وہ ہاتھوں سے دیکھتے ہیں

نابینا ہونے کے باوجود افتخار احمد سی این جی اور ایل پی جی کٹ کے ماہر جبکہ آصف پٹیل بہترین مکینک ہیں۔۔


سید بابر علی September 14, 2014
نابینا افراد کی زندگی کا سفر یقیناً مشکل اور راستے کٹھنائیوں سے پُر ہوتا ہے، ۔ فوٹو: فائل

آنکھوں کی روشنی بڑی نعمت ہے، لیکن دنیا میں آنے والا ہر فرد کائنات کے حسین رنگ دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔ بینائی سے محروم کوئی بھی بچّہ اپنی ماں کے وجود کو محسوس تو کرتا ہے، اُس کے ہاتھوں کا لمس تو پہچانتا ہے، لیکن اُسے دیکھ نہیں سکتا۔ باپ کے بازوؤں میں اسے تحفظ کا احساس تو ہوتا ہے، لیکن آنکھوں کے ذریعے اسے شناخت نہیں کر پاتا۔ رشتوں کے پیار کی شدت کا ادراک اور اپنوں کی محبت بھری پکار ہی گویا اس کی بصارت ہوتی ہے۔

اسی طرح دنیا کی رنگینی دیکھنے کے بعد بصارت کھودینے والے افراد اذیت ہی سے دوچار نہیں ہوتے بل کہ اس معذوری کے باعث قدم قدم پر مشکلات پیش آتی ہیں۔ نابینا افراد کی زندگی کا سفر یقیناً مشکل اور راستے کٹھنائیوں سے پُر ہوتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بلندحوصلہ اور ارادے کی پختگی کڑے حالات کا مقابلہ کرنے اور اندھیروں سے نکالنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ قابلیت اور صلاحیت کا بھرپور استعمال کسی بھی جسمانی معذوری اور محرومی کا توڑ ہے اور اس کی زندہ مثال پینتالیس سالہ افتخار احمد اور43 سالہ آصف پٹیل ہیں، جو بینائی نہ ہونے کے باوجود بہترین مکینک ہیں۔

45سالہ افتخار احمد کا شمار نابینا ہونے کے باوجود سی این جی اور ایل پی جی کے ماہر مکینکوں میں ہوتا ہے۔ جب ہم نشتر روڈ پر واقع ان کے والد کے نام پر قائم دکان پر گئے، تو وہ بڑے انہماک سے سی این جی کٹ کے ریگولیٹر پر کام کرنے پر مصروف تھے۔ پہلی نظر میں انہیں کام کرتا دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ ایک نابینا شخص یہ کام سر انجام دے رہا ہے۔



زندگی کے خوب صورت رنگوں کو دیکھنے سے محروم محمد افتخار کا کہنا ہے کہ میری بینائی پیدائشی طور پر ہی بہت کم تھی، دیکھنے اور نصابی کتب پڑھنے کے لیے بہترین دوست سورج کی تیز روشنی تھی، لیکن اب گذشتہ ایک دہائی سے اُن کی آنکھوں میں اندھیروں کا ڈیرا ہے، لیکن اُن کا عزم و حوصلہ روزِ اول کی طرح قائم ہے وہ اب بھی بلاناغہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ورک شاپ پر اپنا کام سر انجام دیتے ہیں۔

افتخار احمد کی بینائی کا سبب دماغ کی نسوں میں پیدا ہونے والا مسئلہ ہے، جس کے علاج کے لیے اُن کے والد مبارک نے کراچی سے خیبر تک کسی ڈاکٹر کو نہیں چھوڑا۔ وہ ہر اُس جگہ گئے جہاں انہیں اپنے دونوں بیٹوں کی آنکھوں کی روشنی بحال ہونے کی توقع تھی۔ افتخار کے سب سے بڑے بھائی نثار احمد بھی بینائی سے محروم ہیں، چند سال قبل تک وہ بھی بھائیوں کے ساتھ ورک شاپ پر کام کرتے تھے، لیکن پھر کسی کے توسط سے معذور کوٹے پر پولیس میں نوکری مل گئی۔

زندگی کا حسین دور جسے بچپن کہا جاتا ہے وہ بھی جزوی طور پر نابینا ہونے کی وجہ سے افتخار احمد کی زندگی پر کچھ خاص ان مٹ نقوش نہیں چھوڑ سکا۔

گھر، اسکول اور ورک شاپ کے گردگھومتے زندگی کے تکون نے افتخار احمد کو کھیل کود کے لیے بھی وقت فراہم نہیں کیا۔ پڑھائی میں دلچسپی رکھنے والے افتخار احمد نے بہ مشکل تمام سرکاری اسکول سے میٹرک کچھ اس طرح کیا کہ امتحانات کے دنوں میں اپنے ہم عصر بچوں کے بجائے کلاس کے باہر تیز دھوپ میں بیٹھ کر تمام پیپر حل کیے۔ افتخار احمد کا کہنا ہے کہ دن بہ دن کم ہوتی بینائی کی وجہ سے میٹرک کے بعد تعلیم کا سلسلہ موقوف کرنا پڑا۔ اس بات کا افسوس آج تک ہے۔

افتخار احمد نے بتایا کہ ان کے والد نے1971میں پاکستان میں پہلی بار گیس کے سلینڈر سے گاڑی چلائی تھی، جسے بہت سراہا گیا تھا اور دس اکتوبر 1971کے اخبار میں بھی یہ خبر نمایاں طور پر شایع ہوئی تھی اور کراچی یونیورسٹی کے ایک افسر (جن کا نام اب ان کے ذہن سے محو ہوچکا ہے) نے ہمارے والد صاحب کو یونیورسٹی میں آکر اس حوالے سے کام کرنے کے اجازت بھی دی تھی، لیکن اس کے کچھ عرصے بعد ہی جنگ چھڑ گئی۔



اپنے کام کے حوالے سے افتخار احمد کا کہنا ہے کہ شروع میں ایل پی جی (لیکویڈ پیٹرولیم گیس) کی کٹ پر کام کرنا آسان تھا، لیکن اب نئی گاڑیوں میں لگی ہوئی سی این جی (کمپریسڈ نیچرل گیس) کٹس بہت پیچیدہ ہے، لیکن اللہ کا احسان ہے کہ میں سی این جی اور ایل پی جی سے متعلق تمام کام بہت اچھے طریقے سے انجام دیتا ہوں اور ہمارے گاہکوں کو بھی آج تک کبھی میرے کام کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں ہوئی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ کام میں استعمال ہونے والے اوزار ایک طرح سے میرے بچپن کے ساتھی ہی ہیں۔ میں ہر قسم کے اوزار کو نہ صرف ہاتھ میں پکڑ کر شناخت کرلیتا ہوں بل کہ نٹ بولٹ کا سائز بھی ٹٹول کر جانچ لیتا ہوں۔ شادی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ گھر والوں نے تو شادی کے لیے بہت اصرار کیا، لیکن ابھی تک اس کام کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

افتخار کا کہنا ہے کہ بینائی سے محرومی کو کبھی خود پر حاوی نہیں کیا، کیوں کہ اﷲ تعالی کسی کو دے کر آزماتا ہے تو کسی کو لے کر انسان کا کام تو بس اپنے مالک کی آزمائش پر پورا اترنا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بچپن میں والدین نے ہر حال میں اﷲ کا شکر ادا کرنے کی نصیحت کی، جس پر ہم سب بھائی آج بھی عمل پیرا ہیں۔ اور میں اس بات پر بھی اللہ کا بہت شُکر گزار ہوں کہ بینائی سے محرومی کے باوجود باعزت طریقے سے روزگار کما رہا ہوں۔ میں نے کبھی بھی اپنی معذوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔

عزم و ہمت اور حوصلے کی ایک اور مثال آصف پٹیل ہیں، جن کی عمر 43 سال ہے۔ وہ بھی بینائی سے محروم ہیں اور دل چسپ بات یہ ہے کہ افتخار احمد کی ورک شاپ سے کچھ ہی فاصلے پر ان کی موٹر مکینک کی ورک شاپ ہے۔ کراچی کے علاقے لسبیلہ میں محنت مزدوری کر کے وہ اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔ آصف پٹیل پیدائشی طور پر آنکھوں کے ڈھیلوں سے محروم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے میں سنجیدہ نہیں تھے۔ پڑھنے کا بچپن ہی سے شوق نہیں تھا۔ چھے جماعتیں پڑھنے کے بعد موٹر میکینک کا کام سیکھنا شروع کردیا۔ وہ فٹ پاتھ پر پیٹرول گاڑیوں کو ٹھیک کرتے اور اپنے گاہکوں کو مطمئن لوٹاتے۔



وہ نو سال کی عمر سے گاڑی بھی چلا رہے ہیں، جس کا طریقہ کچھ اس طرح ہے کہ ساتھ بیٹھا ہوا کوئی شخص گاڑی کا اسٹئیرنگ سنبھال لیتا ہے، لیکن کلچ، بریک اور گیئر ان کے اختیار میں ہوتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ قدرت نے بینائی سے محروم رکھ کر ان کا امتحان لیا اور انہوں نے اپنی محرومی کو روگ بنانے کے بجائے خود کو روزگار کے قابل بنایا۔ 1986سے گاڑیوں کا کام سیکھ رہا ہوں اور سیکھنے کا عمل اب بھی جاری ہے۔ اب نئی گاڑیوں میں آنے والی EFI ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہوں۔

ان کے مطابق ہر کام، اول اول ہر فرد کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ ہر صحت مند یا معذور شخص کو ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے یہ کام اپنے شوق اور لگن کی وجہ سے سیکھا۔ پیسوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ اپنے پیسوں سے گاڑی خریدی اور اُس کا پورا انجن کھول کر خود ہی جوڑا اور دوبارہ فٹ کردیا۔ یہ سب اس لیے ممکن ہوا کہ مجھے اس کا شوق تھا۔ یہ میری دل چسپی تھی۔ آصف کا کہنا ہے کہ کوئی کام بڑا اور چھوٹا نہیں ہوتا۔ محنت کرنے میں کوئی عار نہیں۔ بھیک تو نہیں مانگ رہے یا کوئی اندھوں کی کوئی ایسوسی ایشن بنا کر لوگوں سے چندے مانگ کر تو گزارہ نہیں کررہے۔

آصف پٹیل کا تعلق ایک میمن گھرانے سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم دو بھائی ہیں اور دوسرے بھائی بلال پٹیل بھی نابینا ہیں۔ آصف کے مطابق ہمارے لیے بلائنڈ ایسوسی ایشن بنا کر گھر بیٹھے لاکھوں روپے امداد کے نام پر لینا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ ہمارے پاس ایسے مواقع تھے کہ ہم یہ کر سکتے تھے، لیکن اپنے ہاتھوں سے کماکر کھانے کا مزہ ہی اور ہے۔ تاہم ایک بات کا بہت دُکھ ہے کہ ہمارے ملک میں نابینا یا دیگر معذور افراد کو معاشرے کا کارآمد حصہ بنانے کے لیے حکومتی سطح پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ معذوروں کی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ میری درخواست ہے کہ حکومت اور مخیر حضرات آگے بڑھیں اور ایسے افراد کو ہنر سکھا کر باعزت طریقے سے روزگار کمانے کے قابل بنائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے حکومت کی طرف سے امداد کی ضرورت نہیں اور نہ ہی مجھے کوئی دکان چاہیے، لیکن ورک شاپ کے لیے ایک مستقل جگہ کی ضرورت ہے، جس کا ہر ماہ کرایہ دوں گا۔ انہوں نے بتایا کہ آج ان کے ساتھ چھے کاری گر کام کررہے ہیں۔ اس سے پہلے سولجر بازار میں ایک بڑی ورک شاپ تھی۔ اس جگہ سات سال کام کے دوران تمام یوٹیلٹی بلز اور کرایا باقاعدگی سے ادا کرتے رہے۔ وہاں رات دیر تک کام کرتے تھے۔ شادی کا ارادہ ہے، لیکن ابھی تک کسی کو اپنے لیے منتخب نہیں کرسکے ہیں۔



آصف پٹیل گاڑیوں کے نقص کا اندازہ ٹیسٹ ڈرائیو یا پھر انجن کی آواز سے کرلیتے ہیں۔ کہتے ہیں سولجر بازار میں اپنی ورک شاپ میں انجن وغیرہ خود باندھتا تھا، لیکن اب یہ کام میرے کاری گر کرتے ہیں۔ گاڑی ٹھیک کرنے کے بعد فائنل ٹیسٹ کرتا ہوں اور مطمئن ہونے کے بعد گاڑی اس کے مالک کے حوالے کردیتا ہوں۔

گاڑیوں اور ان کے انجنوں میں دل چسپی رکھنے والے آصف نے اپنی فالٹ پکڑنے کی مہارت سے جڑا ایک واقعہ یوں سنایا، ''1999میں پاک فضائیہ میں اہم عہدے پر فائز ایک دوست مجھے پی اے ایف فیصل بیس پر موجود جہاز تک لے گیا اور اس میں سے تیل کے رسائو کی وجہ پوچھی۔ انجن کے اُس کے حصے میں بہت سارے پائپ لگے ہوئے تھے۔ میں نے اُس جگہ کو چیک کیا اور انہیں بتایا کہ اس کے پائپ کے اندر 'او رِنگ' کی جگہ خراب ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے تیل رِس رہا ہے۔ انہوں نے میری بات کی تصدیق کی اور وہاں موجود دوسرے لوگوں نے فالٹ پکڑنے پر میری تعریف کی۔''

وہ کہتے ہیں،''میں کام گاہک کی مرضی کا کرتا ہوں، لیکن معاوضہ اپنی مرضی کا لیتا ہوں۔'' ان کے پاس خرابی کی صورت میں نئی اور پرانی تمام گاڑیاں آتی ہیں۔ وہ ایف ایکس سے لے کر جدید ماڈل کی کاروں اور جیپوں، تک تمام گاڑیوں کی خرابی بھی دور کرتے ہیں۔ اپنے بچپن کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ دوستوں اور دیگر احباب کا رویہ بہت اچھا رہا۔ دوستوں نے ہر مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا۔ آصف کا کہنا ہے کہ اگر وہ کام نہیں کرتے تو بھی اخراجات ان کے لیے مسئلہ نہ تھے۔ ان کے گھر والے ساری زندگی بٹھا کر کھلا سکتے ہیں، لیکن انہیں اپنی صلاحیتوں اور زورِبازو پر بھروسا تھا۔ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے والوں میں سے نہیں ہیں۔

آصف پٹیل نے جس عمر میں گاڑیوں کا کام سیکھنا شروع کیا تھا، اس وقت انہیں یقیناً ''چھوٹے'' کہہ کر بلایا جاتا ہو گا، لیکن آج وہ ''استاد'' کہلاتے ہیں۔ ان کے مطابق کئی لڑکے ان سے کام سیکھ کر موٹر مکینک بنے اور اپنا گیراج کھول کر روزی روٹی کما رہے ہیں۔ آصف کی زندگی میں خوشیاں اور دکھ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں،'' میں لوہے سے تو جیت گیا، لیکن مٹی کے بنے ہوئے انسانوں سے ہار گیا۔ مجھے لوگوں نے کئی موقعوں پر دھوکا بھی دیا۔ جذباتی طور پر مجھے بہت مرتبہ ان کی طرف سے دھچکا بھی لگا۔''

بصارت سے محروم یہ دونوں باہمت افراد ہمارے لیے ہمت اور محنت کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں