لشکر کشی اور ریاست کے فرائض
ایک اپوزیشن کے ساتھ خلیفہ اسلام کے اس بے نظیر رویے کا تصور موجودہ جمہوری نظام سے نہیں کیا جا سکتا۔۔۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ''جس شخص نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، بغیر اس کے کہ اس سے کسی جان کا بدلہ لینا ہو ، یا وہ زمین میں فساد برپا کرنے کا مجرم ہو،اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا ،( سورۃ المائدہ آیت ۲۳)۔خلفائے راشدین نے اپنے مخالفوں کو معاف کر دیا۔
ایک اپوزیشن کے ساتھ خلیفہ اسلام کے اس بے نظیر رویے کا تصور موجودہ جمہوری نظام سے نہیں کیا جا سکتا کہ جتنی آزادی اسلام نے اپوزیشن کو دی ہے اتنی آزادی کسی بھی نظام میں ممکن نہیں ہے۔ جب تک بات صرف زبانی حد تک رہی تو تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا گیا لیکن جب باقاعدہ جنگی کارروائیاں کیں تو آپ نے ان کے خلاف تلوار اٹھائی اور بالآخر ایک خارجی نے ہی آپ کو شہید کردیا۔حقوق انسانی کا یہ تصور اسلام نے سیکڑوں برسوں سے انسانیت کو دیا ہے، لیکن جب حقوق انسانی کے حوالے سے وائٹ ہاؤس اور برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ یا مغرب کا حوالہ دیے جاتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ حقوق انسانی کے حوالے سے انھیں اسلام کے جید خلفا ء وحکمرانوں کی مثالیں کیوں یاد نہیں آتیں ، حالاں کہ یہ نعمت اسلام کے ذریعے پوری دنیا کو ملی ورنہ دنیا ان چیزوں سے نا آشنا اور نری جہالت میں مبتلا تھی۔
حقوق انسانی کے حوالے سے تصور انگلستان کے میگنا کارٹا کے ذریعے نصیب ہوا اگرچہ پھر بھی وہ اسلام کے چھ سو برس کے بعد کی چیز ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ سترہویں صدی کے قانون دانوں سے پہلے کسی کے ذہن میں یہ تصور موجود نہ تھا کہ میگنا کارٹا میں ٹرائل بائی جیوری، ہیبسیس کارپس ((Habeas Corpusاور ٹیکس لگانے کے اختیارات پر پارلیمنٹ کے کنٹرول کے حقوق بھی شامل ہیں ۔جب کہ اسلام میں انسانی حقوق کی بات کی جائے تو اس کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ یہ حقوق اللہ کی جانب سے عائد کیے گئے ہیں یہ کسی بادشاہ یا کسی مجلس قانون ساز کے دیے ہوئے نہیں ہیں کہ جب چاہے ان کو واپس لے لیا جائے یا ان میں بزعم خواہش تبدیلی لائی جائے ، دنیا کی کوئی مجلس قانون ساز اور دنیا کی کوئی حکومت ان کے اندر ردوبدل کرنے کی مجاز نہیں ہے ان کو واپس لینے یا منسوخ کردینے کا کوئی حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔
پاکستان میں حقوق کے نام پر جس طرح کا انتشار پیدا کیا جاچکا ہے اس سے پوری مملکت میں انارکی کی ایک کیفیت پیدا ہوچکی ہے اور اس کا لازمی نتیجہ تصادم کی صورت میں نکلتا ہے ۔ اسلام آباد میں سترہ دنوں سے جن اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی تھی اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا جو اسلام آباد میں نکلا ۔ کوئی بھی باشعور انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ دونوں جماعتوں کے دھرنوں کے قائدین نے انسانی حقوق کے حوالے سے اس بات کا خیال رکھا ہو کہ ان کی تقاریر سے معاشرے میں کس قدر فرسٹریشن پیدا ہو رہی ہے اور اس کے نتائج کس قدر ہولناک ہوسکتے ہیں۔
جمہوری نظام ، یقینی طور پر اسلامی نظام سے متصادم ہے اور اس کے اکثریتی امور و احکام اسلام سے متصادم ہیں ، لیکن ایسے ایک عبوری دور کا نام دیا جا سکتا ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی سرزمین پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نظام اس لیے نافذ نہیں ہوسکا کیونکہ مملکت میں مختلف فرقوں و مسالک کی وجہ سے ممکن نہیں تھا کہ کس مسلک و فرقے کے عقائد پر مبنی نظام نافذ کیا جائے لیکن یہ ضرور ہو سکتا تھا کہ جن باتوں پر تمام مکاتب فکر کا اجماع ہو انھیں اسلامی طرز معاشرت کے نام پر نافذ کیا جاسکتا تھا لیکن بد قسمتی سے اسلامی نظریاتی کونسل کی دی گئی سفارشات کو اہمیت نہیں دی جاتی اور مغربی طرز حاکمیت کی بنا ء پر ہماری تمام تر توجہ یہود و نصاری کی خوشنودی تک ہی محدود ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ ہم اسلام کے زریں اصولوں کو چھوڑ کر جب مغرب کو اپنا آئیڈیل بنا لیں تو اس قوم کے لیڈروں کے ساتھ ان کے پیروکار بھی سوائے تباہی کے کوئی اور تحفہ نہیں دے سکتے۔پاکستان میں جب کسی خاص مکتبہ فکر نے اسلام کے نام پر جبری طور پر ایک ایسے نظام کے نفاذ کے لیے مسلح تحریک کا سلسلہ شروع کیا تو اس سے معاشرے میں عدم استحکام پیدا ہوا اور شدت پسندی کے رجحان کو فروغ حاصل ہوا ۔جب ان کا طرز عمل تمام حدود سے تجاوز کرگیا تو ان کے خلاف فساد فی الارض کے جرم میں بھرپور ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں لاکھوں انسانوں کو بنا کسی جرم کے نقل مکانی بھی کرنا پڑیں ، ان کے گھر بار گولہ بارود کے نذر ہوگئے ان کے معاشی وسائل تباہ و برباد ہوگئے لیکن ریاست کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام پر ان کی جانب سے صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی ۔
آج بھی کسمپرسی کے عالم میں لاکھوں انسان ریاست کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔سوات ، جنوبی وزیرستان پھر شمالی وزیرستان میں عسکری قوت کی جانب سے بھرپور طاقت کا مظاہرہ اس لیے کیا گیا کیونکہ چند ناعاقبت اندیش افراد اور گروہ کی جانب سے حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا گیا اور ریاستی اداروں پر حملے کرکے ریاست کی قوت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی جس کے بعد یہ ناگزیر ہوگیا کہ ان عناصر کے خلاف ریاست بھرپور قوت کا مظاہرہ کرے اور انھیں ریاست کی رٹ تسلیم کرنی پڑے ۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد نے عسکری قوت کے ساتھ ملکر قربانیوں کی مثال قائم کی اور اپنے آبا و اجداد کی سر زمین کو چھوڑ دیا ۔
یہ ان کی پاکستان سے محبت ہی تھی جس پر انھوں نے اپنے مفادات و آسائش پر ترجیح دی اور نقل مکانی اختیار کی اب انھیں نہیں معلوم کہ ان کے حقوق کب بحال ہونگے ۔ در بدر اور بے سرو ساماں یہ لاکھوں افراد ، صدیوں کی روایات اور ثقافت کے امین ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جبری طور پر ہزاروں سال سے ان پر کوئی حکمرانی نہیں کرسکا ، لیکن ان کے نزدیک حب الوطنی اولین ترجیح تھی اس لیے انھوں نے حکومت کے ساتھ تعاون کیا ۔
اسلام آباد میں بھی ریاست کے اداروں کو یرغمال بنالیا گیا ، ریاستی اداروں کی رٹ کو چیلنج کیا اور چند ہزار کے مجمع نے اپنے نظریے کے مطابق من پسند نظام لانے کی کوشش کی جس پر ان کا تصادم ریاست کے اداروں سے ہے ۔ ان کے بیانات و تقاریر میں ریاست کے خلاف مزاحمت ہے ۔جب تک ان کی تقاریر زبانی حد تک تھیں تو اس وقت تک حکومت کی جانب سے صبر و تحمل ایک مناسب حد تک ٹھیک تھا لیکن جب ریاست کے خلاف کھلی لشکر کشی اور اداروں پر قبضہ کرنے کی کوشش میں تصادم ہوگیا اور دنیانے یہ مظاہرہ براہ راست دیکھا۔ رینجرز اور پولیس بھی پاکستان کے ادارے ہیں اور ان میں بھرتی و ڈیوٹی دینے والے کسی دوسری ملک کے دشمن نہیں ہے کہ انھیں ہلاک و تشدد کرنے کے لیے جارحیت و تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے۔