چرواہے کی نصیحت

اب تک بادشاہ اسے دشمن سمجھ کر خوف زدہ تھا لیکن اس کی بات سن کر بادشاہ کا خوف دور ہوگیا۔۔۔


MJ Gohar September 09, 2014

دارا بادشاہ جنگل میں اپنے لشکر سے بچھڑ گیا، اسے اچانک ایک شخص اپنی طرف دوڑکرآتا ہوا نظر آیا وہ آنے والے کو دشمن سمجھا اور جلدی سے تیر کمان پر چڑھا لیا۔ آنے والا شخص ایک چرواہا تھا جب اس نے دیکھا کہ بادشاہ نے اس کی طرف تیر کمان تان لی ہے تو وہ گھبرا گیا اور چلا کر بولا ''مجھے نہ مارو میں دشمن نہیں دوست ہوں، میں تو آپ کا خادم ہوں جو آپ کے گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔''

اب تک بادشاہ اسے دشمن سمجھ کر خوف زدہ تھا لیکن اس کی بات سن کر بادشاہ کا خوف دور ہوگیا پھر وہ ہنس کر چرواہے سے مخاطب ہوا ''اگر غیبی فرشتے نے تیری مدد نہ کی ہوتی تو میں بس تیر چھوڑنے ہی والا تھا۔'' یہ سن کر چرواہا بھی ہنس پڑا پھر کہنے لگا ''بادشاہ سلامت! میری ایک نصیحت سن لیجیے جو بادشاہ دوست اور دشمن کی تمیز نہیں کرسکتا وہ بھی کوئی بادشاہ ہے۔'' پھر بولا کہ ''بڑا تو وہ ہے جو اپنے ہر چھوٹے کو پہچانتا اور اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا ہو، میں آپ کے لیے کوئی نووارد نہیں ہوں، اکثر آپ کے دربار عالی میں حاضر ہوتا رہا ہوں اور آپ مجھ سے گھوڑوں اور چراگاہوں کی بابت اکثر پوچھ گچھ کرتے رہے ہیں، تعجب ہے پھر بھی آپ نے مجھے دشمن تصور کیا حالانکہ میرا تو یہ حال ہے کہ آپ اگر کہیں تو میں لاکھ گھوڑوں میں سے بھی آپ کا مطلوبہ گھوڑا نکال سکتا ہوں۔''

بادشاہ چرواہے کو حیرت سے دیکھنے لگا چرواہا پھر گویا ہوا کہ ''اے بادشاہ! جس طرح میں اپنا فرض ذمے داری سے ادا کرتا ہوں اور عقلمندی سے آپ کے گھوڑوں کی گلہ بانی کرتا ہوں، آپ کو بھی حکومت اسی طرح کرنی چاہیے اور اپنی رعایا کو محفوظ اور ان کی تکالیف کا احساس کرنا چاہیے ورنہ جس بادشاہ کا انتظام چرواہوں سے بھی بدتر ہو اس کا تاج و تخت بھلا کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔''

آپ حضرت شیخ سعدی کی مذکورہ سبق آموز حکایت کی روشنی میں اپنے ملک کے ''بادشاہ سلامت'' کے طرز حکمرانی کا جائزہ لے لیجیے کہ بھاری مینڈیٹ کے زعم میں وہ کیسی کیسی ''ہمالیائی غفلتوں'' کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور خوش گمانی یہ ہے کہ تمام تر ''کوتاہیوں'' کے باوجود ان کے اقتدار کا سورج چمکتا رہے گا۔ صاحب اقتدار کو دوست اور دشمن کی تفریق سمجھ نہیں آرہی ہے ان کے بعض مشیران باتدبیر جن پر وہ تکیہ کیے بیٹھے ہیں ایک دھکا اور دو کی گردان کرتے ان کی پشت پر کھڑے ہیں، وقت بڑی تیزی سے ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

خطرات ان کے اقتدار کی جانب بڑھ رہے ہیں لیکن صاحب اقتدار کو ادراک نہیں، عوامی مینڈیٹ کی ململی حقیقت کو دیکھنا اور سمجھنا چاہیے ، اپنے دوستوں و بہی خواہوں کے مشوروں کو خاطر میں لائیں۔ صاحب اقتدار اپنوں کے ہاتھوں گھائل ہو رہے ہیں لیکن اپنے زخموں کو مندمل کرنے کا ہنر نہیں جانتے وہ سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ''طاقتور قوتوں'' سے جنگ بھی جیتنا چاہتے ہیں کیونکہ انھوں نے ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ۔ اقتدار میں آنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پنجہ آزمائی جب بھی ہوئی بھاری مینڈیٹ سے اقتدار میں آنے کے باوجود حکومتی مدت پوری نہ ہو سکی۔

آج صاحب اقتدار کو اس ڈگر پر چلنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر بعض معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کے تحفظات ہیں تو اس پر غور کرنا چاہیے، اپوزیشن کو بھی ناراض نہ کیجیے، رہ گئے عوام تو ان سے لاتعلقی نہ اختیار کیجیے۔حکمرانوں کی لاتعلقی کا نتیجہ ہے کہ کروڑوں غریب عوام بھوک، افلاس، بیماری، تنگدستی، بے روزگاری اور غربت و محرومی کے ہاتھوں مجبور و بے بس ہوکر خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں بجا کہ ڈالر کا ریٹ کچھ کم ہوا لیکن مہنگائی کا گراف مزید بلند، بجلی کے نئے منصوبوں کا افتتاح کہ انرجی بحران کا خاتمہ ہو لیکن بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔

ردعمل میں اشیائے صرف کی قیمتیں عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں نتیجتاً گھروں کے آنگن میں فاقے محو رقص ہیں ادھر حکمرانوں کے دسترخوان انواع و اقسام کے کھانوں سے سجے رہتے ہیں پیسہ عوام کے ٹیکسوں سے جمع کرکے قومی خزانے میں جائے تو درست اور اگر لوٹ مار و بندربانٹ کا بازار گرم ہوجائے تو تنقید بھی درست ہے اور ''مرد کے بچے بنو'' کا طنز کرنے والوں کو ردعمل تو سہنا پڑے گا۔

قومی وسائل کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے سے کہیں زیادہ غیر ضروری منصوبوں میں جھونکا جا رہا ہے۔ متعدد منصوبوں پر تو اربوں خرچ کیے جا رہے ہیں لیکن تعلیم، صحت اور روزگار جیسے اہم و بنیادی مسائل کے حل پر کیا کچھ خرچ کیا گیا اس کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں نتیجتاً عوام میں جو بے چینی، بددلی اور مایوسی و محرومیاں پھیل رہی ہیں اور احتجاج کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں وہ ناقابل فہم نہیں۔

بلاشبہ جمہوریت عوام کے ووٹوں سے ان کے منتخب نمایندوں پر مشتمل ایسی حکومت کا نام ہے جو ان کے مسائل و مشکلات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے جب کہ اپوزیشن کا بنیادی کام ہی حکومت پر ''چیک'' رکھنا ہے کہ وہ عوامی خدمت کے کام بخوبی کر رہی ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو اپوزیشن حکومت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے اس کے غلط کاموں پر تنقید اور اچھے کاموں کی توصیف کرنا اور عوامی فلاح و بہبود کی تجاویز دینا اس کا آئینی حق ہے لیکن حکمران اور ان کے مشیران باتدبیر اپوزیشن کے تجربات سے استفادہ کرنے اور کچھ سیکھنے، سمجھنے اور اپنی اصلاح کرنے کی بجائے اپوزیشن رہنماؤں سے الجھنے کے خواہاں نظر آتے ہیں ۔

الزام لگایا جا رہا ہے کہ مئی 13 کے انتخابات میں ریکارڈ دھاندلی کی گئی، حکومتی وزیر بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ ہر حلقے میں 60/70 ہزار ووٹ غیر تصدیق شدہ ہیں۔ دھاندلی پر پی پی پی، پی ٹی آئی، اے این پی، ایم کیو ایم، (ق)لیگ ودیگر جماعتوں کا موقف تقریباً یکساں ہے۔ دھاندلی کو بے نقاب کرنے کا عزم لیے عمران خان تین ہفتوں سے ڈی چوک پر احتجاج کر رہے ہیں۔ پی پی پی جیسی مقبول اور سب سے بڑی سیاسی جماعت کو بھی بڑے منظم طریقے سے دھاندلی کرکے شکست سے دوچار کیا گیا اس کے باوجود صدر آصف علی زرداری نے جمہوری نظام کے تسلسل کی خاطر انتخابی نتائج کو نہ صرف قبول کیا بلکہ حکومت کو پہلے دن سے مکمل رپورٹ کر رہے ہیں ۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا جس پر حکومتی کیمپ میں ہلچل مچ گئی، موقعے کی نزاکت کے پیش نظر وزیر اعظم نے اپوزیشن سے معذرت کرلی۔ صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ میں چوہدری اعتزاز احسن کے بیان کردہ موقف کی تائید کی۔ پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا وہ اچھا نہیں ہے، ہم وزیر اعظم پر احسان نہیں کر رہے بلکہ جمہوریت کو بچانے کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن افسوس کہ حکومتی وزرا حکمرانوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ صاحب اقتدار ان کے کردار کو پہچان نہیں پا رہے ہیں ،انھیں چرواہے کی نصیحت پر غور کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں