کشمیر میں سیلاب کی تباہ کاریاں

وزیراعظم نواز شریف کا دورۂ کشمیر، پاک فوج اور سویلین اداروں کی امدادی کارروائیاں


Ghulam Mohi Uddin September 10, 2014
وزیراعظم نواز شریف کا دورۂ کشمیر، پاک فوج اور سویلین اداروں کی امدادی کارروائیاں۔ فوٹو: فائل

خطہ کشمیر صرف اپنے فطری حسن ہی کے حوالے سے جنت نظیر ہی نہیں، بلکہ یہ خطہ پانی کے بے پناہ وسائل کی وجہ سے بھی منفرد ہے۔

یہاں کی جھیلیں، دریا، برف زار اور زیر زمیں صحت افزا پانیوں کے ذخائر اپنی مثال آپ ہیں۔ ہمالیہ کے سرچشموں سے ہمارے دریائے جہلم، دریائے چناب، دریائے سندھ، دریائے راوی اور دریائے توی پھوٹتے ہیں جب کہ اس کے برف زاروں (گلیشیئرز) سے گنگا، جمنا اور دریائے نیلم (کشن گنگا) اور متعدد حسین جھیلیں بنتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق خطے میں پانیوں کے 1230 منابع ہیں۔ یہ سارے کے سارے بڑے مستانے دریا ہیں۔

ان کے پانیوں میں قدرت کے بے بہا انعامات ہیں، بشرطیکہ کسی معقول منصوبہ بندی کے ساتھ انہیں بند باندھ کر راہ پر لایا جائے، لیکن اگر ان کو بے مہار چھوڑ دیا جائے تو یہ بڑی تباہی بھی لاتے ہیں۔ اپنی ناراضی کا اظہار وہ ہر سال جان و مال کو پامال کرکے کرتے رہتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں ہر بار ان کے الارم کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔ جب سیلاب آ جاتے ہیں تو وقتی طور پر ہمارے حکمران اور افسر شاہی دکھاوے کی بھاگ دوڑ کرتی ہے۔

اس موقع پر سیاست دان پانیوں میں لانگ بوٹ پہن کر کیمروں کے سامنے ''چین سے نہیں بیٹھیں گے'' وغیرہ قسم کے بیانات داغتے ہیں اور جب وقت گزر جاتا ہے تو تاراج بستیوں اور آب گزیدہ عوام کی خبر لینے کوئی پلٹ کر نہیں آتا۔ پچھلی مرتبہ پانیوں کا تختۂ مشق بننے والے تاحال اپنی بحالی کے لیے نوحہ کناں ہیں، اس مرتبہ بھی صورت حال سالہائے رفتہ سے مختلف نہیں۔ مون سون کا موسم سر پر آ چکا تھا اور پاکستان کی مختلف ایجنسیاں محکمۂ موسمیات ساون کے سہانے گیت گا رہی تھیں۔



باخبر ذرائع کے مطابق پاکستان انڈس واٹر کمیشن (پی آئی ڈبلیو سی) کو بھارتی اتھارٹیز نے خبردار کیا تھا کہ 1'25 ملین کیوسک پانی کا ریلہ مقبوضہ کشمیر میں اکھنور سے ٹکرائے گا تاہم یہ اطلاع درست ثابت نہیں ہوئی تھی۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کے مطابق سیلابی کیفیت پیدا ہونے پر پانی کے پاکستان داخل ہونے سے کم از کم ایک ہفتہ قبل اطلاع دینے کا پابند ہے، مگر 1960ء میں ہونے والے معاہدے سے لے کر آج تک بھارت نے سیلابی پانی کی پاکستان کو بروقت اطلاع نہیں دی۔

یہ بات انتہائی اہم ہے کہ گزشتہ چار برسوں سے پاکستان میں مون سون بارشوں کی وجہ سے ہر سال سیلابی صورت حال دیکھنے میں آ رہی ہے۔ گزشتہ برس بھی پاکستان میں شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے 178 افراد ہلاک اور پندرہ لاکھ متاثر ہوئے تھے۔ عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امدادی کارکن پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں ان سیلابوں سے متاثرہ دیہات تک پہنچنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، تاہم مٹی کے تودے گرنے کی وجہ سے شدید مشکلات درپیش ہیں۔

پیر کے روز وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں راولا کوٹ کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور امدادی سرگرمیوں کے بارے میں بریفنگ لی۔ بریفنگ کے مطابق اب تک چونسٹھ ہلاکتوں کے علاوہ چوبیس ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں جب کہ ایک سو نو زخمی ہی، اٹھارہ سو گھر مکمل تباہ ہوئے اور چار ہزار گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے متاثرین میں امدادی چیک بھی تقسیم کیے۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ قوموں پر مصائب آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں، ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔



اتوار کو وزیراعظم نواز شریف نے چاروں صوبوں کی انتظامیہ کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ممکنہ سیلاب کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنی انتظامات مکمل رکھیں۔ اگر آئندہ ماہ کے دوران شدید بارشیں ہوتی ہیں تو پاکستان کا مزید وسیع رقبہ زیر آب آنے کا خدشہ ہے اور اس سے نمٹنا نومنتخب حکومت کے لیے آسان نہ ہوگا۔

پاکستان کو اس وقت سنگین مالی بحران کا بھی سامنا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرض لیا گیا تھا۔ تاحال کھڑی فصلوں کی بڑی تعداد بپھرے ہوئے پانیوں کی نذر ہو چکی ہیں، سیلاب کی صورت حال سنگین تر ہونے سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوجائے گا بل کہ مزید وسیع پیمانے پر کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔

آزاد کشمیر میں سیلاب کے باعث اب تک درجنوں افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں جبکہ کئی تاحال لاپتہ ہیں، جس سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اس تمام تر صورت حال میں متاثرہ علاقوں میں مقامی سویلین اداروں کے ساتھ پاکستانی فوج بھی امدادی کارروائیوں میں بھرپور انداز میں شامل ہے۔ اب تک پاک فوج ہیلی کاپٹروں اور کشتیوں کے ذریعے نو ہزار سے زیادہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر چکی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فوج نے بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب میں کی جانے والی امدادی سرگرمیوں میں اب تک 970 افراد کو بچایا ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق امدادی آپریشن بارش اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میںکام جاری ہے۔ اس آپریشن میں پانچ ہیلی کاپٹروں اور 105 کشتیوں کے ذریعے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان میں محکمۂ موسمیات نے آئندہ چند دنوں میں پاکستان کے میدانی علاقوں میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کی پیش گوئی کی ہے۔



پاکستان گزشتہ تین برسوں سے سیلابوں اور مون سون کی شدید بارشوں کا سامنا کرتا چلا آ رہا ہے اور مقامی میڈیا کی طرف سے حکومتی اداروں کو موسمی خطرات سے مناسب طور پر نہ نمٹنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تازہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ صورت حال تیزی کے ساتھ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ حکام کے مطابق ملک بھر میں متاثرہ افراد کی مدد کے لیے 350 امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وسطی پنجاب، جنوبی سندھ اور جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں قائم کیے گئے ہیں۔

این ڈی ایم اے کے مطابق آئندہ ماہ بھی شدید بارشوں کی توقع کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں ان کی تیاریاں مکمل ہیں۔ پیر کے روز فیڈرل فلڈ کمیشن (ایف ایف سی)، پاکستان انڈس واٹر کمیشن، انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (آئی آر ایس اے) اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا جس میں کسی بھی طرح کے معقول اقدامات کرنے کے بجائے یہ ایجنسیاں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتی رہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ ساری ایجنسیاں صورت حال کو قابو میں نہ لا سکنے کے الزامات ایک دوسرے پر عاید کرتی رہیں۔

دریں اثناء مقبوضہ کشمیر میں بھی حالیہ بارشوں نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ سیلاب گزشتہ ساٹھ برس میں سب سے زیادہ خوف ناک ہے۔ وہاں تاحال ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے پونے دو سو تک بتائی جا رہی ہے تاہم ہندسے اوپر جانے کا خدشہ موجود ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے ہمراہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کر چکے ہیں، انہوں نے سیلاب سے ہونے والی تباہی کو''نیشنل لیول ڈیزاسٹر'' قرار دیا ہے، بھارتی وزیراعظم فوری طور پر ایک ہزار کروڑ روپے امداد کا اعلان کر چکے ہیں۔ بھارتی وزیر داخلہ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے 26 سو دیہات بری طرح سیلاب کی زد پر آئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں