بہتے پانی پہ مکاں …
حکومت کی کوتاہیوں کے رونے رونے والے اور انھیں پیٹنے والے تو اور بہت ہیں، کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ ہم سے خود کہاں۔۔۔
''ا پنا ہاتھ آگے کرو اور بارش کے قطروں کو اپنے ہاتھ پر گرتے ہوئے شمار کرو... '' میں نے اس روتی ہوئی بچی کو اٹھایا اور لے کر باہر آ گئی ، اس کا ہاتھ بڑھا کر بارش کے نیچے کیا، کاریڈور میں اس کے رونے سے بہت شور تھا اور ڈر تھا کہ اسے روتے دیکھ کر باقی بچے رونے لگیں گے۔
اسکول میں بچوںکا پہلا دن اسی طرح ہوتا ہے، بالخصوص ان چھوٹے بچوں کا جن کے لیے اسکول جانا ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ کئی بچوں کے لیے اسکول میں سیٹ ہونے کا وقت کئی دن تک محیط ہو جاتا ہے، ان کے لیے ہر روز کچھ نہ کچھ نیا سوچنا پڑتا ہے، مناہل کے لیے بھی تیسرا دن تھا اور اس کی کلاس، بے بی جم ، جھولے، کھلونوں سے بھرا کمرہ... کچھ بھی اس کا دل لگانے میں کامیاب نہ ہو رہا تھا، مگر بارش کے قطروں کو اپنے ہاتھ پر گرتا دیکھ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے دم بخود ہو گئی اور رونا بھول گئی۔
'' مجھے بھی بارش ہاتھوں پر جمع کرنا بہت اچھا لگتا تھا پیاری بچی ، جب میں تمہاری عمر کی تھی!!'' میں نے اس کے گال کا بوسہ لیا، اسے کیا بتاتی کہ بارش ہاتھوں پر جمع کرنا اب بھی اچھا لگتا ہے... بارش میں بھیگنے کو عمر کے ہر دور میں من مچلتا ہے... بادل دیکھ کر ہی پکوڑوں کی بھوک لگنا سب کو شروع ہو جاتی ہے... '' ون ، ٹو، تھری، فور، ون، تھری، ون، ٹو، فور، ون، سکس، نائن، ون ... '' وہ رونے کے علاوہ کچھ بول رہی تھی ورنہ تین دن سے تو لگ رہا تھا کہ اس کے والدین نے اسے رونے کے سر ہی سکھائے تھے۔'' اب اپنے جمع کیے ہوئے بارش کے پانی سے منہ دھو لو... '' میں نے اسے کہا تو اس نے دونوں ہاتھوں کو منہ پر مل لیا، پانی تو بہہ چکا تھا مگر پانی کا لمس باقی تھا، '' I love rain '' اس لمس نے اسے کھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور کر دیا تھا، میرے اندر تک اس کی کھلکھلاہٹ اتر گئی، اور ہم دونوں دوست بن گئے... اب اس کی ٹیچر کے لیے کام آسان ہو گیا تھا، اسے اس کی ٹیچر کے حوالے کیا اور کہا کہ سب بچوں کو لے کر باہر نکلے اور بارش دکھائے۔
بارش جس سے بچپن میں ہم سب محبت کرتے ہیں مگر اسی بارش کی رحمت کبھی زحمت بھی بن جاتی ہے، یہ ہمیں تب معلوم ہوتا ہے جب ہم بارش کی تباہ کاریوں کے مناظر دیکھتے ہیں۔بارش کو فقط ہم ہی زحمت کہتے ہیں، اللہ تعالی نے تو ہمیشہ اسے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے ، یہی رحمت ہماری اپنی نالائقیوں کی وجہ سے... ہماری کوتاہیوں اور غفلتوں کے باعث تکلیف اور آزار بن جاتی ہے۔ ہمارے پاس جدید ترین آلات اور وسائل ہیں جن کے باعث اب ہم دنوں نہیں بلکہ ہفتوں اور بسا اوقات مہینوں تک کے موسم کی پشین گوئی جان سکتے ہیں، آج، کل، پرسوں اور ہفتے بھر کے، دنیا کے کسی بھی حصے کے موسم کی بابت تو ہم اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ننھے سے فون سے بھی پوچھ سکتے ہیں، محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ پر چلے جائیں، آپ چھ ماہ کے بعد کہیں جانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، شادی بیاہ کا پلان ہے یاکوئی اور اہم کام، آپ کو موسم کی بابت ساری تفاصیل کا علم ہو جائے گا۔
مون سون کی بارشیں تو ہمیشہ کا معمول ہیں اور سال کے اسی حصے میں ہوتی ہیں... کیوں ہماری کوئی بھی حکومت ان کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کے سد باب کے لیے پہلے سے تیاری کے قابل نہیں ہو سکی ہے؟ جواب بالکل سادہ ہے، کیونکہ کوئی بھی حکومت چاہتی ہی نہیں...ایک طرف آئی ڈی پیز... جنھیں آزادی اور انقلاب مارچ نے پس پشت ڈال دیا تھا، ضرب عضب کیا ہے اور کس لیے ...سب بھلا چکے ہیں ، حکومت اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے، فوج کو ایک اور محاذ پر مصروف کر دیا گیا ہے... سیلابی علاقوں سے لوگوں کو بحفاظت نکالنے کا کام۔ کیا ہر حکومت اندھی ہوتی ہے کہ وہ ان تباہ کاریوں کو اپنی نظر سے دیکھ کر بھی ... سیلابی پانی اترتے ہی زندہ بچ جانے والوں کو دوبارہ ان نالوں اور دریاؤں کے کناروں پر نہیں ... بلکہ ان کے اندر جھونپڑے اور کچے گھر بناتے دیکھتی رہتی ہے، کیا ہماری حکومت کاکوئی سرکردہ فرد زمین پر سفر نہیں کرتا جہاں وہ ان خطرے سے بھر پور جگہوں پر ان لوگوں کو اپنے ٹھکانے بناتے دیکھے؟
خود وزیر اعظم یا صدر نہ سہی، ان کے نمائندے جو ان علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، وہ لوگ جو ان جگہوں سے گزرتے ہیں جہاں ایک کچی آبادی اگنا شروع ہوتی ہے جو مستقبل میں ایسے خطرے سے دو چار ہونے والی ہے... ضلعی انتظامیہ کے لوگ بھی نظر چرا کر گزر جاتے ہیں۔ جانے اس سارے سلسلے میں '' آمدن'' کا کھاتہ کون سا ہے مگر کچھ تو ہے کہ جس کے باعث چشم پوشی کی جاتی ہے اور حالات ہر برس اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں، نہ صرف ہر سال... بلکہ سردیوں کی بارشیں بھی تباہی لے آتی ہیں ۔ ہم ہر بات کے لیے دوسروں کو قصور وار ٹھہرانے والے، اب بھی انڈیا کو کوس رہے ہیں کہ انھوں نے کتنے لاکھ کیوسک فٹ پانی چھوڑ دیا ہے... جو یہاں پہنچے گا تو تباہی کے کئی باب رقم ہوں گے۔
شاید ہم میں سے بہت سے لوگوں کو علم ہی نہیں کہ بارش کو رحمت ہی سمجھا جا سکتا ہے اگر ہم اپنے ساتھ مخلص ہوں تو، اپنے ہمسایہ ملکوں کی مثال لے لیں تو بہت حتمی نہیں مگر چین میں لگ بھگ 4800 ڈیم اور 80 ہزار کے قریب پانی ذخیرہ کرنے کے مقامات ہیں، انڈیا میں 3200 سے زائد ڈیم اور بیراج ہیں۔ کیا ہم ڈیم، ذخائر اور بیراج نہیں بنا سکتے جو کہ ہمارے ہاں بجلی کے مسئلے کے حل کے لیے اہم ضرورت بھی ہیں؟ کیا انڈیا یا چین ہمیں منع کرتے ہیں کہ ہم ڈیم نہ بنائیں، ہم بارشوں سے ہونے والی تباہیوں کے سد باب کے انتظامات نہ کریں؟؟ نہیں!!! ہم خود ہی اپنے دشمن ہیں، ہمیں کسی اور دشمن کی ضرورت ہی نہیں، ہماری صفوں میں جو سانپ بیٹھے ہیں وہی کافی، جو صرف ڈسنا اور نقصان پہنچانا جانتے ہیں۔
اقتدار کی کرسی کی خواہش میں ہر کوئی مر رہا ہے اور ہر حیلہ کرتا ہے، مگر کون جانتا ہے کہ اس کرسی پر بیٹھنے والوں کے لیے کیا جواب دہی ہے۔ انسانوں اور جانوروں کی اموات... املاک کا نقصان ... ضروریات زندگی کا فقدان... بیماری... حادثات... جانے کیا کیا کچھ تباہی ہے جو ان بارشوں کے نتیجے میں ہم ہر سال دیکھتے اور سہتے ہیں، متاثرین بے بس اور لاچار ہر طرف مدد طلب نظروں سے دیکھتے ہیں، حکومت سے توقع کرنا بھی عبث لگتا ہے، ہاتھ اٹھا اٹھا کر اللہ تعالی سے بارش کے تھمنے کی دعائیں کرتے ہیں، مگر وہ تو جانتا ہے کہ ہمیں اور زمین کو کب بارش کی ضرورت ہے، اس نے وقت اور مقدار کے پیمانے بنا رکھے ہیں اور ذمے داریاں فرشتوں کو تفویض کر دی ہیں جو اپنے فرائض نبھاتے ہیں، ہم بارش کو کوستے ہیں ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسے وہی بھیجتا ہے جس کی رضا کے بغیر ایک پتا تک نہیں ہل سکتا ، وہ علیم الخبیر ہے، وہی غفور الرحیم ہے۔
حکومت کی کوتاہیوں کے رونے رونے والے اور انھیں پیٹنے والے تو اور بہت ہیں، کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ ہم سے خود کہاں کوتاہی ہوتی ہے؟ میرے گھر میں بارش کا پانی آئے تو میں کسی اور کو قصور وار نہیں ٹھہرا سکتی، پہلے تو سوال یہ ہے کہ کیا میرا گھر ان حفاظتی ضروریات کے مطابق تعمیر ہوا ہے کہ اس میں سے بارش کے اضافی پانی کے نکاس کا بندوبست ہو؟ اسلام آباد ہائی وے کے دونوں اطراف '' عظیم الشان '' رہائشی منصوبے ہر روز بن رہے ہیں جواس وقت سب سیلاب سے متاثرہ ہیں ، سڑک کے دونوں اطراف ہر ہر کلومیٹر پر ایک کالونی کا بورڈ ہے ، یہ سارا وہ علاقہ ہے جو کبھی دریائے سواں کی گزر گاہ تھا، اب سواں ایک تنگ سے پاٹ میں بہتا ہے، معمول میں تو یہ خشک ہی ہوتا ہے مگر اب سواں اپنے برتن کی گنجائش سے نکل کر سڑک تک پہنچ گیا ہے... دریا کا پاٹ تنگ تو کر دیا گیا ہے مگر کیا اسے اسی تناسب سے گہرا بھی کیا گیا ہے؟
یہی معاملہ سب دریاؤں اور ندی نالوں کا ہے، ان کے پاٹ تو کم چوڑے کر دیے گئے ہیں اور ان کی پرانی گزر گاہیں کسی اور نہیں بلکہ رہائشی اسکیموں والوں کے لیے خاص کشش کی حامل ہیں، لوگوں کو view کے نام پر پلاٹ بیچے جاتے ہیں، مگر خریدنے والے بھی دیوانے ہیں کیا؟؟
ہر سال ہم تباہی ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور اس امید پر کہ اگلے برس شاید یہ نہ ہو گا... مگر ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
یہ سیلابی ریلا اترے گا تو اگلے ہی روز آپ سب دیکھیں کہ جن جگہوں سے ایک بار ان کے ٹھکانے بہہ گئے تھے... وہی لوگ ہوں گے، وہی جگہیں ہوں گی اور وہ نئے عزم کے ساتھ '' بہتے پانی پہ مکان'' تعمیر کر رہے ہوں گے!!