تھے۔ ان صاحب کی شہرت کراچی میں کافی پھیلی ہوئی تھی کیونکہ وہ کراچی سے کوٹری ریلوے لائن کے حوالے سے بہت جانے پہچانے جاتے تھے، جو ان ہی کی نگرانی میں تعمیر ہوئی تھی۔
گھوڑوں سے چلنے والے ٹرام بند کیے گئے، 23 مارچ 1905 کو کراچی میں پٹرول سے چلنے والے ٹرام کا آغاز ہوا۔ پٹرول ٹرام میں 46 پیسنجروں کی گنجائش تھی اور یہ 18 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے تھے۔ پٹرول سے چلنے والے ٹرام کے لیے نئی پٹڑی بچھائی گئی۔ 1913 کے آخر تک کراچی میں پٹرول سے چلنے والی ٹراموں کی تعداد37 تھی جو 1955 میں 64 تک پہنچ گئی۔ 1955 میں ٹرام کمپنی کراچی کے ایک رہائشی شیخ محمد علی نے خرید لی جس کے بعد اس کا نام محمد علی ٹرام وے کمپنی (MTC) رکھا گیا۔ 1975 تک یہی کمپنی ٹراموں کو چلاتی رہی۔
30 اپریل 1975 کو کراچی ٹراموے کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا۔ اس وقت ٹراموں کا ایک مرکزی جنکشن بولٹن مارکیٹ پر تھا اور بندر روڈ (محمد علی جناح روڈ) پلازہ سینما کے سامنے جہاں آج کل گل پلازہ قائم ہے، ورکشاپ قائم تھی۔ بولٹن مارکیٹ سے کمپنی نے کیماڑی، صدر، گاندھی گارڈن (کراچی چڑیا گھر) سولجر بازار اور چاکیواڑہ(لیاری) تک ٹرام سروس عوام کی سہولت کے لیے مہیا کی ہوئی تھی۔
22 اکتوبر 1928 کو چاکیواڑہ ٹرام جنکشن کا افتتاح ہوا اس دن چاکیواڑہ (لیاری) سے مسافروں کو بٹھاکر اس ٹرام کے ذریعے بولٹن مارکیٹ تک پہنچایا گیا تھا۔ ٹرام ایک بہت ہی آرام دہ، سستی اور ہلکی پھلکی سواری ہوتی تھی۔ ریل کے ڈبے کی شکل جیسی، لیکن اس کا نہ کوئی دروازہ ہوتا اور نہ کھڑکیاں۔ پیسنجروں کے بیٹھنے کے لیے آمنے سامنے بینچ (سیٹ) ہوتے تھے۔ اس ڈبے کے دونوں جانب سے اترنے اور چڑھنے کی سہولت موجود تھی۔
ریل کی پٹڑیوں کی طرح ٹرام کی پٹڑیاں بھی ہر روٹ پر بچھی ہوتی تھیں۔ ہر روٹ کے لیے ٹکٹ کا کرایہ ایک آنہ یا اس سے کم ہوتا تھا۔ ٹرام کی سواری سے بہتر کوئی اور سواری نہیں تھی۔ اگر اس کا احیا دوبارہ کیا گیا تو یہ نئی نسل کے لیے خاص طور پر اہل کراچی کے لیے انمول تحفہ ہوگا۔