مور مر رہے ہیں کوے زور پکڑ رہے ہیں
اے لو اس ہفتے ہم نے اپنے یہاں کے ایک انگریزی ہفت روزے میں پاکستانی پرندوں کے حوالے سے ایک رپورٹ پڑھی ۔۔۔
ابھی کل پرسوں اسی کالم میں ہم نے کبوتروں کی اس برادری کا ذکر کیا تھا جو تحقیقی رپورٹ کے مطابق امریکا کے ایک علاقہ میں شاد آباد تھی اور جو روئے ارض کی شاید سب سے بڑی پرندوں کی برادری تھی۔ شکاریوں اور چٹوروں نے دیکھتے دیکھتے اس اس کا صفایا کر دیا۔ مرتھا نام کی آخری کبوتری نے پرندوں کے ایک عجائب گھر میں تنہائی کی زندگی سے تنگ آ کر جان دیدی۔ اب محقق اس المیہ پر تحقیق کر رہے ہیں اور مرتھا پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں ؎
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
اے لو اس ہفتے ہم نے اپنے یہاں کے ایک انگریزی ہفت روزے میں پاکستانی پرندوں کے حوالے سے ایک رپورٹ پڑھی جس میں اس پر بہت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کووں کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ اس کا کچھ علاج ہونا چاہیے۔ یہ کہنے کی کسر رہ گئی کہ انھیں مار کر ختم کیا جائے۔ اگر ہماری شریعت میں کوا حلال پرندہ گردانا جاتا تو یہ کہنے کی یوں بھی ضرورت نہ ہوتی۔ شکاریوں اور چٹوروں کو انھیں شکار کرنے اور بھون بھون کر کھانے کی کھلی چھٹی مل جاتی۔ سوداؔ کے زمانے میں شاید کسی نے کوے کو حلال بتایا تھا جس پر سوداؔ نے اس کی ہجو لکھ ڈالی ؎
اک مسخرا یہ کہتا ہے کوا حلال ہے
لیجیے اس پر ہمیں اسماعیل میرٹھی یاد آ گئے۔ انھوں نے ایک نظم کوے پر لکھی ہے جس میں اس کی اچھی بری دونوں صفات گنوا دی ہیں۔
کوے ہیں سب دیکھے بھالے
چونچ بھی کالی' پر بھی کالے
کالی سینا کے ہیں سپاہی
ایک سی صورت ایک سیاہی
لیکن ہے آواز بُری سی
کان میں جا لگتی ہے چُھری سی
اچھی ہے پر اس کی یہ عادت
بھائیوں کی کرتا ہے دعوت
کوئی ذرا سی چیز جو پا لے
کھائے نہ جب تک سب کو بلالے
اسماعیل میرٹھی کو کوے کی آواز اچھی نہیں لگتی ہے اور لوگ بھی ہیں جنھیں کوے کی کائیں کائیں بری لگتی ہے۔ مگر اس برہن سے پوچھو جو کب سے اپنے پیا کا انتظار کر رہی ہے۔ آگے گیتا دت کی آواز میں اس کی کیفیت ملاحظہ فرما تھے ؎
موری اٹریا پہ کاگا بولے
مورا جیا ڈولے
کوئی آ رہا ہے
روایت اس طرح ہے کہ اگر گھر کی منڈیر پر اتر کر کوا کائیں کائیں کرتا نظر آئے تو سمجھ لیجیے کہ یہ کوے کی کائیں کائیں نہیں ہے۔ وہ یہ خبر دینے آیا ہے کہ اس گھر میں کوئی اچھا مہمان اترنے والا ہے۔
اصل میں کوا وہ پرندہ ہے جو کم از کم اس برصغیر میں انسانی برادری کے ساتھ اتنا گھل مل گیا ہے کہ لوگوں کی گھریلو زندگی میں بھی اس کا شریک نظر آتا ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ صحن میں اگر کسی بچہ کو دیکھے کہ اس کے ہاتھ میں روئی کا ٹکرا ہے تو ؎
آنکھ بچا کر جھٹ لے بھاگا
واہ رے تیری پھرتی کاگا
ہا ہا کرتے رہ گئے گھر کے
یہ جا وہ جا چونچ میں بھر کے
مگر پھر بچوں سے اس کا یارانہ بھی تو ہو جاتا ہے۔
کوا پالتو پرندہ نہیں ہے۔ وہ خود ہی پالتو پرندوں سے بڑھ کر پالتو پرندہ بن گیا ہے۔ ہر گھر کی منڈیر پر اتر کر گھر کے اندر باہر کا جائزہ لیتا نظر آتا ہے۔ اس سے اچھے برے شگون بھی وابستہ ہیں۔ اور آپ جانیں کہ برصغیر پاک و ہند میں اکثریت ہندوئوں کی ہے اور انھیں پرندوں سے، جنگلوں میں بھاگتے دوڑتے چوپایوں سے، ہر جانور سے اتنا انس ہے کہ انھوں نے اپنی دیو مالا میں سب کو سمیٹ رکھا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ان کے بزرگ مرنے کے بعد کووں کی جون لے لیتے ہیں۔
سو اس لیے سال میں ایک خاص دن وہ اپنے بزرگوں کے لیے کھانا تیار کرتے ہیں۔ کھانا کونسا۔ بس چاول ابال کر اس کے گوے بنا لیتے ہیں۔ پھر چھتوں پر کھڑے ہو کر آواز لگاتے ہیں۔ کاگا' کاگا۔ اس آواز پر کوئے کہاں کہاں سے اڑتے ہوئے آتے ہیں اور چھت پر اکٹھے ہو جاتے ہیں جہاں چاولوں کے ان گولوں سے ان کی تواضح کی جاتی ہے نیپال میں دیوالی کے موقعہ پر ایک دن کاگ پوجا کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کوے کی آواز کی نقل اتارتے ہوئے آواز لگائی جاتی ہے جس پر کوے آن جمع ہوتے ہیں اور پھر ان کی تواضع کی جاتی ہے۔
ایک دیوی ہے شیوانی۔ کوا شیوانی کی سواری ہے اور شیوانی وہ دیوی مانی جاتی ہے جو گھروں کو چوری ڈکیتی سے محفوظ رکھتی ہے۔
بدھ مت میں بھی کوے سے بہت عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ان کے یہاں یہ روایت مشہور ہے کہ جب پہلے دلائی لاما نے جنم لیا تھا تو اس گھر پر ڈاکوئوں نے حملہ کر دیا۔ گھر والے اتنی گھبراہٹ میں گھر سے نکلے کہ بچے کو وہیں چھوڑ دیا۔ جب رات گزر گئی اور انھوں نے گھر میں قدم رکھا تو دیکھا کہ بچہ صحیح سلامت ہے اور دو کوے اس کی نگہبانی کر رہے ہیں۔
مقصود کہنے کا یہ ہے کہ یہ تو ہم آپ ہیں کہ کوے کی کائیں کائیں سے ہماری سمع خراشی ہوتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں جو مختلف مذاہب کے پیرو ہیں' ہندو' جین' بدھسٹ وہ کوے کی بہت عزت کرتے ہیں۔ یہاں کی کہانیوں میں بھی کوے کا ذکر بہت آتا ہے اور ایک ذہین پرندے کے طور پر اسے پیش کیا جاتا ہے۔ پنچ تنتر کی کہانیوں میں کوا بار بار نمودار ہوتا ہے۔ وہاں وہ بچوں سے بہت مانوس نظر آتا ہے۔
ہاں اس پر ایک الزام صحیح ہے۔ وہ کھانے پینے کے معاملہ میں چڑیوں پدیوں کو اپنے قریب نہیں بھٹکنے دیتا۔ ان کے حصے کا کھاجا بھی خود ہی کھا جاتا ہے۔ ارے یہ تو اپنا ذاتی مشاہدہ بھی ہے کہ ہم صبح ہی چڑیوں کو دانہ دنکا ڈالتے ہیں تو پتہ نہیں کدھر سے یہ بن بلایا مہمان آن اترتا ہے۔ چڑیاں بیچاری سہم کر ادھر ادھر ہو جاتی ہیں۔ مگر یہ تو ان پرندوں کے آپس کے قصے قضیے ہیں۔ قدرت کا انتظام کچھ ایسا ہے کہ بڑے پرندے چھوٹے پرندوں کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ خود فضا میں کوے کے دشمن بھی موجود ہیں۔ مثلاً شکرے' عقاب' الو۔ تو ہم ان کے معاملات میں دخل دینے والے کون ہوتے ہیں۔
اس رپورٹ میں ایک علاج تجویز کیا گیا ہے کہ جنگلوں کے کاٹنے سے باز آئو۔ نئے درخت لگائو۔ اور کھجور ایسے درخت نہیں بلکہ وہ گھنے درخت جس میں پرندے اپنے گھونسلے بنا سکیں۔ چھوٹے پرندوں کی تعداد بڑھے گی تو کووں کا اکثریتی غرور خود بخود کم ہو جائے گا۔
ویسے ہے یہ تشویش کی بات کہ پاکستان میں مور مر رہے ہیں اور کوے زور پکڑ رہے ہیں۔