ایک اہم ادارہ
تبدیلی کے عمل سے گھبرانا اور کترانا انسان کی فطرت ہے اور بدقسمتی سے ہمارا سرکاری ڈھانچہ روایت پرست اور قدامت پسند۔۔۔
ایسے پرآشوب ماحول میں جب کہ اچھی خبریں کم اور بری خبریں زیادہ موصول ہو رہی ہیں صحافتی حوالے سے no news is a good news والی کہاوت بھی غنیمت معلوم ہوتی ہے۔ ان حالات میں یہ خبر بہار کی ہوا کے جھونکے سے کم نہیں کہ ہمارا صوبہ پنجاب آج کل ٹیکنالوجی کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے اور وہاں ایک عظیم ڈیجیٹل تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ڈیجیٹل تبدیلی کا یہ عمل حکومت کو اس کی کارکردگی کا حقیقی جائزہ لینے میں معاون و مددگار ثابت ہوگا جس کے نتیجے میں عام شہریوں کے ساتھ اس کا رابطہ مضبوط سے مضبوط تر ہوگا۔
شاید بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (PITB) نامی ادارہ ایک خاموش خدمت گار کے انداز میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے صوبے کی کایا پلٹنے میں مصروف ہے۔ یہ ادارہ اسمارٹ فونز اور نئی موبائل ایپلی کیشنز اور طریقہ کار سے استفادہ کرتے ہوئے وبائی امراض کو کنٹرول کرنے، امتحانات کے طریقہ کار کی تشکیل نو، اسکول ٹیچرز کی حاضریوں کے نظام کی اصلاح و درستی، املاک و جائیداد کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کرنے، درسی کتابوں کو اپ لوڈ کرنے، غلہ لگانے والے کاشتکاروں کو خدمات کی فراہمی، کرائے داروں کی رجسٹریشن، صوبے میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کے اندراج، ڈرائیونگ لائسنسوں کے اجراء، آن دی اسپاٹ ٹریفک ٹکٹنگ سسٹم کے فروغ اور ٹیکسوں کے انتظام و انصرام جیسی اہم سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
ان تمام کاوشوں کا بنیادی مقصد صوبے کے مختلف شعبوں کی کارکردگی کو بہتر سے بہتر کرنے کے لیے اسے سائنسی خطوط پر استوار کرکے جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا ہے تاکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے نقش قدم پر چلا جاسکے۔ اس نظام کے متعارف ہونے کے نتیجے میں تمام متعلقہ امور جو پرانے اور فرسودہ نظام کے باعث غیر مربوط اور بے ہنگم ہیں پوری طرح Stream Line ہوجائیں گے جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ہیرا پھیری اور بدعنوانی کے راستے مسدود ہوجائیں گے۔
اگرچہ فرسودہ روایات اور طور طریقوں کی پیروی کی ہماری عادت اس کاوش کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے لیکن امید ہے کہ یہ بہت زیادہ دیر تک اس تبدیلی کی راہ میں حائل نہ ہوسکے گی۔ دوسری جانب لکیرکے فقیر بنے رہنے والے ہمارے سرکاری اہلکار، کارندے اور افسر شاہی کے نمائندے بھی تبدیلی کی اس لہر کی راہ میں زیادہ عرصے تک مزاحمت نہیں کرسکیں گے۔ بس زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ تبدیلی کے اس عمل کی رفتار کو تھوڑا سست کردیں۔ بورڈ کی نئی ٹیم کا کہنا ہے کہ صوبے کے بااختیار سیاسی قائدین کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جوکہ خوش آئند اور لائق تحسین ہے۔
PITB کے چیئرمین قطعی مطمئن ہیں کہ انھیں اپنے کام کو آگے بڑھانے میں مکمل آزادی حاصل ہے اور کسی بھی جانب سے کسی بھی طرح کی کوئی مداخلت نہیں کی جا رہی۔ تبدیلی کے عمل سے گھبرانا اور کترانا انسان کی فطرت ہے اور بدقسمتی سے ہمارا سرکاری ڈھانچہ روایت پرست اور قدامت پسند واقع ہوا ہے۔ ہمارے سرکاری دفاتر کا عام رویہ یہ ہے کہ ایک کرسی یا میز کو بھی ادھر سے ادھر کھسکانا بھی دفتری عملے کو بہت گراں گزرتا ہے۔ ہماری بیوروکریسی اور انتظامیہ بھی اسی پرانی روش پر چلنے کی عادی ہے۔ ایسے ماحول میں معمولی سی بھی تبدیلی لانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ چناں چہ ہر کسی کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے تبدیلی کی راہ میں روڑے اٹکائے اور ممکنہ حد تک مخالفت اور مزاحمت کرے۔ لیکن اگر قیادت مخلص اور پرعزم ہو تو پھر بڑی سے بڑی مشکل بھی آگے بڑھنے کی راہ میں زیادہ دیر تک حائل نہیں رہ سکتی۔
پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اسے ایک پرعزم اور باحوصلہ چیئرمین میسر آگیا جس نے اپنے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھا لیا۔ مگر ایک کہاوت بڑی مشہور ہے کہ ''اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔'' سو یہ کہاوت PITB کے ادارے پر بھی صادق آئی جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے چیئرمین صاحب نے اپنی ٹیم کے انتخاب میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جس کے نتیجے میں یہ ادارہ کامیابی کی نت نئی منزلیں طے کرتا چلا گیا۔
اس کی سب سے نمایاں کامیابی ڈینگی کو کنٹرول کرنے میں نظر آئی جس کا سہرا اس ادارے کے چیئرمین عمر سیف اور ان کے تمام رفقائے کار کے سر ہے۔ عمر سیف کمپیوٹر سائنسز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنیوالے پہلے پاکستانی ہیں۔ وہ ورلڈ اکنامک فورم کی فہرست میں ینگ گلوبل لیڈر کی حیثیت سے شامل ہیں۔ 2011 میں MIT ٹیکنالوجی ریویو میں ان کا شمار دنیا کے 35 مایہ ناز Innovators میں کیا گیا تھا۔ یہ بات انتہائی دلچسپ اور قابل غور ہے کہ ڈیجیٹل تبدیلی کا یہ پورا عمل باکفایت Android فونز کے گرد گردش کرتا ہے نہ کہ مہنگے لیپ ٹاپس اور پرسنل کمپیوٹرز کے گرد۔
ترقی پذیر ممالک کی حکومتی ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں کے مقابلے میں ایک بالکل ہی مختلف ماحول میں کام کرتی ہیں۔ یہاں کے معاشرتی اور معاشی مسائل اور تقاضے بالکل جدا ہوتے ہیں۔ چناں چہ ان ممالک کے حل اور سلوشنز بھی مختلف ہی ہوتے ہیں جن کا ترقی یافتہ ممالک کے حلوں اور سلوشنز سے کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ عمرسیف کا کہنا ہے کہ ہمارے یہاں اسمارٹ فونز سے بڑا زبردست کام لیا جاسکتا ہے اور ہم نے ان کی مدد سے سرکاری شعبے میں بڑے بڑے چیلنجوں کا مقابلہ کیا ہے جو شاید مہنگے لیپ ٹاپس اور پرسنل کمپیوٹرز کی مدد سے بھی اتنا آسان نہ ہوتا۔
اسمارٹ فونز کی خوبیوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ یہ کم قیمت بھی ہیں اور انھیں آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی کیا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ استعمال کرنے میں نہایت آسان اور سہل ہیں اور GPS سے لیس ہیں۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہوگا کہ مخصوص کام سے متعلق Application کو Pre-install کردیں اور hand sets کو متعلقہ اہل کاروں میں تقسیم کردیں۔ چونکہ ان کا تمام کام geo-tagged اور time-stamped ہوگا لہٰذا ان کے سینئرز کے لیے اپنے ماتحت اسٹاف کی غفلت کی ذمے داری عائد کرنا بھی آسان ہوگا۔
مثلاً ڈینگی مار اسکواڈ کے سلسلے میں ہیلتھ ورکرز کی ڈیوٹی ہے کہ وہ مختلف جگہوں کے دورے کریں، فوگ اسپرے کریں، تالابوں اور جوہڑوں میں ڈینگی مچھروں کے لاروے کا خاتمہ کریں اور ڈینگی کے خاتمے سے متعلق دیگر امور انجام دیں۔ ان کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنا کام انجام دینے سے پہلے اور اس کے بعد تصویریں اتاریں اور پھر ان تصویروں کو اپنے اپنے سپر وائزروں کو ارسال کریں۔ اس طریقہ کار سے اتھارٹیز کو بروقت ڈیٹا اکٹھا کرنے، بیماری کی نگرانی کرنے اور بروقت ضروری کارروائی کرنے میں مدد حاصل ہوتی ہے تاکہ مرض پر مکمل کنٹرول حاصل کیا جاسکے۔
عالمی بینک نے PITB کی کارکردگی کا اعتراف کیا ہے اور صوبہ پنجاب کے عوامی خدمت کے شعبے میں، بالخصوص ڈینگی کو قابو میں کرنے کے معاملے میں اس کی جانب سے ٹیکنالوجی کے استعمال کی کاوشوں کو بہت سراہا ہے۔ عالمی بینک نے آئی ٹی پر مبنی اس کے فیلڈ ورک کی مانیٹرنگ کے لیے حکومت پنجاب کو 50 ملین ڈالر کی خطیر رقم بھی پیش کی ہے۔
مجموعی طور پر PITB حکومت پنجاب کے 160 ای گورنمنٹ پروجیکٹس پر کام کر رہا ہے۔ ان میں سے بعض منصوبے ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں جب کہ بعض کا دائرہ صرف مخصوص شہروں تک ہی محدود ہے۔ البتہ بعد میں اس دائرہ کار کو بقیہ صوبے تک بھی توسیع دی جاسکتی ہے۔ بورڈ نے کثیر ڈیٹا اپنی ویب سائٹ پر فراہم کردیا ہے جس سے عوامی سطح پر بھی بہت زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ اس ڈیٹا میں تیزی سے اضافہ ہوتا جائے گا جس سے مختلف شعبوں میں سرکاری اور عوامی دونوں سطحوں پر حسب ضرورت خاطر خواہ استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
بورڈ نے گزشتہ دو سال کے عرصے میں بڑا کام کیا ہے لیکن ابھی اسے ترقی کی بہت سی منزلیں طے کرنا ہیں جس کے لیے اسے صوبائی حکومت کی مکمل اور مسلسل سرپرستی اور حمایت درکار ہوگی۔ تاہم اس کی کامیابی کا بہت بڑی حد تک دارومدار اور انحصار اپنے حسن کارکردگی میں مزید اضافے پر ہوگا۔ ادارہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا جب تک اسے مخلص اور متحرک قیادت میسر نہ آئے گی وہ کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال پاکستان ریلوے کی ہے جو عرصہ دراز تک زوال کا شکار رہنے کے بعد اب آہستہ آہستہ بہتری کی جانب گامزن ہے۔ اگر ہمارے دیگر زوال پذیر اداروں کو بھی ایسی ہی مخلص، متحرک اور Committed قیادت میسر آجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کی بھی کایا پلٹ جائے۔