دل کا آئینہ

عوام کے مسائل ان کی پریشانیاں میرا پسندیدہ موضوع ہیں۔ ان پر اتنا لکھتا ہوں کہ حکومت وہاں جاکر کوئی ’’اعلان‘‘کرنے پر۔۔۔



آج میں خود پر کالم لکھنا چاہتا ہوں۔ ''خود'' کو علامتی دیکھیے اور سمجھیے گا۔ اس سے مراد ''کالم نگار'' ہے۔ دراصل روزانہ میں اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتا ہوں اور روز آئینے کے ''سچ'' کا انکار کردیتا ہوں۔ آئینہ مجھے گزشتہ کے نقوش دکھاتا ہے تو میں اس سے پرے ہوکر اس میں وہ تصویر دیکھنے کی کوشش کرنے لگتا ہوں جو وہاں موجود نہیں ہوتی اور جو میں نے اپنی پسند کے خدوخال کے مطابق تیار کی ہوتی ہے۔ ''میں'' کبھی ایک جگہ ٹکتا نہیں ہوں۔ درپردہ میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ میری واہ واہ ہو اور میری تحریر سے ''ماحول'' یا ''لوگوں'' کو کیا نقصان پہنچتا ہے وہ میرے پیش نظر ہوتا ہے مگر میں اسے ''پس منظر'' میں ڈال دیتا ہوں۔

میں خود کو ہر معاملے کا ''منصف'' اور بہترین ''معاملہ فہم'' سمجھتا ہوں اور اس وجہ سے بعض اوقات جو لوگ جہاں فیصلہ کرنے والے ہوتے ہیں اس کو اپنی تحریر سے ''سبوتاژ'' کردیتا ہوں اور وہ فیصلہ ہونے سے رہ جاتا ہے "Media Leak" ۔ "Vicky Leak" کے بعد ایک پر تاثر اور سخت نقصان دہ عمل بھی ہے۔

کوئی بھی معاملہ ہو میں اس میں ''ٹانگ اڑانے'' کے مکمل حقوق رکھتا ہوں کیونکہ میں ایک کالم نگار ہوں۔ مجھے ''پیار'' کرنے والے بھی ہیں اور مجھ سے ''پیار'' کا اظہار دو طریقے سے ہوتا ہے ایک مقصد پورا کرنے کا ''پیار'' یا پھر ''سرکاری پیار''۔ سرکاری پیار میں گھر سے دور رہنا پڑتا ہے اور کچھ ''دشواریاں'' ہیں جن کا میں متحمل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ''پہلے پیار'' کو قبول کرلیتا ہوں۔

بھئی ''سرکار''۔ ''کار سرکار''۔ یہ سب عوام ہی تو ہیں آخر ''سرکار'' آسمان سے تو نہیں اترتی اسے عوام ہی عوام پر مسلط کرتے ہیں۔ ''تھوڑے عوام'' زیادہ عوام پر ''سرکار راج'' قائم کرتے ہیں اور ان تھوڑے عوام میں ''میں'' بھی ہوں۔ ''زیادہ عوام'' وہ ہیں جن کی سنی ہی نہیں جاتی۔

یہ نہ ''خود احتسابی'' ہے نہ ''کچھ احتسابی'' کیونکہ میرا کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ میں اس کے بعد بھی یہی رہوں گا۔نہ صرف ''میں'' بلکہ میرے بعد کے ''میں'' بھی اسی راستے کے مسافر رہیں گے۔ اب اگر ٹوئیٹر پر یا E-mail پر کوئی مجھے برا کہتا ہے تو میں اس کا کوئی خیال نہیں کرتا نہ توجہ دیتا ہوں کیونکہ یہ تو وہی کچھ ہے جو روزانہ آئینہ مجھ سے کہتا ہے۔ بھلا آئینے کی بات بھی کوئی ماننے والی بات ہے تو ان لوگوں کا کیا برا ماننا۔ کبھی کبھی مجھ پر ''میں'' بہت زیادہ سواری کرلیتی ہے تو ''میں'' ان فون، E-mail یا ٹوئیٹر والوں کے خلاف ایک کالم لکھ کر تسلی کرلیتا ہوں۔

ایک کمال میرا میری Erasing Power ہے۔ میں جس کی حمایت کا سوچ سمجھ کر ''مفاداتی'' فیصلہ کرتا ہوں۔ اس کا ماضی پورا کا پورا Erase رکھتا ہوں جب تک اس کی حمایت میں ہوں اور مجھے اس کے کیے ہوئے اقدامات جو بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کوئی اور ''انجام'' دے رہا ہے یاد نہیں رہتے یا میں بہت کمال ہوشیاری سے ان میں فرق پیدا کردیتا ہوں۔ قلم ہے نا میرے پاس!

مجھے یہ بہت ناگوار گزرتا ہے کہ جب مسائل یا اختلاف کے حل کے لیے میں چیخ چیخ کر بتا رہا ہوں کہ اس طرح حل کرنا چاہیے تو آخر لوگ توجہ کیوں نہیں دیتے۔ میرے پاس تمام مسئلوں کے حل ہیں ان کی چابیاں ہیں میرے پاس۔ مگر لوگ توجہ نہیں دیتے تو پھر میں اعلان کردیتا ہوں کہ اگر اس کے نتائج کچھ اور نکلے تو ''میں'' ذمے دار نہیں ہوں گا۔

عوام کے مسائل ان کی پریشانیاں میرا پسندیدہ موضوع ہیں۔ ان پر اتنا لکھتا ہوں کہ حکومت وہاں جاکر کوئی ''اعلان'' کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ یہاں سے حکومت کے اور میرے معاملات میں خاصی ''ہم آہنگی'' ہوجاتی ہے اور ہم ایک ساتھ عوام کے غم کو ''غلط'' کرنے کی راہ پر لگ جاتے ہیں۔

عوام سے داد حاصل ہوجاتی ہے۔ خبریں بن جاتی ہیں لگ جاتی ہیں۔ اداروں سے بھی ''بن'' جاتی ہے یوں سب کا بھلا ہوجاتا ہے نہ عوام کہیں جا رہے ہیں نہ مسائل ختم ہونے والے ہیں۔ رہی حکومت تو وہ چہروں کے بدلنے کا نام ہی تو ہے۔ ہر جانے والا میرا تعارف آنے والے سے کروا کے جاتا ہے اپنے اپنے ''انداز'' میں۔

میں بھی عوام میں سے ہوں تو زبان، علاقے، ثقافت کے مفادات کی سیاست سے الگ رہنا ایک تو ممکن نہیں ہے دوسرے یہ ان سب کے ساتھ ''ناانصافی'' ہے کہ میں ان کو فراموش کردوں۔ یہ بھی تو میرے تحریر کے میدان ہیں ان کا بھی بہت فائدہ ہے پس دیوار۔ یا اگر ممکن ہو تو ''گراؤنڈ'' میں ہی سہی۔ تو میں ان کی بنیاد پر بھی لوگوں کو سپورٹ کرتا ہوں۔ اور خوامخواہ اس کے مخالف کا مخالف بننا میرا پسندیدہ ''مشغلہ'' ہے۔

اگر معاملہ کہیں بن رہا ہو اور بقول شخصے اونٹ کسی کروٹ بیٹھ رہا ہو تو میرے لیے اضطراب کا سبب ہے کہ اب تمام ''تماشا'' ختم ہوجائے گا تو اگر ''میلہ'' ختم ہوگیا تو ''شائقین'' کیا کریں گے۔ تو میرا مقصد ہوتا ہے کہ ''تماشا'' لگ گیا ہے تو ذرا ''لمبا'' چلے تاکہ مفاد بھی ذرا ''لمبا'' ملے۔ اس میں ماضی یا حال پر کوئی تبصرہ ''محفوظ'' نہیں ہے لہٰذا اسے اس طرح ہی چھوڑ دیتے ہیں جس طرح ہم قحط کے ماروں کو مرنے کو چھوڑ دیتے ہیں۔ میں یہاں بھی ہوں، میں انٹرنیشنل میڈیا میں بھی ہوں، میرے مفادات یہاں بھی ہیں، میرے مفادات وہاں سے بھی Cash ہوتے رہتے ہیں۔ کیا کروں اپنے ہونے کی ''مجبور'' ہے۔ میری یہاں کی باتیں اور ہیں، وہاں کی باتیں اور۔ کالم نگار تو ایک عکس ہے اس نگار خانے کا۔ ورنہ اس نگار خانے کی ساری تصویریں ایک جیسی ہیں۔ بے حس بے رحم۔ مفاد پرست۔

دوسروں کی مثالیں دے دے کر میں اپنے لوگوں کو رات دن یہ بتاتا ہوں کہ تم ایسے نہیں ہوسکتے جو ہو وہی رہو۔ یہ مقصد نکلتا ہے میری تحریر کا حالانکہ دیکھنے میں یہ سب حوالے ہیں مگر آخر میں، میں ان کا موازنہ اپنے لوگوں سے کرکے انھیں ان کی ''اوقات'' میں رکھتا ہوں کہ یہ ''وہ'' بننے کی کوشش نہ کریں۔ احساس کمتری سے آزاد ہوں گے تو ''وہ'' بنیں گے نا۔ اور میں بننے دوں گا تب نا۔

میں کب تک یہ کروں گا۔ شاید کہیں مجھے ''اعتراف'' کی توفیق ہوجائے۔ توبہ کرنے کا خیال آجائے مگر تین چوتھائی سے زیادہ بال گرچکے میرے۔ کمر میں خم ہے۔ نظر کا چشمہ لگا رکھا ہے۔ دوائیں کھا رہا ہوں۔ مگر باز نہیں آرہا ''بے لطفی'' سے کہ اس ''بے لطفی'' کا بھی اپنا اک ''لطف'' ہے۔

میں نے خود پر نشتر چلایا ہے۔ علامت بن کر۔ یہ نشتر ضروری ہے۔ دکھ کا احساس، دکھ لکھنے سے زیادہ دکھ اٹھانے سے ہے۔ برا لگا نہ مجھے؟ دکھ ہوا! میرے بارے میں، میں نے کتنا برا برا لکھا ہے۔ پر یہ وہی تو ہے جو میں روز دوسروں کے لیے لکھتا ہوں۔ بغیر کسی تفریق کے۔

تو پھر۔۔۔۔؟ آج سے آئینہ غور سے دیکھوں گا۔ وہی دیکھوں گا جو آئینہ دکھا رہا ہے۔ اور اس کا عکس ایک اور آئینے میں منتقل کرکے لکھوں گا وہ ہے ''دل کا آئینہ'' انشا اللہ!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں