کوئی دیکھے نہ دیکھے
جس طرح عمران خان کے چاہنے والے موجود ہیں، اسی طرح علامہ طاہر القادری پر جان نثار کرنیوالوں کی کمی نہیں ہے۔
بے شک اس زمین پر سالک کی عبادت اور دہشت گرد کی دہشت گردی اس باری تعالیٰ کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کفر وباطل کی جنگوں سے تاریخ کا سینہ سرخرو بھی ہوا ہے اور شکست خوردہ بھی۔ وقت کے سلاطین اپنے عیبوں کو چھپانے کی لاکھ کوشش کریں لیکن اﷲ دیکھ رہا ہے، آج پوری دنیا میں جنگیں ہو رہی ہیں، غزہ کی پٹی، عراق، کشمیر، افغانستان اور دوسرے بے شمار ممالک اور مقامات جہاں کسی نہ کسی طور پر جنگ کے بادل نہ کہ چھائے ہیں بلکہ برس بھی رہے ہیں۔
ہمارا ملک پاکستان لاالہ الااﷲ کی بنیاد پر ہی قائم ہوا تھا جہاں سب کے حقوق یکساں اور انصاف سب کے لیے تھا، لیکن ہم اپنے اسی ملک میں ایک بار نہیں بارہا انصاف کی دھجیوں کو بکھرتا دیکھ چکے ہیں اور میرا وطن پاکستان ان دنوں بھی نازک ترین صورتحال سے گزر رہا ہے، ایک طرف دھرنوں کی دھوم دھام ہے تو دوسری طرف حکومت کا اپنا موقف ہے کہ ''میں نہ مانوں''۔ حکومت نہ ہوگئی انسانی جان ہوگئی کہ جا کر واپس نہیں آئے گی۔
اہل اقتدار کو ڈر اس بات کا ہے کہ اگر کرسی سے اترے تو دوبارہ براجمان ہونا ممکن نہیں ہوگا۔ جس کے پاس طاقت ہے، حکومت ہے ان کے لیے۔ ماشاء اﷲ کوئی مسئلہ نہیں کہ سب ان کے ساتھ ہیں، تمام مضبوط ترین ادارے بھی حقائق سے واقف ہونے کے باوجود جمہوریت کی حمایت میں آواز اٹھا رہے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس جمہوریت میں کھوٹ شامل ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک بہت بڑی طاقت موجود ہے جوکہ طاقت کا سرچشمہ ہے، وہ تمام باتوں اور رازوں سے واقف ہے، اس نے ظالموں کی رسی دراز کردی ہے کہ وہ جس قدر ظلم ڈھا لیں کم ہے کہ وہ صاحب اقتدار ہیں وہ چودہ نفوس کو بے دردی کے ساتھ زمین بوس کردیں یا پچاس، سو لوگوں کو خون میں نہلا دیں، انھیں فی الحال کچھ نہیں کہا جائے گا۔
موجودہ حالات کے تناظر میں اگر غور کیا جائے کہ بدترین تشدد کیوں ہوا؟ ہزاروں لوگ کھلے آسمان تلے بے بسی و مجبوری کی حالت میں نوحہ کناں ہیں اور بے شمار ان کے ساتھی جیلوں میں مقید اور اسپتالوں میں داخل ہیں، باقاعدہ فائرنگ کرکے انھیں زخمی کیا گیا ہے اور کتنے ہی گھرانوں میں موت اتر آئی ہے، کمانیوالا رخصت ہوگیا، بچے یتیم ہوگئے اور ماں جیسی لازوال محبت کرنیوالی ہستی اس دنیا سے رخصت ہوگئی، ابھی قوم شازیہ اور تنزیلہ کا غم نہیں بھولی تھی کہ ایک بڑے سانحے نے قدم رکھ دیا اور جنگ کا سماں نظر آنے لگا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین کا بہت بڑا مطالبہ نہیں تھا، صرف 4 حلقے کھولنے کی درخواست کی تھی، لیکن ہمارے حکمران ایسا کرنے پر شاید اس لیے راضی نہ ہوئے کہ حقیقت سامنے آجائے گی، لیکن حقیقت تو افضل خان کے بیان کے بعد سامنے آہی گئی، پھر ان کی تائید میں کئی اہم اور قابل ذکر لوگ سامنے آگئے، بات کھل گئی اور بھانڈا پھوٹ گیا۔ قدرتی طور پر جب حالات نے پلٹا کھا ہی لیا تھا تو کوئی بھی محب وطن شخصیت یا مضبوط ادارہ عمران خان کو انصاف فراہم کرنے کے لیے آگے بڑھتا کہ بات ثابت ہوگئی، حق سامنے آگیا، اب تو کوئی گنجائش تھی ہی نہیں کہ خوامخواہ معاملے کو طویل کیا جائے۔ عمران خان ان کی جماعت اور ان کے چاہنے والے اگر اپنے حق کا مطالبہ کر رہے ہیں تو ان کا یہ مطالبہ اس آئین کے خلاف تو نہیں ہے جس کی پاسداری ببانگ دہل کی جا رہی ہے۔
ایک چھوٹی سی مثال لے لیجیے، ایک کسان فصلیں بوتا ہے، انھیں پروان چڑھانے میں خون پسینہ ایک کرتا ہے اور جب کٹائی کا وقت آتا ہے تو وہ اپنی مشقت اور اﷲ کی مہربانی پر نازاں ہوتا ہے اور اگر اسی اثنا میں کوئی آئے اور خاموشی کے ساتھ سارا اناج، پھل لے اڑے تو ان حالات میں کسان واویلا نہیں مچائے گا تو کیا کرے گا؟ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹائے گا، چیخ چیخ کر لوگوں کو بتائے گا کہ اس کے ساتھ ظلم ہوگیا، تو ایسا ہی کچھ تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان کے ساتھ ہوا ہے، ان کی آواز پر حق کے پرستاروں نے اگر لبیک کہا تو کیا برا کیا؟ سابقہ حکومت میں بھی ایسے ہی حالات تھے لیکن وہ جو پی پی کا نعرہ ہے نا ''ایک زرداری سب پر بھاری'' تو زرداری صاحب نے بڑی ہی دانش مندی سے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی اور اپنے پانچ سالہ دور میں بیان بازی سے دور ہی رہے۔
ان کے دور حکومت میں بھی طاہر القادری اسلام آباد تشریف لائے تھے اور حکومت و نظام بدلنے کے حوالے سے پرجوش تقریر کی تھی۔ لیکن سابق صدر کی چند افراد پر مشتمل کمیٹی نے نہ کہ ان کو راضی کرلیا کہ وہ دھرنے کو ختم کردیں بلکہ دھرنا دینے والوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا، جس میں قمر زمان کائرہ صاحب کی حکمت عملی اور دور اندیشی کو بڑا دخل تھا۔ 5 سال حکومت کا چلنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا کہ بڑے سے بڑے سانحے پر مع زرداری صاحب اور ارکان پارلیمنٹ سب خاموش رہے۔ کیوں خاموش رہے؟ اس کا جواب ہے کسی کے پاس؟ یہ ایک سوال ہے۔ اور آج بھی لوگ ظلم کا ساتھ دے رہے ہیں، انھیں وہ لوگ نظر نہیں آرہے ہیں کہ جن کے جسم پر ڈنڈے برسائے جا رہے ہیں، لوگ بھوکے پیاسے اور زخمی حالت میں اپنے کپتان اور اپنے لیڈر علامہ طاہر القادری کا ساتھ دے رہے ہیں، اپنے مقصد کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں، دراصل ان کا ڈٹا رہنا ہی حکومت کو پسند نہیں ہے۔ حکومت اقتدار کی کرسیوں کے مزوں سے محروم نہیں ہونا چاہتی ہے، جو حکمرانی میں مزہ ہے وہ محکومی میں نہیں۔
جس طرح عمران خان کے چاہنے والے موجود ہیں، اسی طرح علامہ طاہر القادری پر جان نثار کرنیوالوں کی کمی نہیں ہے۔ اب اگر ان حالات میں دھرنا دینے والوں نے نعرے لگائے، بیٹھے بیٹھے تالیاں بجائیں اور اپنے ہاتھ لہرا کے، فتح فتح کے نشانات بنائے توحکومت کے ان لوگوں نے جو حقیقت سے آنکھیں چرانے کا فن جانتے ہیں، اراکین کے اس عمل کو ناچنا اور گانا قرار دیا اور ایک دوسرے سے ببانگ دہل تبادلہ خیال کیا اور بذریعہ ایس ایم ایس اپنے زریں خیالات سے آگاہ کیا۔ اس سے ہوا تو کچھ نہیں، سوائے اس کے کہ ان کے زریں افکار سے آگاہی ہوگئی، اگر یہ فحاشی اور گانا بجانا ہے تو کونسرٹ اور ٹی وی چینلز پر جو ہوتا ہے اسے کیا کہیں گے؟ ہر قومی دن پر ایسے ہی مناظر اسکولوں، کالجوں اور دوسرے ثقافتی اداروں میں نظر آتے ہیں۔
آج 20 دن گزر چکے ہیں لیکن معاملات جوں کے توں ہیں، دونوں لیڈر اپنی بات منوانا چاہتے ہیں، بات ماننے میں حرج ہی کیا ہے، کسی کو بھی تاحیات کرسی پر نہیں بیٹھنا ہوتا ہے، ایک نہ ایک دن تو تخت و تاج چھوڑنا پڑتا ہے۔ وزیراعظم اور ان کی حکومت کے اراکین کو سوچنا چاہیے ہزاروں لوگ جن میں بچے، ضعیف العمر اشخاص شامل ہیں، اپنے چین و آرام کو چھوڑ کر موسموں کی سختیوں کو جھیل رہے ہیں، کیا ان کی ایثار و قربانی رائیگاں جائے گی؟ یہ وقت بتائے گا کہ حق و باطل میں سے جیت کس کی ہوتی ہے؟ اﷲ پاکستان پر اپنا رحم کرے اور ہمارے حکمران کرسی سے نہیں اپنے ملک اور اپنے عوام سے محبت کرنا سیکھیں، ان کے دکھ درد کو سمجھیں تو یہ سب کے لیے بہتر ہوگا۔