پہلا غیر موثر ہو جائے تو ’’دوسرا‘‘ آجاتا ہے ثقلین مشتاق

اسٹار کرکٹر اور کوچ ثقلین مشتاق کی باتیں


Hassaan Khalid September 20, 2014
اسٹار کرکٹر اور کوچ ثقلین مشتاق کی باتیں۔ فوٹو: فائل

سُباش جے رامن ہندوستان سے تعلق رکھنے والے کرکٹ کے معروف صحافی ہیں۔ اپنے صحافتی کرئیر میں انہوں نے دنیائے کرکٹ کے کئی عظیم کھلاڑیوں کا انٹرویو کیا ہے۔

کچھ ماہ قبل انہوں نے پاکستان کے رجحان ساز آف اسپنر ثقلین مشتاق کا انٹرویو کیا، جو کرکٹ کی ویب سائٹ ''کرک انفو'' کے آن لائن ماہانہ جریدے ''کرکٹ منتھلی'' میں شائع ہوا ہے۔ اس انٹرویو کے کچھ منتخب حصے قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہیں۔

٭ آف اسپنر بننے کا خیال کیوں آیا؟

یہ سب قسمت کا کھیل ہے۔ آدمی کچھ سوچتا ہے اور ہو کچھ جاتا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ وہ آج جو کچھ ہے، ہمیشہ سے یہی بننا چاہتا تھا، تو میرے خیال میں، وہ غلط ہے۔ ہمارے خاندان میں کرکٹ شروع سے اہم رہی ہے۔ دوسروں کی طرح، ہم نے بھی گھر کی چھت پر ٹیبل ٹینس کی گیند سے کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ وہاں کیونکہ تیز بال کرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی، اس لیے کھڑے کھڑے ہاتھ گھما کر گیند پھینکنے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ پھر میں گلیوں میں ٹیپ بال کرکٹ کھیلنے لگا، اور بعد میں شہر میں ہونے والے بڑے مقابلوں میں شرکت بھی کی۔ والد نے کرکٹ میں میرا جنون دیکھا تو مجھے مقامی کلب میں کھیلنے کا مشورہ دیا۔

میں ایک ایتھلیٹ کی طرح لمبا چوڑا نہ تھا، اس لیے تیز بالر کی طرح گیند نہیں کر سکتا تھا۔ تیزگیند بازی کے ایکشن کے ساتھ بھی میری گیند آف اسپن ہی ہوتی تھی۔ چنانچہ اس دور میں ہونے والے مقامی رمضان ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹس میں، میں نے اسپن بالنگ پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر دی۔

٭ کچھ ہمیں ''دوسرا'' کے متعلق بتائیں۔ اور بشن سنگھ بیدی نے اس پر جو تنقید کی ہے، اس کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے؟

کسی نے مجھے ''دوسرا'' کے متعلق ان کے خیالات سے آگاہ کیا ہے کہ وہ اسے غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ لفظ ''دوسرا'' کا استعمال بھی ان کے معاشرے میں ممنوع ہے، کہ یہ کسی دوسرے تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بڑے ہونے کے ناتے میں بیدی صاحب کی عزت کرتا ہوں۔ لیکن بات یہ ہے کہ کرکٹ کے قوانین ہم نے نہیں بنائے۔ جب آئی سی سی کسی گیند کو قانونی قرار دے چکی ہے تو ہمیں خوامخواہ مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ ہم یہ طے نہیں کر سکتے کہ ایک اوور آٹھ گیندوں پر مشتمل ہو گا، یا اوور میں چار باؤنسر کرنے کی اجازت ہے۔ ہم نے آئی سی سی کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق کھیلنا ہوتا ہے۔

بہت سے لوگ بالنگ میں اس طرح کی جدتیں دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ جب پہلا غیر موثر ہو جائے تو ''دوسرا'' آ جاتا ہے۔ پھر تیسرا، چوتھا۔۔۔۔ اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ پہلا (روایتی آف اسپن) کا دور ختم ہو چکا، اور یہ ''دوسرا'' کا زمانہ ہے۔

٭ مختلف حالات، پچوں اور فارمیٹس میں کھیلتے ہوئے آپ کیسے حکمت عملی بناتے تھے؟

یہ اس پر منحصر ہے کہ اس وقت میرا موڈ کیا ہے، میں کس تیاری کے ساتھ میدان میں اترا ہوں اور حریف ٹیم نے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ سیریز کی تاریخ کیا رہی ہے؟ پہلا ٹیسٹ ہے، دوسرا یا تیسرا؟ آپ کو سیریز میں برتری حاصل ہے یا نہیں؟ کیا یہ فیصلہ کن میچ ہے؟ یہ سب چیزیں مدنظر رکھنا ہوتی ہیں، اس لیے آپ کسی عمومی منصوبہ بندی کا ذکر نہیں کر سکتے۔

لیکن میں آپ کو ایک سادہ مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں نے اپنی زیادہ تر کرکٹ وسیم بھائی کی کپتانی میں کھیلی ہے۔ اور انہوں نے مجھے باور کرایا تھا کہ میں وکٹ لینے والا بالر ہوں۔ چنانچہ پہلے میں یہ دیکھتا کہ کون سے دو بلے بازوں کو میں سب سے زیادہ پریشان کر سکتا ہوں۔ کس بیٹسمین کا مجھے لحاظ کرنا پڑے گا اور کب اسے آؤٹ کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔ یہ سب میں بالنگ کرنے سے پہلے میدان میں ہی کنڈیشنز دیکھ کر سوچ لیتا تھا۔

ٹیسٹ کرکٹ کی طرح ون ڈے میں بھی میرا کردار وکٹ لینے والے بولر کا رہا۔ وسیم بھائی نے کہہ رکھا تھا کہ انہیں اس کی کوئی پروا نہیں ہے کہ مجھے کتنے چھکے چوکے لگتے ہیں، میں نے وکٹ لینے کی کوشش کرنی ہے۔ ویسے باؤنڈری لگنے سے میں کبھی خوفزدہ نہیں ہوا۔ درحقیقت مجھے خوشی ہوتی تھی کہ وکٹ ملنے والی ہے۔ جس طرح بادل ظاہر کرتے ہیں کہ بارش ہونے والی ہے، اسی طرح جب کوئی بلے باز مجھے چھکا جڑتا، تو یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ اپنی وکٹ مجھے دینے والا ہے۔

وکٹ لینے کی جستجو مجھ میں شروع سے ہی تھی، جس کا کریڈٹ میں اپنے بچپن کے کوچ کو، اللہ ان کی عمر دراز کرے، دیتا ہوں۔ ہر سیشن کے بعد وہ دریافت کرتے کہ میں نے کتنی وکٹیں لی ہیں اور اس میں روزانہ کی بنیاد پر بہتری کی تلقین کرتے۔ انہوں نے مجھے پریکٹس سیشن کے دوران لی جانے والی تمام وکٹوں کو ڈائری میں درج کرنے کا مشورہ دیا۔ جیسے جیسے دن، مہینے اور سال گزرتے چلے گئے، یہ ڈائری ہزاروں وکٹوں سے بھرتی چلی گئی۔ یہ ڈائری اب بھی میرے پاس ہے۔

٭ کوچ اور کھلاڑی کے رشتے کے متعلق کچھ بتائیں؟

کوچ اور کھلاڑی کا تعلق روح اور جسم کی طرح ہے۔ کھلاڑی جسم ہے اور کوچ، روح۔ کسی کھلاڑی کا فٹ ورک ٹھیک کرنا کوچنگ نہیں ہے، بلکہ کھلاڑی کو اندر، باہر سے جاننا کوچنگ ہے۔ کوچ ایک گرو، ڈائریکٹر اور فلٹر کی طرح ہے، اسے ایک کھلاڑی میں پیدا ہونے والے منفی خیالات کو روکنا ہوتا ہے۔

میرے اردگرد زیادہ تجربہ کار لوگ نہیں تھے، میں ایک سادہ لڑکا تھا۔ ٹیم میں موجود تجربہ کار کھلاڑیوں کے ساتھ رہ کر میں نے سیکھا ہے۔ اپنی زندگی میں، میں نے اپنے والد، دادا اور بھائی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ یہ سب ایماندار لوگ تھے۔ کالج اور کلب کے میرے دوست بھی تجربہ کار، ایماندار اور خدا ترس لوگ تھے، وہ انا کے مارے ہوئے نہیں تھے۔ میں آج بھی اپنے نوجوان کھلاڑیوں سے کہتا ہوں کہ ان کے اردگرد چھ خوبیوں کے حامل لوگ ضرور ہونے چاہیں۔ وہ چھ خصوصیات یہ ہیں: ایماندار، قابل اعتماد، ذہین، تجربہ کار، محنتی، اور جہاں دیدہ لوگ۔

٭ آپ اخلاقیات، مذہب اور فلاسفی کی باتیں کر رہے ہیں۔ اپنے کرکٹ کرئیر کے دوران بھی آپ ایسے ہی تھے؟

ہاں، تب بھی میں بالکل ایسے سوچتا تھا۔ آج کل جب میں انگلینڈ میں بچوں کی کوچنگ کرتا ہوں تو میں اپنے کھلاڑیوں کو یہی سمجھاتا ہوں کہ انہیں کسی بھی دوسری چیز کے مقابلے میں اپنے والدین کی عزت کرنی چاہیے۔ میں اپنے طالب علموں کو ہمیشہ یہی بتاتا ہوں کہ پوری دنیا کی چیزوں کی محبت کم تر ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں اپنے والدین سے تھوڑی بہت محبت کی بھی بہت زیادہ قدر و قیمت ہے۔ میرے والد نے ہمیشہ میری مدد اور رہنمائی کی۔ انہوں نے میرے لیے بڑے خواب دیکھے۔

میرا طرز زندگی بہت زیادہ نمایاں نہیں تھا، لیکن میں ہمیشہ سے روحانیت کی طرف مائل رہا ہوں۔ میرے خیال میں اندر سے سب ایسے ہوتے ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے لوگ بھی بہت زیادہ روحانیت پسند ہیں۔ وہ ہر وقت دعا کرتے رہتے ہیں۔ ہندوستان کے لوگ بھی ایسے ہیں۔ ہربھجن سنگھ سے میری بہت زیادہ بات چیت رہی ہے۔ وہ ان چیزوں کے بارے میں بہت باتیں کرتا ہے۔ میری سچن ٹنڈولکر سے بات بھی ہوئی ہے، وہ بھی اسی طرح روحانی اعتقاد رکھتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔