اپنا دیس
گوروں نے لوٹے یا مسلم شاور کو ابھی تک اپنے اپارٹمنٹس میں داخلے کی اجازت نہیں دی۔
مجھے معلوم تھا کہ لندن کا موسم متلون مزاج ہے یہاں دھوپ بادل اور ہوائیں سارا دن آپس میں آنکھ مچولی کھیلتے رہتے ہیں اس لیے لاہور کے گرم موسم کی تمازت کے باوجود میں نے ہینڈ کیری بکس میں گرم جیکٹ رکھ لی جو ہیتھرو کے ہوائی اڈے سے باہر نکلتے ہی پہن لی۔ موسم کی مذکورہ ادا کے باوجود یہاں کے لوگ متلون مزاج نہیں، دھیمے، پھرتیلے لیکن بااخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔
نہ گھورتے ہیں نہ خواہ مخواہ چلتے ہوئے دوسروں سے ٹکراتے ہیں نہ ہی ناک اور گلے کی رطوبت سڑک یا قریب سے گزرتے راہ گیر کی طرف پھینکتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ وہ سڑک دکان یا بازار میں کسی اور شخص کا نوٹس ہی نہیں لیتے اور نظروں سے نظریں تک نہیں ملاتے۔ ٹھیک ہے وہ گورے ہم براؤن ٹھہرے لیکن انھیں تو اپنوں کو بھی سڑک پر روک کر گپ بازی کرتے نہ دیکھا۔
ہوائی اڈے سے میرے میزبان دوست سعید الحق کا اپارٹمنٹ بیس کلو میٹر کے فاصلے پر ٹریفک اور جگہ جگہ ٹریفک سگنلز میں سے گزر کر ہونے کے باوجود سڑک کے ضوابط کو ملحوظ رکھنے والے بس ٹرک کار سواروں کی وجہ سے صرف نصف گھنٹے میں آ گیا تو مجھے حیرت زدہ خوشی نے آن گھیرا ورنہ اپنے شہر کی ایسی ٹریفک کو تصور میں لاتا تو یہ کئی گھنٹے کا جان لیوا سفر ہوتا۔ دراصل اصول و ضوابط کی پاسداری ہی کسی معاشرے کے نظم و ضبط کی عکاس ہوتی ہے۔
مجھے دوست کے اپارٹمنٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی سمجھ آ گئی کہ جس معاشرے کے افراد کی سوچ یہ ہو کہ ''پہلے میں'' بلکہ ''صرف میں'' ہو ان کا کردار کیسا ہوتا ہے اور جہاں یہ رویہ ہو کہ ''پہلے آپ'' ان کا انفرادی اور اجتماعی کردار ڈھل کر ان کی عادات پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ اخذ کرنے کے لیے کسی دفتر کے آگے یا اسٹور میں لگی لاہور یا لندن کی امیدواروں یا گاہکوں کی قطار کا نظارہ کر لینا ہی کافی ہو گا۔ صرف قطار ہی کو پیمانہ بنا کر ''پہلے آپ'' اور ''پہلے میں'' کو پہلا سبق قرار دے دیجیے تو بہت کچھ سیکھنے کو مل جائے گا جو دیگر شرف انسانی کے اسباق بھی سکھا دے گا۔
میزبان سعید الحق نے میرے لیے اپنے اپارٹمنٹ کا ایک بیڈروم مجھے دے دیا تھا۔ ٹائیلٹ بھی الگ تھا، شروع میں تو ہر مکان میں صرف ایک ٹائیلٹ ہوا کرتا تھا اب گوروں نے دو ٹائیلٹس کی گنجائش تو پیدا کر لی ہے لیکن ٹشو رول سے آگے نہیں بڑھے جب کہ مسلمانوں کے گھروں میں اب لوٹے ضرور آ گئے ہیں جب کہ چند ماہرین نے مسلم شاور بھی لگائے ہیں۔ گوروں نے لوٹے یا مسلم شاور کو ابھی تک اپنے اپارٹمنٹس میں داخلے کی اجازت نہیں دی۔ ریستوران مالکوں کا البتہ مسلمان گاہکوں کی وجہ سے پانی اور ٹشو رولز کا خرچہ کافی بڑھ گیا ہے۔
لندن جانے والا ہر پاکستانی وہاں کے بڑے شاپنگ مالز کا دورہ ضرور کرتا ہے چاہے مقصد ونڈو شاپنگ ہو، دس پاؤنڈ کی خریداری یا دس ہزار کی شاپنگ لیکن وہاں پر وہ بالکل انگریز بنا رہتا ہے لیکن جونہی وہ کسی پاکستانی کے اسٹور میں خریداری کرتا ہے اچانک پاکستانی بن جاتا ہے۔ یعنی چال ڈھال اور قطار بنانے کی حد تک۔
لندن پہنچنے کے تین روز بعد میرا میزبان مجھے اپنے ایک قریبی دوست سے ٹیلیفون پر تعارف کے بعد اس کے پرتعیش اپارٹمنٹ میں رات کے کھانے پر لے گیا۔ باقی باتوں کو چھوڑیئے، میزبان کے دوست کی لائف ہسٹری نے مجھے گم سم کر دیا میں اس کا نام بدل کر اس مالدار شخص منیر زماں کی کہانی سناتا ہوں جو چاہیں اس کی تقلید کریں جو چاہیں توبہ کریں۔
منیر زماں کی جوانی کی تصاویر بتاتی ہیں کہ وہ جب 1975ء میں برطانیہ آیا تو طویل قامت خربرو سرخ و سفید رنگت والا فلمی ہیرو جیسا نوجوان تھا۔ اسے ایک ہوٹل میں ادنیٰ سی ملازمت ملی لیکن پانچ سال کے اندر وہ اس ہوٹل کا منیجر تھا اور مالک کا چہیتا ورکر۔ ہوٹل کا مالک مذہبی آدمی لیکن کامیاب بزنس مین تھا۔ مالک کی اکلوتی بیٹی اس شرط پر منیر زماں پر فریفتہ ہو گئی کہ وہ اس کا مذہب اختیار کر لے گا اگرچہ یہ منیر زماں کا فریب تھا لیکن وہ اپنے ماں باپ کے اعتقاد سے کیوں کر بغاوت کرتا۔ دونوں میں عہد و پیماں البتہ ہوئے اور ایک کمیونٹی سینٹر میں ان کی شادی بھی ہو گئی۔
وہ بیوی اور سسر کو دکھانے کے لیے چرچ کا چکر بھی لگا لیتا لیکن پھر تخلیے میں توبہ کا سجدہ بھی ضرور کرتا۔ سات سال کی شادی کے عرصے میں ان کے ہاں چار بیٹوں نے جنم لیا۔ ان میں سے ہر ایک کے نام کا پہلا حصہ ماں نے رکھا جس کے اخیر میں منیر ہوتا۔ مقامی کمیونٹی شروع ہی سے مشکوک تھی اب وہ کھل کر منیر کی بیوی کے خلاف ہو گئی اور اسے مجبور کیا کہ وہ منیر سے علیحدگی اختیار کرے یا منیر ان کی عبادت گاہ پر چل کر سچ بول دے کہ اس کا قبلہ کس طرف ہے۔ منیر نے مخالفین کے دباؤ اور اپنے دل کی آواز کو تسلیم کیا اور علیحدگی کی رضا مندی دے دی۔
رات کے کھانے پر بیٹھے ہی تھے کہ منیر کے ایک بیٹے کا فون آ گیا۔ معلوم ہوا کہ چاروں جوان بیٹے اس کے ساتھ رابطے میں ضرور رہتے ہیں۔ اس سے ملتے نہیں اپنی ماں سے ملتے بھی ہیں اس کے پاس قیام بھی کرتے ہیں لیکن مذہبی طور پر نہ اِدھر ہیں نہ اُدھر۔ منیر کو سابقہ بیوی سے خاصی رقم ملی ہے اور وہ نقل مکانی کر کے مسجد بھی جاتا ہے۔ اسے تجرد کی زندگی گزارتے ستائیس سال ہو گئے ہیں۔ اپنی دوسری ملازمت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہو کر پنشن پر ہے۔ مجھے منیر کی زندگی عجیب اور انوکھی لگی کہ وہ شادی اور ملازمت ہر دو جگہ سے ریٹائرڈ ہے۔ اس نے دوسری شادی کیوں نہ کی اور اب وہ کبھی جرمنی میں اور کبھی لندن رہتا ہے۔
لندن قیام کے دوران مجھے بیسیوں دوست اور عزیز ملے لیکن منیر زماں کی زندگی الگ سی لگی۔ میری سوچ اور ذہن نے کہا کہ منیر ایک دکھی اور افسردہ شخص ہو گا لیکن میرے میزبان دوست نے بتایا کہ منیر بے حد مطمئن خوش باش اور محفل باز شخص ہے۔ مجھے زیادہ وقت نہ ملا نامعلوم منیر جیسی زندگی اور کتنے لوگ دیار غیر میں گزار رہے ہوں گے۔ منیر زماں سے ملنے کے بعد مجھے اپنا دیس اور بھی اچھا لگنے لگا ہے۔