پاکستان ایک نظر میں جمہوریت چلتی جائے

جمہوریت ایک ایسے بے آسرا اور لاچار بچے کی مانند ہے جسے ہمارے سیاستدانوں نے گود لیا ہوا ہے۔


شہباز علی خان September 16, 2014
جمہوریت ایک ایسے بے آسرا اور لاچار بچے کی مانند ہے جسے ہمارے سیاستدانوں نے گود لیا ہوا ہے۔

جمہوریت اور جمہوریت کاراگ سنتے کان پک سے گئے ہیں بلکہ اب تو گرنے والے ہو گئے ہیں۔

یہ آخر جمہوریت ہے کیا؟

کیا اسے ہم ایک پھل سمجھیں جو ایک بلند و بالا درخت کی اکلوتی شاخ پر لٹک رہا ہے؟

ہوا کا ایک جھونکا اسے کبھی ادھر لے جاتا ہے تو کبھی ادھر

کیا یہ کسی ریاستی نظام کا نام ہے؟

سائنس یا فنون لطیفہ کی کوئی شاخ؟

کیا یہ کسی کیفیت کو تو بیان نہیں کرتی؟

میری اپنی رائے میں جمہوریت ایک ایسے بے آسرا اور لاچار بچے کی مانند ہے جسے ہمارے سیاستدانوں نے گود لیا ہو،اور پھر یہ بچہ کسی ایک کی گود میں ہو اور دوسرا ایک دم سے اسے کھینچ لے ، یہ کہہ کر اپنے سینے سے لگا لے کہ اسے تو قدر ہی نہیں ہے او ر پھر وہ بھی اپنی مرضی کی نیکر اور شرٹ پہنا دے۔ پھر کچھ دیر بعد اسے تیسرا چھین لے اور یوں اس جمہوریت کا کبھی منزل پر نہ پہنچنے والا سفر گود در گود جاری ہے۔

ایک مثال ہے کہ دوپرانے وقتوں کے بچے آپس میں اپنی اپنی ننھی ننھی خواہشوں کو ایک دوسرے سے اظہار کر رہے تھے ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ وہ بڑا ہو کر کیا بنے گا؟دوسرے نے جواب دیا کہ وہ پولیس آفیسر بنے گا اور چوروں کو پکڑے گا۔پہلے نے سوال کیا کہ کس طرح وہ چوروں کو پکڑے گا؟ جواب ملا کہ جب چور چوری کر کے بھاگ رہے ہونگے تو وہ ان کو پکڑنے کے لئے ان کے پیچھے بھاگے گا اور اتنا تیز بھاگے گا کہ وہ ان سے بھی آگے نکل جائے گا۔پہلے نے پوچھا کہ کیا وہ اس طرح چوروں کو پکڑ لے گا؟دوسرے نے جواب دیا کہ اوئے تمہیں تو عقل ہی نہیں ہے ۔تم کبھی بڑے آدمی نہیں بن سکتے ہو۔میری خامیوں پر نظر رکھتے ہو میری خوبیاں نہیں دیکھتے۔تم میری اسپیڈ کی تعریف بھی تو کر سکتے تھے ناں۔باقی باتیں چھوڑو۔

نہیں سمجھے آپ؟ اچھا مجھے ایک فلم کا ایک سین یاد آرہا ہے جب ایک دوست اپنے دوست کا رشتہ لے کے لڑکی والوں کے گھر جاتا ہے اور خوبیاں گنواتا ہے اور ہر بار ایک ہی گردان ہوتی ہے کہ لڑکا بہت اچھا ہے۔ شاید اس سین سے آپ میرا مطلب سمجھ جائیں۔

موسی (خالہ): اتنا تو پوچھنا پڑتا ہے کہ لڑکے کا خاندان کیا ہے؟لچھن کیسے ہیں؟ کماتا کتنا ہے؟

دوست: کمانے کا تو یہ ہے موسی، ایک بار بیوی بچوں کی ذمہ داری سر پر آگئی تو کمانے بھی لگے گا۔

موسی: تو کیا ابھی کچھ بھی نہیں کماتا؟

دوست: نہیں نہیں یہ میں نے کب کہا، موسی کماتا ہے لیکن اب روز روز تو آدمی جیت نہیں سکتا ناں۔

موسی: کیا مطلب ہار جاتا ہے؟

دوست: ہاں موسی، یہ کم بخت جوا چیز ہی ایسی ہے ۔

موسی: ہائے۔۔۔تو کیا جواری ہے؟

دوست: چھی چھی چھی ، وہ اور جواری۔۔نہ نہ نہ۔۔وہ تو بہت ہی اچھا اور نیک لڑکا ہے،لیکن موسی ایک بار شراب پی لی ناں پھر اچھے برے کا کہاں ہوش رہتا ہے۔ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا کسی نے جوا کھیلنے۔اب اس میں بیچارے کا کیا قصور۔

موسی: ٹھیک کہتے ہو بیٹا، جواری وہ شرابی وہ لیکن اس کا کو ئی قصور نہیں۔

دوست: موسی آپ میرے دوست کو غلط سمجھ رہی ہیں، وہ تو اتنا سیدھا اور بھولا ہے۔آپ ہاں تو کریں۔ شادی کے بعد جوا اور شراب کی عادت تو دو دن میں چھوٹ جائے گی۔

موسی: ارے بیٹا مجھ بڑھیا کو سمجھا رہے ہو؟یہ شراب اور جوا کی عادت کسی کی چھوٹی ہے آج تک؟

دوست: موسی،آپ اسے نہیں جانتی،اعتماد کریں وہ اس طرح کا انسان نہیں ہے،ایک بار شادی ہو جائے تو وہ گانے والی کے گھر جانا بند کر دے گا بس۔شراب اپنے آپ چھوٹ جائے گی۔

موسی: ہائے ہائے۔۔بس یہی اک کمی رہ گئی تھی، تو کیا کسی گانے والی کے گھر بھی آنا جانا ہے؟

دوست: تو اس میں کونسی بری بات ہے ماسی،گانا سننے تو راجا ، مہاراجہ، اور اونچے خاندان کے لوگ جاتے ہیں۔

اب ان سب کے بعد یہ سوچنا کہ رشتے میں ہاں ہوئی ہوگی یا ناں۔ایک بات کی داد تو اس دوست کو اور ہمارے سیاستدانوں کو دینی چاہیے کہ لاکھ برائیاں ہیں دھاندلیاں ہیں، مانتے بھی ہیں اور سرعام کہتے بھی ہیں لیکن پھر بھی جناب جمہوریت تو چلتی رہنی چاہئے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔