پھر بو رہا ہے آج انہی دلدلوں میں پھول

ہمارے یہاں ادارے بنانے پر بہت زور دیا جاتا ہے، ہر کام کے لیے ادارہ بناؤ۔


Abdul Latif Abu Shamil September 13, 2014

کھلا میدان تھا اور دو کمرے' وہ بھی نیم پختہ ۔ بارش ہوتی تو جگہ جگہ برتن رکھنے پڑتے ۔ میں نے اپنی بہت سی راتیں وہاں گزاری ہیں ' بہت سے دن بِتائے ہیں ۔ چاروں طرف کھیت تھے ۔ تین اینٹیں رکھ کر چولہا بنایا ہوا تھا ۔ جب ہوا تیز ہوتی تو ہم وہ اینٹیں کہیں اور رکھ دیتے ۔ چلتا پھرتا چولہا تھا وہ ۔ لیکن وہاں کا مکین بہت باکمال تھا ، بہت سادہ، کوئی فوں فاں نہیں ، مسکراتا ہوا، ہر ایک کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے ہوئے ۔ جس کی باتوں سے خوش بو آتی تھی ۔ وہ مجسمِ اپنا پن تھا ۔ کوئی رعب داب نہیں، سراپا دعا تھا وہ۔

ہمیں جب بھی وقت ملتا، وہاں پہنچ جاتے اور زندگی کا شیریں جام پیتے تھے ۔ کھانا بھی ملتا اور روح بھی سیراب ہوتی ۔ عجیب انسان تھا وہ ۔ ہمارے بے ہودہ، لایعنی سوالوں کو اتنے غور سے سنتا کہ حیرت ہوتی تھی اور پھر ہر سوال آسودہ جواب ہوتا ۔ اس کا رہن سہن ' بول چال ' رنگ ڈھنگ سب ہمارے سامنے تھے ۔ صرف زاہد ِخشک اور عابد ِشب گزار ہی نہیں تھا وہ ' زندگی کا ہر رنگ لیے ہوئے تھا ۔ ہم اسے گیت سناتے اور وہ ہمیں ۔گاؤں کے لوگوں کے تنازعات ، ان کے شادی بیاہ کے بکھیڑے ، زمین جائیداد کا جھگڑا ، جڑی بوٹیوں سے علاج اور پیار سے رب کی طرف بلانا اس کے کام تھے ۔ ہر سْو پیار و محبت کی خوشبو بکھیرے ہوئے ۔

وہ اپنی ذات میں انجمن تھے ، طبیب تھے ، معلّم تھے ، منصف تھے ، چارہ گر تھے ، ایک گھنا چھتنار درخت ، پھلوں سے لدا ہوا ، جھکا ہوا۔

ایک درخت لگانے کے لیے آپ کیا کرتے ہیں؟ پھل دار درخت... یہی ناں کہ بیج لیتے ہیں ۔ اصل تو بیج ہی ہوتا ہے ناں۔ زمین کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر بیج کو زمین کے سپرد کردیتے تھے ۔ جی ' آپ بیج کو دفن کردیتے ہیں ، کبھی کبھار اسے پانی دیتے ہیں اور صبر کرتے ہیں۔ آپ بیج کے سر پر سوار نہیں ہوتے ، اس کے اندر سے کھینچ کر کونپل نہیں نکالتے، پھر اﷲ جی اس میں سے کونپل نکالتا ہے ۔ اور وہ ننھا سا بیج زمین کا سینہ چیرتا ہوا باہر جھانکنے لگتا ہے۔

پھر سرد وگرم کا مقابلہ کرتا ہے، ہواؤں کا' طوفانوں کا' بادوباراں کا... اور ایک دن تن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ پھر اس میں پھل لگتے جاتے ہیں اور تنا ہوا درخت جھکنے لگتا ہے ۔ درخت جھکتا اس لیے ہے کہ لوگ اس کا پھل کھا سکیں ' اس سے فیض پاسکیں ۔ آپ نے کسی درخت کو دیکھا ہے جو اپنا پھل خود کھا رہا ہو ' یہ کہتے ہوئے کہ جاؤ میں نے اتنی راتیں کھڑے کھڑے گزار دیں ، اتنے دن دھوپ میں جلتا رہا ہوں ' اب ان پھلوں پر حق میرا ہے ۔ نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا ۔ لوگ کھاتے ہیں پھل اس کا ۔ اس کی چھاؤں میں بیٹھتے ہیں ۔

بس وہ ایک پھل دار درخت تھے ۔ آپ اگر شور زدہ زمین میں بیج ڈال دیں تو درخت نہیں لگتا ۔ بیج مرجاتا ہے ، کبھی نہیں پنپتا۔ وہ ٹوٹے پھوٹے کمروں کی عمارت تھی اور اس کا چراغ وہ خود تھے۔ روشن چراغ ، مینارہ نور، چشمہ فیض جس سے سب سیراب ہوتے۔

ہمارے یہاں ادارے بنانے پر بہت زور دیا جاتا ہے ، ہر کام کے لیے ادارہ بناؤ۔ آپ کی بات سو فیصد صحیح ہے ' بنانے چاہئیں ' ضرور بنانے چاہئیں ۔ ہم مٹی گارے ، یا لوہے سیمنٹ کی بلڈنگ کو ادارہ کہتے ہیں ۔ ایسا ہی ہے ناں ! بس ایک خوب صورت عمارت ، رنگ و روغن ، پھولوں کے گملے، الماریاں ، کمپیوٹر ، میز کرسیاں اور سجاوٹ... بس یہی کرتے ہیں ہم ، اور اسے کہتے ہیں ادارہ ۔ اس عمارت کی پیشانی پر اس کا نام بھی لکھ دیتے ہیں اور خوش ہوتے رہتے ہیں : واہ جی زبردست ، ہم نے ادارہ بنا لیا ۔ میں زیادہ کچھ تو نہیں جانتا ' بس اتنا جانتا ہوں کہ ادارے کی عمارت اہم نہیں ہوتی ، افراد اہم ہوتے ہیں ۔

در و دیوار نہیں فرد اہم ہوتا ہے ۔ ادارے افراد سے بنتے ہیں ، ایسے افراد سے جو جھکے ہوئے ہوں ' پھل دار ہوں ' بے غرض ہوں ، بے لوث ہوں ، دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے ' مینارہ نور ہوں ۔ جو مجسمِ اپنا پن ہوں ' جن پر آنکھ بند کرکے اعتبار کیا جاسکے ۔ زبانی کلامی نہیں اْن کا عمل ان کی شخصیت کا پرتو ہو ۔ وہ تبلیغ نہیں بلکہ مجسم دعوت و فکر ہوں ۔ ان کی گفتگو نہیں ان کی شخصیت سحر انگیز ہو ۔ وہ اندر باہر سے ایک ہوں ۔ جو کہتے ہوں وہ کرتے بھی ہوں ۔ نری تبلیغ نہیں، باعمل ہوں ۔ ان پر کوئی بھی انگلی نہ اٹھا سکے ۔ اتنے اجلے ہونے چاہئیں وہ ۔ اس لیے کہ وہ ادارے کی روح ہوتے ہیں ۔ عمارت اچھی ہو اور بے روح ہو تو پھر کھنڈر اور خوب صورت عمارت میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔

ہم صرف ادارے بنانے کے لیے ہلکان ہیں ۔ حالانکہ ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جن پر آنکھ بند کرکے یقین کیا جاسکے ۔ وہ زبانی کلامی ہمدردا نہ ہوں' عملاً ہمدردی کا پیکر ہوں ۔ جب تک ایسے افراد نہ ہوں ' ادارے بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اینٹ گارے سے عمارت ' یا سیمنٹ سریے کا خوبصورت رنگ و روغن کا شاہکار تو بن سکتا ہے ' ادارہ نہیں۔ اصل افراد ہیں' جوہر افراد ہیں، کسی بھی ادارے کو افراد بناتے ہیں اور انھیں تباہ بھی وہی کرتے ہیں ۔ میں نے بہت بڑے بڑے درخت دیکھے ہیں، اوپر سے بالکل صحیح سالم اور اندر سے دیمک زدہ ۔ ایسے درخت کسی بھی وقت زمین بوس ہوجاتے ہیں ۔ ہمیں اس پر کھلے دل و ذہن سے سوچنا چاہیے، صرف سوچنا نہیں عمل پیرا بھی ہونا چاہیے۔ اداروں کی قطار نہیں، بے لوث افراد بنانے پر توجہ دیجیے۔

کھلا میدان تھا اور دو کمرے ' وہ بھی نیم پختہ ۔ بارش ہوتی تو جگہ جگہ برتن رکھنے پڑتے، لیکن وہاں کا مکین بہت باکمال تھا ' بہت سادہ ۔ کوئی فوں فاں نہیں ۔ مسکراتا ہوا ۔ جس کی باتوں سے گلوں کی خوشبو آتی تھی ۔ آج نجانے کیسے یاد آگیا ، ہاں وہ اپنی ذات میں انجمن تھا۔
آپ سب سدا خوش رہیں، آباد رہیں، دل شاد رہیں
کچھ بھی تو نہیں رہے گا، بس نام رہے گا اﷲ کا
گل شاخوں پہ آتے ہیں کس عالمِ افسوں سے
کس غیب کی وادی سے انسان نکلتے ہیں
یہ عالم ِ ہستی ہے یا خواب کی بستی ہے
جس سمت چلے جائیں حیران نکلتے ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔