پابندی ضروری ہے
2003ء میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن میں بحیثیت ڈپٹی کنٹرولر پروگرام میں اسلام آباد...
اوقات کی پابندی صرف انسان کرتے ہیں۔ جانوروں کے پاس ''جگالی'' اور دوسری مخلوقات کے پاس دوسرے سلسلوں کے لیے بہت وقت ہے۔ یوں تو ''ہمارے اوقات'' اور ہماری ''اوقات'' کو ہمارے اندرونی ''دہشت گردوں'' نے ہی ''تلپٹ'' کر دیا ہے اور سارا نظام الاوقات ''قومی، مقامی'' بلکہ ''انفرادی'' حد تک بدل کر رکھ دیا ہے۔ دو چیزیں اس کا فیصلہ کرتی ہیں کہ آپ کی منزل کیا ہے اور کیا آپ اس تک پہنچیں گے یا رہ جائیں گے۔ اور وہ ہیں آپ کے سونے اور جاگنے کے اوقات۔ ہماری ایک دوست کالم نگار، اس کے باوجود کہ میں کالم میں ''میں'' اور ''ہم'' سے دور ہی رہتا ہوں، مجھے تاکید کرتی رہتی ہیں کہ اپنا ذکر زیادہ نہ کریں اس پر میں ان کا شکریہ ادا نہ کروں تو زیادتی ہے کہ یہ ''خود احتسابی'' کے لیے ایک اچھی صلاح ہے۔
2003ء میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن میں بحیثیت ڈپٹی کنٹرولر پروگرام میں اسلام آباد ہیڈکوارٹر میں تعینات تھا (کیسا اچھا لگ رہا ہے اپنا Projection) تو ہمارے ایک انجینئر ساتھی بدر بھی تبدیل ہو کر اور ترقی پا کر اسلام آباد آ گئے۔ ان کا یہ حال تھا کہ ہم ''ہال'' میں کھانے کے بعد ''فضول گفتگو'' میں جو کھانا ہضم کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے رات ساڑھے دس تک ہوتے تھے۔ تو بدر کی آنکھیں دس بجے ''شرمانا'' شروع کر دیتی تھیں اور ساڑھے دس بجے ان کی ''ٹھوڑی'' سینے سے لگنے لگتی تھی اور قریبی ساتھی انھیں ''ٹہوکے'' دے کر بیدار رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ بہت مشکل اور مہینوں کی محنت سے ہم انھیں گیارہ تک لائے اس کے بعد وہ ''ہاتھ کھڑے'' کر دیتے تھے۔
اب پتہ نہیں وہ کس حال میں ہیں۔ تو جو اقوام ترقی کرتی ہیں کر رہی ہیں یا کرنا چاہتی ہیں، میں اپنی قوم کو شمار کیے بغیر یہ عرض کر رہا ہوں وہ اپنے نظام الاوقات پر سخت پابندی رکھتی ہیں۔ اگر آپ Net پر ''عشق'' بھی کریں گے تو وہ ان کے نظام الاوقات کے مطابق ہو سکتا ہے اور ان کے مقررہ وقت پر آپ ایک حتمی جملہ سنیں گے یا پڑھیں گے حسب اوقات ''اوکے ڈارلنگ۔ باقی کل See you'' ہمیں تو یہ بداخلاقی لگے گی کیونکہ ہم ہیں ''بے نتھا بیل'' جس کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ مگر انھیں تو دنیا میں اور بھی کام کرنے ہیں۔ صرف عشق سے تو پیٹ بھرنے سے رہا۔ ہر رانجھے کے پاس تو بھینسیں نہیں ہوتیں کہ عشق بھی چلتا رہے اور پیٹ بھی بھرا رہے۔
Times is Money یہ ان کا مقولہ ہے۔ ہم دوسروں کے تمام اچھے افعال اور اعمال کو اپنی سابق تاریخ سے حوالہ نکال کر ''اپنا'' قرار دے دیتے ہیں مگر خود ''عمل'' کو تیار نہیں ہوتے۔ ایسا ہی ہے جیسے آپ کی فٹ بال سے ورلڈ کپ کھیلا جائے اور آپ صرف تماشائی ہوں۔
میں بھی وہی باتیں کر رہا ہوں جو ہم عام طور پر کرتے ہیں بالکل سیدھی سامنے کی مگر مجھے صلاح مشورہ دینے سے الجھن ہوتی ہے کیونکہ مجھے بھینس سے نہیں بین سے ڈر لگتا ہے اور یوں میں اسے ہاتھ ہی نہیں لگاتا۔ آپ خود دیکھ لیجیے بازار ایک بجے کھلتا ہے۔ فرشتے بھی رزق تھامے تھامے تھک جاتے ہوں گے (فرشتوں سے معذرت کے ساتھ ہم انسانوں کو سمجھنے کے لیے یہ لفظ ضروری ہے ورنہ آپ کہاں تھکنے والے ہیں)۔
اتنی دہشت گردی، لوٹ مار، بھتہ خوری اور پتہ نہیں کون کون سی ''خوری'' اور ''خواری'' کا کوئی اثر دیکھا آپ نے ماحول پر؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی اپنے آپ کو تبدیل کرے۔ جواب یہ ہوگا ''ہم پاگل ہیں دکان کھول کر بیٹھ جائیں سویرے سویرے اور وہ لوٹ کر لے جائیں''۔ تو اب ان کو کون سمجھائے کہ لوٹنے والے صبح سویرے بیدار نہیں ہوا کرتے۔ مگر جہاں ''تحفظ'' تھانے کی ''حد'' تک ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر ایک بات اور بھی ہے کہ اگر سب صبح دکان کھول لیں یا کاروبار شروع کرلیں تو آپ کی تعداد اور ہر دکان کھلی دیکھ کر سویرے کے ''لوٹ مار'' شاید ہمت نہ کر سکیں یہ کام ''رش'' میں ہی اچھا ہوتا ہے۔ یہ پولیس کے کچھ مخبروں کا خیال ہے میرا نہیں۔
اب دیکھا آپ نے کیوں مشورہ میں نہیں دیتا؟ عمل کون کرے اور پھر یہ بھی تو ہو گیا ہے کہ ''عدم تحفظ'' نے ہمیں اپنے اپنے ''خول'' میں بند کر دیا ہے ''مجھے کیا'' ۔۔۔۔''میں کیا کروں۔۔۔۔ میں نے کہا ہے کیا کہ لوٹ لو۔۔۔۔ چلو ہم تو بچ گئے۔۔۔۔۔بھائی اپنی فکر کرو'' یہ ہیں وہ خیالات جو ہر ذہن میں گھومتے پھرتے چکراتے رہتے ہیں اور یوں ہم ''تنہائی'' کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ بزرگوں کے بارے میں اب وہ خیالات نہیں ہیں لوگوں کے۔ ان کو عموماً شائستہ یا ناشائستہ جیسا اس گھر کا ماحول ہو ''گھرکیاں'' اور ''جھڑکیاں'' ہی ملتی ہیں۔
یہ ناول نہیں ہے زندگی کے حقائق ہیں۔ ''ابا جی۔۔۔آپ نے زندگی میں کیا ہی کیا ہے۔ فلاں کو دیکھو'' یہ جملہ لکھنے والا شاید میں کئی ہزارواں انسان ہوں مگر کیا یہ حقیقت تبدیل ہوئی؟ نہیں ہوئی، کیوں؟ اس لیے کہ ان لوگوں کے لیے ''وقت'' بدل گیا ہے۔ چھاؤں گزر گئی، سر میں سفیدی اور دھوپ آگئی ہے اور اس سے دوسروں کو کوئی غرض نہیں۔ آپ اپنا ''وقت'' گزار چکے۔ اب ان کا وقت ہے۔ آپ نے پیڑ لگانے میں ''سارا وقت'' ساری عمر لگا دی اور اب وہ ''پھل'' بھی کھائیں گے اور گٹھلیاں آپ کی طرف پھینکیں گے۔
خیر چھوڑیے اس قصے کو ہم تو شاید قوم کی بات کر رہے تھے۔ مگر کس قوم کی۔ جو رات بارہ ایک دو بجے تک سوتی اور دن میں ایک بجے اٹھتی ہے۔ زیادہ تر اس کے بھی بعد۔ تو یہ قوم کیا کرے گی۔ مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں ہے ''ہمدردی'' ہے۔ یہ شکایت اور سدباب عبور کر چکی ہے۔ انقلاب کے نعرے مستقبل کے سنہرے خوابوں نے اسے سلا دیا ہے ذہنی طور پر۔ میں بھی اس کا ایک فرد ہوں۔ مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں ہے۔
آنسو تو صرف آنسو ہوتے ہیں چاہے خوشی کے ہوں یا دکھ کے۔ انھیں تو ''وقت'' کے مطابق سمجھا جاتا ہے۔ تشریح کی جاتی ہے۔ مگر جہاں آنسو ہوں ''ہر وقت'' وہاں آپ کیا کریں گے۔ جہاں خوشی اور دکھ کا امتیاز ہی اٹھ جائے؟ وہاں آپ کیسے پہچانیں گے۔ جہاں صرف دو طرح کی آنکھیں ہوتی ہوں۔ شعلہ برساتی، آنسو برساتی وہاں کیا فیصلہ کریں گے۔ مجھے اپنی قوم سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ یہ سیدھی سچی بھیڑیں ہیں جو راستہ بتا دیا اس پر چلتی رہتی ہیں۔ بھیڑوں سے کیا شکایت کرنا۔ شکایت کس سے کریں۔ شکایت ان سے ہے جنھوں نے اپنے نفع اور فائدوں کے لیے قوم کو اس ''وقت'' کے زیاں کا عادی بنا دیا ہے۔ کر سکتا ہے کوئی شکایت؟ ہے ہمت؟ لاہور یاد ہے ناں!