جناب وزیر اعظم میں آپ کا شکر گزار ہوں

دھرنوں کے پیچھے مقتدرہ حلقوں کی موجودگی کا انکشاف کیا اور بگاڑ کو بڑھاتے چلے گئے۔


Iqbal Khursheed September 18, 2014

احساس تشکر میری رگوں میں دوڑتا ہے، اور دل ممنونیت سے لبریز ہے۔ میں عزت مآب وزیر اعظم اور اُن کے رفقا کا شکر گزار اور احسان مند ہوں۔ ممکن ہے، یہ بیان کچھ حلقوں کو ناگوار گزرے، انقلابی مجھے معطون ٹھہرائیں، صلواتیں سنائیں، پر مجھے پروا نہیں کہ میں فیصلہ کرچکا ہوں، ہر صبح بیدار ہونے کے بعد اور رات بستر پر جانے سے قبل اور محنت کشوں کو فرصت کے یہی لمحات میسر ہوتے ہیں، حکمرانوں کا شکریہ ادا کرونگا کہ ان کے طفیل میری آنکھوں سے لاعلمی کی پٹی اترگئی۔

اُن کی پالیسیوں کی حدت نے میرے خیالات پگھلا دیے اور ان کے سیلابی اقدامات کے سامنے میرے نظریات کی دیوار ڈھے گئی اور یہ بڑا کارنامہ ہے کہ میرے نظریات اور خیالات سانحات سہہ سہہ کر کچھ ڈھیٹ ہوگئے تھے۔ تو میں جناب وزیر اعظم اور اُن کی حکومت کا تہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے وہ دن خوب یاد ہے جب میاں صاحب سعودی عرب میں جلاوطنی کے دن گزار رہے تھے اور ہم جامعہ کراچی میں صحافت کے وہ اصول سیکھ رہے تھے جو کب کے متروک ہوچکے۔

تو ایسے میں ایک شام اتری، جب بوڑھے پروفیسر نے صحافتی جدوجہد کا تذکرہ کرتے ہوئے، جس میں وہ منہاج برنا کا ذکر کرنا بھول گئے، پرویز مشرف کی آمریت کو نشانے پر رکھ لیا۔ انھیں یقین تھا کہ اُن کے تیار کردہ غیور صحافی جمہوریت ہی کی حمایت کرینگے کہ یہی قوموں کا مستقبل ہے مگر اس وقت عجیب و غریب صورتحال پیدا ہوگئی جب بھری پُری کلاس، جس میں تمام طبقات کی نمایندگی تھی جس میں لڑکے بھی تھے اور لڑکیاں بھی، اُن کے خلاف ہوگئی۔

اُن کے دلائل رد کر دیے گئے، سیاستدانوں کو بے طرح سنائی گئی۔ جمہوریت ڈھکوسلا ٹھہری۔ سیاسی حکومتوں کو خاندانوں کی بادشاہت قرار دیا گیا۔ الزام عاید کیا گیا کہ اِس نام نہاد عوامی نظام کے طفیل جاگیردار مضبوط ہوئے۔ حاکم وقت کے وزیر، مشیر اور حواریوں کو لٹیروں سے تشبیہ دی گئی اور اپوزیشن کو ٹھگوں کا ٹولا کہا گیا، جو خاموشی سے اپنی باری کا انتظار کرتا ہے۔ تو پوری کلاس پروفیسر کی خلاف ہو گئی۔ اُنھیں ساتھ ملا، تو ایک ایسے طالبعلم کا جس کی روشن خیالی کو وہ گمراہی اور عقلیت پسندی کو جہل خیال کرتے تھے مگر ڈوبتے کو تنکا کا سہارا بہت۔ اُس راندۂ درگاہ کا ساتھ قبول کر لیا گیا۔ کچھ دیر بحث چلی، مگر اکثریت نے، جمہوری طریق پر عمل کرتے ہوئے جمہوریت کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔ گمراہ طالبعلم خاموشی سے کھسک گیا۔ پروفیسر پیر پٹختے ہوئے چلے گئے۔

آنیوالوں برسوں میں واقعات تیزی سے رونما ہوئے۔ اپنے قائدین سے محروم ن لیگ اور پیپلزپارٹی پرویز مشرف کے خلاف محدود اور مہذب جدوجہد کرتی رہیں۔ دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کی پاکستان لوٹنے کی کوششیں ناکام گئیں۔ بھلا ہو وکلا تحریک کا، جس نے اپوزیشن پارٹیوں کو احتجاج کا ایک پلیٹ فورم مہیا کردیا۔ میڈیا نے بھرپور ساتھ دیا۔ سول سوسائٹی متحرک ہوگئی۔ عدلیہ تحریک دو مراحل سے گزری اور دونوں بار وکلا، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی تکون کام یابی سے ہم کنار ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اُس سے وابستہ امیدیں پوری نہیں ہوئیں اور علی احمد کرد، جس کا قد اور کردار بہت سے باغیوں سے بُلند ہے، کچھ ہی ماہ بعد عدالتوں کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کرنے پر مجبور ہوگیا۔

پیپلز پارٹی کی تضادات میں گھری حکومت بنی۔ پاکستان کے عوام، بالخصوص سندھ کے لیے جہاں کئی دیہات آج بھی موئن جودڑو کے زمانے کا منظر پیش کر رہے ہیں، کیا کچھ کیا گیا، اس کا فیصلہ تو تاریخ کریگی البتہ زرداری سرکار بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اُنھوں نے کسی نہ کسی طرح 5سال پورے کر لیے اور تب 2012ء کے انتخابات ہوئے۔

پیپلز پارٹی سُکڑ گئی۔ ن لیگ ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئی، جمہوریت پسندوں نے سکون کا سانس لیا کہ اُنھیں یقین تھا، میاں صاحب جلا وطنی کے کرب سے کئی اسباق کشید کرچکے ہیں، ان کے وزراء حقیقت پسند اور معاملہ فہم ہو گئے ہیں، مشیر خوشامد کے مرض سے چھٹکارا حاصل کر چکے ہیں اور حواری یہاں تک کہ اپوزیشن کا اکلوتا مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہے۔ باشعور طبقے کو یقین تھا کہ ن لیگ کی تجربہ کار حکومت اس بار اداروں سے تصادم کی نوبت نہیں آنے دیگی، پارلیمنٹ، فوج اور عدلیہ اپنے اپنے دائروں میں کام کرینگے۔ دھیرے دھیرے ہی سہی، ترقی کے امکانات پیدا ہونگے۔ جمہوریت مضبوط ہو گی۔

بہت ممکن ہے، جامعہ کراچی کی اُس بھری پُری کلاس کے بیشتر طلبا نے انتخابات کے بعد اِن میں سے کسی ایک بات پر بھی یقین نہ کیا ہو البتہ مجھے یقین تھا کہ یہ انتخابات، چاہے اِن میں دھاندلی ہوئی ہو، ہمیں آگے کی سمت لے کر جائینگے، وفاق مضبوط ہو گا، صوبوں کا اعتماد بحال ہو گا اور ایک نئے پاکستان کے خدوخال ابھرنے لگیں گے۔ انتخابات کو لگ بھگ ڈھائی برس گزر گے اور آج میں خود کو ممنونیت سے لبریز پاتا ہوں۔ حکمراں جماعت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ اُن کی طرز حکومت نے میرے یقین کے ستون کا کھوکھلا پن عیاں کر دیا اور میرے نیم پختہ خیالات موم کی طرح پگھلا دیے تو میں وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، اُن ذہین فطین وزراء کے انتخاب کے لیے جن کے پرتکبر رویے اور انتہائی اعتماد نے عوام کے ذہنوں میں رعونت کا ہیولا پیدا کیا۔

جنھوں نے انتظامیہ کو یوں اپنی مٹھی میں رکھا کہ شک جڑ پکڑنے لگا کہ یہ صاحبان عوام کے ووٹوں سے تیسری بار پارلیمنٹ میں تو پہنچ گئے مگر اِس بار بھی اپنے اندر کے جاگیردار سے جان نہیں چھڑا سکے اور میں اُن مشیروں کے انتخاب کے لیے بھی ممنون ہوں، جنھوں نے حکومت کو چار حلقوں کی تحقیقات سے باز رکھا، سانحۂ ماڈل ٹائون جیسے واقعات کی زمین تیار کی۔ ایف آئی آر درج کرنے کے معاملے کو طول دیا۔

دھرنوں کے پیچھے مقتدرہ حلقوں کی موجودگی کا انکشاف کیا اور بگاڑ کو بڑھاتے چلے گئے۔ اُن حواریوں کے لیے بھی شکریہ جن کے ماضی میں نہ تو حب الوطنی کی جھلک، نہ ہی جمہوریت کی مہک۔ اُن کے لبادے پر تو فقط مفادات کا رنگ چڑھا ہے۔ جو مخالفین کے دھرنوں میں فحاشی تلاش کرنے میں جُٹے ہیں، اُن کے اپنے جبوں میں کتنی ہی ہولناک کہانیوں چھپی ہیں اور میں میثاق جمہوریت کے لیے بھی شکر گزار ہوں جس کا مقصد لگ بھگ عیاں ہو چکا اور پارلیمنٹ کے تاریخی اجلاسوں کے لیے بھی شکریہ جس میں دو چوہدریوں کی لفظی جنگ نے، ایسے وقت میں جب جل نے اجل کا روپ دھار لیا ہے، ہمیں ہیجان انگیز تفریح فراہم کرنے کی سستی کوشش کی۔

محترم وزیر اعظم، ممکن ہے، اسلام آباد میں بیٹھے تمام افراد ملک دشمن ہوں، انھیں غیر ملکی ایجنسیاں پیسے دے رہی ہوں، ان کا اکلوتا مقصد جمہوریت کا خاتمہ ہو گا، مگر گزشتہ چند ماہ سے ملک میں جو ہیجان بپا ہے، اور وہ سانحہ جس کی چاپ سنائی دے رہی ہے، اس کے ذمے دار حکومتی وزیر، مشیر اور حواری بھی ہیں۔ سوچتا ہوں، اگر آج برسوں بعد، جامعہ کراچی کی وہ کلاس پھر سجے، جمہوریت پر بحث چھڑے، تو شاید اس بار پروفیسر کا ساتھ دینے والا وہ اکلوتا طالب علم چپ رہنے کو ترجیح دے اور اس المیے کے لیے حکومت کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں