White Sun of the Desert

بسماچی تحریک زار اور سوویت عہد کے خلاف مسلمانوں کی ایک بغاوت تھی جس کا آغازپہلی جنگ عظیم کے بعد 1916ء میں ہوا


قادر خان September 07, 2014
[email protected]

بسماچی تحریک نامی بغاوت دراصل روس کے جابرانہ طرزِ حکومت ، ثقافتی جبر اور سوویت عہد میں اشتراکیوں کی جانب سے زراعت کے حوالے سے مطالبوں کے خلاف ایک مقامی تحریک تھی جس کے پیچھے مسلم روایت پسندی اور تورانیت اہم عناصر تھے۔ 1916ء میں روسی سلطنت نے مسلمانوں کے عسکری خدمات سے استثنیٰ کا قانون ختم کردیا تھا جس کے خلاف وسط ایشیا میں زبردست بغاوت پھوٹی ۔ زار انتظامیہ کی جانب سے زمینوں کی جبری وصولی نے ماحول پہلے ہی خراب کر رکھا تھا اور اس فیصلے نے گویا عوام میں آگ بھڑکا دی ، اس بغاوت کو کچلنے کے لیے زار کی افواج نے بد ترین مظالم کا بازار گرم کیا۔

زار کے خلاف فیض اللہ خوجایوف جیسے رہنماؤں نے اشتراکی حلقوں کا ساتھ دیا اور بخارا اور خوارزم کے حصول میں سرخ افواج کی مدد کی جب کہ سابق امیر بخارا محمد علیم خان جیسے رہنماؤں نے بسماچی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی اور ان کے دو جرنیلوں نے 30 ہزار جنگوؤں پر مشتمل لشکر تیار کیا۔خوارزم و بخارا کی حکومتیں روسی ریاست کے زیر انتظام تھیں اور ان کی پھٹو حکومتیں تھیں اور ان ہی کے اشاروں پر ناچتی تھیں جب کہ بالشیوک مخالف سفید افواج کے مقابلے میں بسماچیوں کو کسی طرح کی بیرونی امداد بھی حاصل نہیں تھی اس کے باوجود 1920ء کے اوائل تک بسماچی وسط ایشیا کے بڑے حصے میں پھیل گئے تھے ۔

بسماچی تحریک زار اور سوویت عہد کے خلاف مسلمانوں کی ایک بغاوت تھی جس کا آغازپہلی جنگ عظیم کے بعد 1916ء میں ہوا، سوویت اتحاد نے اس بغاوت کو بدترین اندازمیں کچلا۔گو کہ لنین حکومت نے ترکستانی باشندوں کے اعتراضات کے خاتمے کے لیے ان سے مصالحت کا منصوبہ بنایا جس میں غذائی اجناس کی فراہمی ، محصولات میں نرمی ، زرعی اصلاحات کے وعدے ، اسلام مخالف پالیسیوں کے خاتمے اور زراعت پر حکومتی ضابطے کے خاتمے کے وعدے شامل تھے ۔ان اقدامات نے بسماچی تحریک کی کشش کو کم کردیا اور سرخ افواج کے لیے بسماچیوں کو زیر کرنا ممکن بنا دیا۔

گویا یہ عوامی غیض وغضب کو کم کرنے کے لیے ایک منصوبہ بندی تھی جس میں عوامی حمایت حاصل کی گئی لیکن درپردہ اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے پوری قوت کا استعمال کیا گیا۔بسماچیوں کے خلاف سوویت حکومت نے اپنی اصلاحات کے جھانسے میں مسلم دہقانوں پر مشتمل ایک رضا کار فوج تشکیل دی جو سرخ چھڑیاں کہلاتی تھی اور باضابطہ افواج میں مسلمان فوجیوں کو شامل کرکے انھیں بسماچیوں کے خلاف لڑا دیا ، یہ حکمت عملی کامیاب ہوئی ۔ نومبر 1921ء میں سلطنت عثمانیہ کے سابق وزیر جنگ اسماعیل انوار پاشا خطے میں آئے اور انھوں نے خطے میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے سوویت اتحاد کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا ۔

جب کہ اس سے قبل سوویت حکومت نے ان سے امن پیشکش کی جسے انور پاشا نے ٹھکرا دیا اور پندرہ روز میں روسی فوج کو انخلا کی وراننگ جاری کردی ۔ ماسکو حکومت کے خلاف ان جنگجوؤں کے خلاف جنگ جاری رہی لیکن ماسکوکے مسلمان دہقانوں کو دھوکے سے شامل کیے جانے کے سبب' جنگ کفرون 'میں بسماچی جنگجوؤں کو شکست ہوئی انور پاشا کو 4 اگست 1922ء میں موجودہ ترکمانستان میں سوویت افواج کے خلاف حتمی کارروائی کی تیاریوں کے دوران شہید کردیا گیا۔

انور پاشا کے بعد بسماچیوں کی قیادت سلیم پاشا نے سنبھالی لیکن انھیں 1923ء میں افغانستان فرار ہونا پڑا اور پھر اہم قائدین کے مارنے جانے کے بعد بسماچی تحریک نے خفیہ انداز میں پہاڑوں میں خفیہ ٹھکانوں کے ذریعے کارروائیوں کا آغاز کردیا لیکن اس نتیجے میں وہ عوامی حمایت سے محروم ہوگئے کیونکہ عوام، اغوا اور دہشت گردانہ کارروائیوں کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتے تھے۔1926ء تک بسماچی بغاوت حقیقتاً اپنے انجام تک پہنچ گئی تاہم سوویت افواج نے بسماچی رہنما ابراہیم بیگ کو گرفتار کرلیا۔ 1934ء میں بسماچیوں کے آخری گڑھ کو موجودہ کرغستان میں ختم کردیا گیا۔ سوویت ذرائع کے مطابق اس بغاوت میں 1441ء روسی فوجی ہلاک ہوئے۔

یہ مسلمانوں کی اس جدوجہد کی حقیقی داستان ہے جب برصغیر کے مسلمانوں میں ہندوستان سے آزادی کی عملی تحریک شروع بھی نہیں ہوئی تھی، چونکہ اسلام ساری دنیا کے لیے نبی اکرم ﷺ کے توسط سے پیام رحمت اور ظلم کے خلاف مزاحمت کے لیے تا قیامت مقرر کیا گیا تھا اس لیے اسلام کے نام لیوا دنیا کے کسی کونے میں بھی ہوں اگر اسلام کے خلاف لادینوں اور مسلم دشمنوں کی کارروائیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں تو مسلم قوم میں وہ جذبہ حریت بیدار ہوجاتا ہے جسے شدت پسندی و عسکریت پسندی کا نام دیا جاتا ہے۔

انقلاب روس نے اگرچہ یورپ کے نظام کو ہمیشہ کے لیے دگرگوں اور پراگندہ کردیا تھا مگر اس کے بعد جب صنعتی انقلاب آیا تو اس نے جہاں ہالینڈ ، فرانس اور انگلستان کو یورپ کے سب سے متمدن اور ترقی یافتہ ممالک بنادیا۔ وہاں روس جیسے ممالک کو جن کی معیشت زرعی تھی، قعر مزلت میں ڈال دیا ،1847ء میں کارل مارکس اورالیکس نے اشتمالی منشور شائع کیا جو صنعتی کارخانوں میں مزدوروں کو بغاوت پر آمادہ کرتا تھا۔ کارخانے دار مزدور سے کام لینے کے لیے ان پر کوڑے برساتے اور ظلم کرکے طرح طرح کی اذیتیں دیتے تھے مگر اس فلسفے نے روس میں جوصنعتی لحاظ سے پسماندہ اور جاگیردارانہ نظام معیشت کا حامل تھا لنین کے دماغ کو انگیخت دی اور اس نے کیمونسٹ اصولوں کی علم بردار سیاسی تحریک کی بنیاد ڈالی ، کارل مارکس نے کہا تھا کہ سرمایہ داری نظام کے خلاف انقلاب روس میں ہوگا اور یہ دعویٰ حیرت انگیز طور پر درست نکلا۔ 1917ء میں زار روس کی حکوممت زمین بوس ہوئی اور لنین روس پہنچا اور حکومت کا سنگ بنیاد رکھا جو دنیا میں سب سے پہلی سوشلسٹ جمہوریہ کہلائی ۔

اس انقلاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے پہلا انقلاب فروری میں زار حکومت کے خاتمے کے وقت ہوا اور عبوری حکومت قائم ہوئی اور دوسرا انقلاب اکتوبر میں جس میں اشتراکیوں نے عبوری حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور دنیا کی پہلی اشتراکی جمہوریت قائم کی۔بسماچی تحریک ان ہی دنوں میں اٹھنے والی ایک مسلم تحریک تھی جو اشتراکی حکومت کی جانب سے زراعت کے حوالوں سے نا انصافیوں پر مبنی احتجاج تھا ، لنین حکومت جہاں سرمایہ داری نظام کے خلاف ایک استعارے کے روپ میں سامنے آیا اور زار روس میں انقلاب کا باعث بنا لیکن جب بات مسلم عوام کی روایات اور جبر کی جانب آئی تو یہاں بھی انھوں نے اس بات کو نہیں دیکھا کہ یہ زمینیں کس کی ملکیت ہیں۔ترکستان وسط ایشیا کا ایک خطہ ہے جس میں آج بھی اکثریت ترکوں کی ہے ۔

یہ او غور ترک ، ترکمان، ازبک ، قازق ، خزر ، کرغز اور ایغور قوموں کی سرزمین ہے یہی اقوام وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی گئیں اور آج ترکی ، آذربائیجان اور تاتارستان ان ہی ترکوں کی ریاستیں ہیں، ترکمانستان کو مغربی اور مشرقی ترکمانستان میں تقسیم کیا گیا ، مغربی ترکمانستان وہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے جس پر سوویت یونین نے قبضہ کرلیا تھا جب کہ مشرقی جسے چین میں سنکیانگ کہا جاتا ہے ، چین کے ایغور علیحدگی پسند سنکیانگ کو ایغورستان کہتے ہیں ، یورپ اور چین کے درمیان تجارت کا اہم راستہ شاہراہ ریشم اسی سے ہوکر گذرتا ہے۔ چین سے مشرقی ترکمانستان کی آزادی کے لیے ترکمانستان اسلامی موومنٹ جدوجہد کر رہی ہے۔

تاہم دنیا میں مسلمانوں کی کئی تنظیمیں اپنا حق لینے کے لیے مختلف طریقوں سے عمل کر رہی ہے اور ان سب کو پاکستان ہی ایک ایسی مملکت نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان دشمن عناصر اور ممالک پاکستان کی بقا اور سالمیت کے خلاف ہیں گو کہ پاکستان خود عالمی استعماری سازشوں کا گڑھ بنا ہوا ہے کیونکہ پاکستان ان عالمی طاقتوں کے لیے کمزور ہونا ضروری ہے تاکہ ایٹمی طاقت پاکستان عالمی مسلم سیاست میں کوئی موثر کردار ادا نہ کرسکے اور مسلم دنیا کا لیڈرنہ بن جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں