تبدیلی آئے گی یکساں نظام تعلیم سے

تھک ہار گئے ہم مغربی تہذیبوں کو اپناتے اپناتے،...


فرح ناز September 19, 2014

ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جس کو اب ہمیں اس وقت اپنے آپ پر لاگو کرنا ہوگا کہ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ ہم پاکستان میں کہیں پر بھی رہائش پذیر ہوں، کسی بھی شہر اورکسی بھی گلی میں رہتے ہوں کوئی بھی شناخت رکھتے ہوں کیا فرق پڑتا ہے؟ مقصد تو ایک ہے ہم سب کا کہ ایک بہترین زندگی، ایک بہترین ملک پاکستان ہماری پہچان! زندگی کے شب و روز گزرتے جا رہے ہیں اور بدقسمتی سے یہ کہنے میں دل دکھتا ہے کہ ہم آگے کی بجائے پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم زبردست امت کے امتی، خوش نصیبی ہے ہماری مگر ہم خود اپنی خوش قسمتی کو بدقسمتی پر بدلنے کو تیار نظر آتے ہیں۔

ایک خوبصورت ملک جوکہ بے شمار معدنیات سے لبریز ہے، پوری دنیا کے لیے ایک اہم حیثیت رکھتا ہے، بے تحاشا خوبصورتی اور بے تحاشا اللہ کی رحمتوں سے بھرا ہوا یہ ملک جس میں رہتے ہوئے اب ہمارے نوجوان اپنے آپ کو بدقسمت سمجھتے ہیں۔مختلف جملے ہمارے نوجوانوں کے لبوں پر نظر آتے ہیں یا سننے کو ملتے ہیں، ''کوئی کہتا ہے زندہ بھاگ یہاں سے '' کوئی کہتا ہے کہ'' اپنی نسل کو بچانا ہے تو پاکستان سے جانا ہے'' وغیرہ وغیرہ۔جس قوم کے نوجوان اپنے آپ کو بے بس سمجھنے لگیں وہ قوم کیسے سنبھلے؟ جس قوم کے نوجوان اپنی صلاحیتیں باہر کے ملکوں کو دیں ان کے اپنے ملک کیسے ترقی کریں؟سوچنے کی بات ہے ناں جب بنیادیں ہی کمزور ہوں تو عمارت کے بارے میں کیا کہا جائے؟اور اب لگتا ہے کہ وقت اپنے ہونے کا اشارہ دے رہا ہے۔

تھک ہار گئے ہم مغربی تہذیبوں کو اپناتے اپناتے، ہمارا اپنا تقدس اپنا تمدن پھر آوازیں دے رہا ہے ہمیں اب ہمیں اپنے آپ کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنا ہوگا۔ محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں لانا ہوگا۔ اپنے رویے مثبت کرنے ہوں گے اپنے آپ کو بدلنا ہوگا لیکن یہ کیسے ہوگا؟ یہ صرف اور صرف علم سے ہوگا، قطعاً وہ علم نہیں جو اپنی اپنی ضرورتوں کے تحت بنایا جائے گا اور مختلف جگہوں پر اپنی اپنی ضرورتوں کے تحت پڑھایا جائے گا۔ یا ایک مقصد رکھ کر الگ الگ جگہوں پر ہماری نسل کو پروان چڑھایا جائے گا۔ بالکل بھی نہیں۔ شدید ترین ضرورت ہے کہ پورے ملک میں، پورے پاکستان میں، تمام مکاتب فکر کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز، لوگوں سے مشاورت کرکے پاکستان کے ہر طالب علم کے لیے ایک ہی نصاب ترتیب دیا جائے۔

جس میں اردو، انگلش اور دینی جوکہ یقینا ہماری ضرورت ہے، پوری دنیا بھر سے پڑھے لکھے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز پاکستانیوں سے صلح و مشورے کیے جائیں۔ وقت اور حالات کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے تمام اعلیٰ ترین تعلیم کے مواقعے ہر پاکستانی طالب علم کو باآسانی فراہم کیے جائیں اور اس طرح پلان کیا جائے کہ ایک عالیشان نسل پاکستان کے حال اور مستقبل کی نگہبان ہو۔ ہمارے تمام حکمرانوں کو تمام لیڈرز کو اپنے اپنے نظریے چھوڑ کر صرف پاکستان کے بہترین نظریے پر کام کرنا ہوگا۔ تعلیم سے بڑا ہتھیار کوئی نہیں ہوسکتا اور اسی تعلیم کو ہر جگہ پھیلانا ہوگا۔ تمام لوگ مل کر بیٹھیں اور ایسا تعلیمی معیار پاکستان بھر میں پھیلایا جائے جو سب کی پہنچ میں آسکے۔

بجٹ میں تعلیم کے لیے بہتر بجٹ بنایا جائے، اساتذہ کو اچھی مراعات اور تنخواہ دی جائیں، سہولتوں سے لیس، اسکول اور کالجز اور یونیورسٹیز ڈیزائن کی جائیں۔ قوم کم کھائے مگر بہترین تعلیم حاصل کرے کہ یہی وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستانی بہترین استاد جو بیرون ملک سے ہوتے ہیں اور تڑپتے ہیں اپنے لوگوں کو، اپنے نوجوانوں کو علم سے مالا مال کرنے کے لیے۔ ان کی خدمات حاصل کی جائیں، ان کو عزت دی جائے کم ازکم دس جماعتوں تک گورنمنٹ کو تعلیم کو مفت کرنا ہوگا، تاکہ غریب اور نادار لوگ جو علم کی خواہش رکھتے ہیں، ذہین اور لائق ہیں وہ اس مملکت خداداد میں عزت اور خیر کی زندگی پاسکیں۔ نبیوں کی زندگی کے حالات، حکمرانوں کے رویے، تمام ہمارے وہ رہنما، شاعر اور ادیب جو ہمارے لیے رہنما ہیں ان کو ان کے نظریے کو مشاورت کے بعد نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ مغربی ادیب کے ساتھ ساتھ ہمارے ادیبوں کو بھی پڑھایا جائے۔

قرآن پاک کی تعلیم کو عام کیا جائے اور شروع کلاسوں سے اس کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ہم مسلمان ہیں، ہم پاکستانی ہیں،یہ بات باعث شرم نہیں، اس کو باعث فخر بنایا جائے۔ تعلیم و تربیت ہمارے لیے ہمارے کھانے پینے سے زیادہ اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے، اور اس اہمیت کو تمام لیڈرز کو سمجھنا ہوگا۔ ترقی کرتی ہوئی دنیا میں، پاکستان جیسی قوم جو بہت محنتی، جو بہت صابر، جو بہت ہی زیادہ جفاکش، اگر اس قوم میں تعلیم خون کی طرح پھیل جائے تو ہمیں کسی بھی موڑ پر کوئی بھی defeat نہیں دے سکتا پاکستان ایک ایسی سرزمین ہے جس کا وجود میں آنا ایک مقصد رکھتا ہے۔ اس کا قائم ہونا تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے بھی اتنا ضروری ہے جتنا پاکستان کے لیے اور ترقی، کامیابی، روشن مستقبل بغیر علم کے، بغیر تعلیم کے ناممکن ہے۔ تعلیم کے بہترین مواقع تمام تر پاکستانیوں کے یکساں ہونا ہمارے لیے اتنا ہی ضروری ہوگیا ہے۔

جب ہمارا نوجوان اپنی قوت، اپنا وقت ، اپنی انرجی تعلیم کے لیے خرچ کرے گا تو وہ دوسری Negative چیزوں سے خودبخود دور ہوتا چلا جائے گا، نظام تعلیم یکساں ہوگا تو خود اعتمادی کا جذبہ بھی عروج پر ہوگا۔ اپنی اپنی ذہانت پر اور اپنی اپنی صلاحیتوں پر اعتماد بڑھے گا۔ والدین کو بھی آسانیاں میسر ہوں گی، تعلیم کی بدولت ہمارے رویے بدلیں گے، جھوٹ، فریب، چوری، چکاری، دھوکہ بازی، ان تمام برائیوں سے معاشرہ نجات پانا شروع کرے گا۔ اور اداروں میں جب پڑھا لکھا طبقہ کام کرے گا تو ادارے خودبخود ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے اور جب ادارے ترقی کریں گے تو ملک خودبخود آگے اور آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ یہی ہے ہمارا خواب اور اس کو پورا بھی ہونا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں