شہنشاہ

ہر شخص اب سوچنے پر مجبور ہو چکا ہے کہ نظام حکومت اور اہل حکومت کیسے ہیں اور انکو دراصل کیسا ہونا چاہیے؟ ۔۔۔


راؤ منظر حیات September 06, 2014
[email protected]

PESHAWAR: ممالک کی تاریخ میں کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں جن پر فوری رد عمل بے معنی ہوتا ہے۔ نتائج بہت آہستہ آہستہ افشاں ہوتے ہیں اور کئی بار یہ قوموں کا مستقبل اور حال دونوں تبدیل کر دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بعینہ ایسے ہی کچھ حادثاتی واقعات ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔ آپ غور فرمائیے! اول تو میں اس صورتحال کو جنگ نہیں سمجھتا۔ میں اسے کشمکش سے اوپر کوئی لفظ نہیں دے سکتا۔ اس کے کئی سنجیدہ نقصانات بھی ہوئے ہیں مگر کچھ فائدے بھی نظر آتے ہیں۔

سب سے پہلے تو ہر شخص اب سوچنے پر مجبور ہو چکا ہے کہ نظام حکومت اور اہل حکومت کیسے ہیں اور انکو دراصل کیسا ہونا چاہیے؟ انسانی حقوق کیا ہیں اور انکو کیسا ہونا چاہیے؟ ہمارے اداروں کی خوبیاں اور خامیاں مکمل طور پر سامنے آ چکی ہیں۔ مالی مفادات ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ان قائدین کو بھی عریاں کر چکے ہیں تو ڈور کے دھاگے میں پیسے کی قوت سے جڑے ہوئے ہیں۔ لین دین کا نظام کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ اب کوئی فریق بھی دوسرے فریق کی اخلاقی برتری کو ثبوت کے بغیر ماننے کو تیار نہیں ہے۔

ہم تمام لوگ ایک عنصر سے اب شدید متاثر ہیں۔ وہ ہے ہمارا میڈیا! میڈیا ایک انتہائی دور رس اور طاقتور فریق بنکر معاشرے کے سامنے آیا ہے۔ میرا عرض کرنے کا مقصد صرف اس کی اہمیت بتانا ہے۔ اس میں جس طرز کے چند اہم لوگ جانبدارانہ رویوں کے مالک ہیں، وہ بحث بالکل الگ ہے۔ میں یہ گزارش اس لیے کر رہا ہوں کہ اخبارات اور الیکڑونک میڈیا دراصل ایک کاروبار ہے۔ ہر کاروبار کی مانند میڈیا کے اپنے تجارتی مسائل ہیں۔ یہ مسائل ان کے لیے کاروباری زندگی اور موت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر آپ آج کے میڈیا کی تجارتی دنیا میں درویش، ولی اور قطب تلاش کرنا چاہتے ہیں تو آپکو قدرے مایوسی ہو گی۔ بلکہ درویش، قطب تو اب بیوروکریسی سے لے کر ہر طبقہ فکر سے عنقا ہو چکے ہیں۔ اب تو ہر جانب دنیا داری کا منفعت بخش کھیل ہے۔ جو اس کاروبار میں جتنا موثر ہے، وہ اتنا ہی کامیاب گردانا جاتا ہے۔ باقی سب بھیڑ بکریاں یا زیادہ سے زیادہ زائد المیعاد شناختی کارڈ کی جعلی کاپیاں ہیں۔

مگر ایک چیز جس پر کسی کا کوئی بس نہیں چلتا وہ انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کی موجودگی ہے۔ آپ اس کی مخالفت کریں یا پر زور حمایت۔ سوشل میڈیا اب ایک ایسا تن آور درخت بن چکا ہے، جسکی موجودگی سے آپ درگزر نہیں کر سکتے۔ ہر وہ بات جو کسی بھی طرز سے اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان کے سوشل میڈیا پر پوری طاقت سے موجود ہے۔ قواعد و ضوابط جو پرنٹ یا الیکٹرونک میڈیا کو گرفت میں رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا ان سے مکمل آزاد ہے۔ اس مادر پدر آزادی سے کئی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ مگر مجموعی طور پر یہ آپکو اپنے معاشرے اور سیاسی نظام کا اصل چہرہ دکھا دیتا ہے۔ اس پر کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔

ہر اہم شخص کے متعلق تمام معلومات تفصیل سے موجود ہیں۔ میں کئی بار حیران رہ جاتا ہوں کہ یہ تمام معلومات دراصل کہاں سے آ رہی ہیں۔ سیاست دانوں کے عزیز رشتہ دار جو مراعات حاصل کر رہے ہیں، وہ تمام بے لاگ طریقے سے سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ کسی قومی لیڈر کے کتنے عزیز ایم۔این۔اے، ایم۔پی۔اے یا وزیر ہیں۔ وہ تفصیل بھی آپکے سامنے اظہر من الشمس ہے۔ آپکا کونسا قومی لیڈر دراصل کتنا مقبول یا غیر مقبول ہے۔ یہ انتہائی اہم جزو بھی پوری ایمانداری سے سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ آپ یقین فرمائیے! ہمارے کئی محترم نجی ادارے جو مختلف شخصیات اور حالات کا منطقی تجزیہ کرنے کے بعد ضخیم رپورٹس شایع کرتے ہیں، سوشل میڈیا کے سامنے مکمل بے حیثیت نظر آتے ہیں۔

آپ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ ہمارے ملک کو دہائیوں سے عدل، انصاف، ایمانداری اور بے لوث طرز سے نہیں چلایا جا رہا جو عام لوگوں کا بنیادی حق ہے۔ آپ تھوڑا سا تحقیقاتی جائزہ لیں تو جن اصولوں پر عمل کر کے ہماری سیاسی قیادت نے ایک عظیم ملک تشکیل کیا تھا۔ شائد اس میں بہت کم ثمرات غریب آدمی کی کٹیا تک پہنچ پائے ہیں۔ غریب اور امیر کے فرق پر بات کرنی اب محض وقت کا ضیاع ہے کیونکہ اب یہ تلخ حقیقت ہے۔ تمام نظام امیر طبقہ کی حفاظت میں مصروف کار ہے۔ غریب کا پرسانِ حال نہ کوئی پہلے تھا اور نہ کوئی اب ہے۔ بلکہ مشکل بات تو یہ ہے کہ وہ ہمارے ملک میں مستقل طور پر لاوارث رہیگا۔

ہمارا طرزِ حکمرانی کسی بھی دور میں مثالی نہیں رہا۔ ہمارے صدر، وزراء اعظم تاریخ انسانی کے اچھے اور بلند کرداروں سے مکمل طور پر نا بلد ہیں۔ میں کسی طبقاتی جنگ کی طرف اشارہ نہیں کر رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے قائدین نے چھ سات دہائیوں سے کسی طریقے سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ مجھے تو اب یہ بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ جمہوریت کیا ہے اور بادشاہت کیا ہوتی ہے۔ دونوں میں کتنا فرق ہے۔ کم از کم ہمارے ملک میں اس تفریق کو منطقی طریقے سے بحث میں لانا ممکن نہیں ہے۔ اور سچ پوچھئے تو اب میں اس لاحاصل بحث سے کوسوں دور رہنا چاہتا ہوں۔

جوزف(Joseph 11)11 آسڑیا کے شاہی خاندان کا فرد تھا۔ مگر آج سے تین صدیاں پہلے پیدا ہونے کے باوجود وہ مختلف خیالات کا حامل بادشاہ تھا۔ دراصل وہ مشہور سیاسی فلسفی والٹیر(Voltaire) سے شدید متاثر تھا۔ اس کا شاہی خاندان کسی نے کسی طریقے سے تقریباً پورے یورپ پر حکمرانی کر رہا تھا۔ اس کی بڑی بہن فرانس کی ملکہ تھی۔ شاہی خاندان کا فرد ہونے کے باوجود بلکہ آسٹریا کا بادشاہ ہونے کے باوجود وہ ایک حیرت انگیز آدمی تھا۔ وہ یہ کہتا تھا کہ حکومت کرنے کے لیے طاقت ضروری ہے مگر حکومتی نظام میں دلیل کی قوت بھی بہت اہم ہے۔ محض طاقت، خوف یا فوج کے ذریعے ملک کو نہیں چلایا جا سکتا۔

سترویں اور اٹھارویں صدی میں یورپ پر پوپ کا بہت زیادہ اثر تھا۔ اس وقت تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ چرچ یا پوپ کے مذہبی خیالات سے متصادم کوئی بات کی جا سکتی ہے۔ بادشاہوں اور حکومتوں کو بنانے اور بگاڑنے میں پوپ کا مطلق العنان کردار تھا۔ مگر جوزف نے اپنے ملک میں مکمل مذہبی آزادی کا اعلان کر دیا۔ اس نے حکم نامہ جاری کیا کہ اس کی رعایا میں ہر شخص اپنے عقیدہ کے مطابق بلا خوف و خطر زندگی گزار سکتا ہے۔ یہ بات پوپ کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ جوزف نے وہ کام کر دکھایا جو آج کی دنیا تک بہت کم حکمران کر پائے ہیں۔ اس نے1781ء میں تمام چرچ حکومتی تحویل میں لے لیے۔ اس نے مذہب کی بنیاد پر قتل کو مکمل ناجائز قرار دے دیا۔

جوزف11 نے اپنی سلطنت میں حیرت انگیز تبدیلیاں کرنا شروع کر دیں۔ اس کے خیال میں قومیں سائنس اور تعلیم کی بنیاد پر ترقی کرتی ہیں۔ لہذا بادشاہ نے پرائمری تعلیم کو تمام رعایا کے لیے لازم قرار دے دیا۔ اس نے اپنی سلطنت میں ہزاروں اسکول بنوائے جہاں بچے جا کر مفت تعلیم حاصل کرتے تھے۔ جو والدین غربت کی بدولت اپنے بچوں کو تعلیم مہیا نہیں کر سکتے تھے ان کے لیے حکومتی وظیفوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اس نے طب کی تعلیم پر بہت زیادہ زور دیا۔ یورپ میں اس وقت مختلف بیماریوں کی بدولت لاکھوں انسان لقمہ اَجل بن رہے تھے۔ چنانچہ جوزف نے حکومتی خرچہ پر ڈاکٹر بنانے شروع کر دیے۔

اس نے ویانا (Vienna) میں 1784ء میں دنیا کا سب سے بڑا اسپتال بنوایا۔ اس اسپتال کا نام Allgemenies Krankenhaus تھا۔ اس میں تمام امراض پر جدید ریسرچ کیجاتی تھی اور لوگوں کا علاج مفت کیا جاتا تھا۔ جوزف کو بیوروکریسی کی طاقت کا اندازہ تھا۔ اس نے تمام سرکاری افسروں کی ترقی کو میرٹ سے مشروط کر دیا۔ وہ یہ کہتا تھا کہ اگر افسر میرٹ پر آگے نہیں آئینگے تو وہ لوگوں کو انصاف مہیا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لینگے۔ اس کی اصلاحات کا سلسلہ ہر شعبہ حکومت پر غالب رہا۔ اس نے اپنے دور حکومت میں6000 شاہی فرمان جاری کیے۔ یہ تمام فرمودات کسی نہ کسی شعبہ میں اصلاح کے متعلق تھے۔

آپ اندازہ کیجیے اس نے تین سو سال قبل اپنی سلطنت میں زرعی اصلاحات کا نظام رائج کر دیا۔ اس دور کی اشرافیہ جوزف کے خون کی پیاسی ہو گئی مگر اس نے زرعی اصلاحات کو ختم کرنے سے مکمل انکار کر دیا۔ یہ بھی حکم دیا کہ کسان کو اس کی محنت کی اجرت بروقت دی جائے اور وہ اجرت اس دور کے سکہ رائج الوقت کے حساب سے ہونی چاہیے۔ یہ ایک ایسا قدم تھا جو ہمارے جیسے ملک آج تک نہیں کر پائے۔ اس نے جاگیرداری کے نظام کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ کہتا تھا کہ ایک جاگیردار محنت کیے بغیر غریب کسانوں کا خون چوستا ہے جو کسی بھی اعتبار سے قانونی نہیں ہے۔ جاگیرداروں نے اس کے خلاف کئی بغاوتیں کیں۔ جوزف ان سے جنگیں لڑتا رہا۔ مگر اس نے کسانوں کے یکساں حقوق پر اپنا فیصلہ واپس لینے سے انکار کر دیا۔

اس نے اپنی سلطنت کی مکمل پیمائش کروائی۔ اس نے زرعی زمین اور بنجر زمین کی تفریق کی۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس نے ٹیکس کا ایک نیا نظام قائم کیا جو کہ کسان پر لاگو نہیں تھا بلکہ اس کو زمین کے مالک سے وصول کیا جاتا تھا۔ آپ حیران ہو جائینگے کہ اس نے صدیوں پہلے موت کی سزا کو خلاف قانون قرار دے ڈالا۔ اس نے ایک عدالتی نظام ترتیب دیا جسکا جائزہ وہ خود لیتا تھا اور اس نظام کا کام کسی خوف اور لالچ کے بغیر عام لوگوں کو انصاف مہیا کرنا تھا۔ قیدیوں کے حقوق کے لیے ایک مکمل نظام ترتیب دیدیا۔ اس نے ظالمانہ سزاؤں کو ختم کر دیا۔ قیدیوں کے حقوق آزاد شہریوں کے برابر قرار دیے گئے۔ شائد آپکو یقین نہ آئے۔ شائد آپ میری بات کو سچ نہ سمجھیں مگر جوزف نے صدیوں پہلے اپنی سلطنت میں پریس (اخبارات) کی آزادی کو مکمل فروغ دیا۔ صاحبان فہم! اس نے خبر کو سنسر(Censor) کرنے کے تمام قوانین ختم کر ڈالے۔

میرا سوال یہ ہے کہ آج سے تین صدیاں پہلے اگر ایک سلطنت کا مختار کل بادشاہ یہ اصول سمجھ سکتا تھا کہ حکمرانی کی بنیاد رعایا کی حفاظت اور خوشحالی پر ہے۔ اگر وہ بادشاہ ہونے کے باوجود یہ جان چکا تھا کہ عام لوگوں کے حقوق یکساں ہونے چاہیئں۔ وہ انصاف کی قدر و منزلت سے واقف تھا۔ تو پھر آج ہم اکیسویں صدی میں حکمرانی کے ان بنیادی اصولوں سے منحرف کیوں ہیں! ہمارے مقتدر حلقے اخلاقی طور پر اتنے پست کیوں ہیں! ہم جھوٹ، فریب، دروغ گوئی کو سیاست اور حکمرانی کا نام کیوں دیتے ہیں! جوزف بادشاہ ہونے کے باوجود جمہوری رویہ کا مالک تھا۔ مگر ہمارے حکمران ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آنے کے باوجود اکیسویں صدی کے شہنشاہ کیوں ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں