داعش کی حقیقت
یونیورسٹی آف بغداد سے تعلیم حاصل کرنے والے ابوبکر البغدادی کو امریکیوں نے صدام دور سے ہی نگاہوں میں رکھا ہوا تھا ۔۔۔
QUETTA:
عراق اور شام میں خلافت کا اعلان کرنے والی تنظیم دولت اسلامیہ(داعش) نے عرب ممالک سے باہر بھی اپنی حمایت بڑھانے کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں۔ ''خلافت کو خراسان یعنی پاکستان، افغانستان، ایران اور وسط ایشیا کے ممالک تک پھیلایا جائے گا۔'' یہ بات پاکستان اور افغانستان میں داعش کی طرف سے ایک شایع کردہ کتابچہ میں کہی گئی ہے۔ جس میں عام لوگوں سے اسلامی خلافت کی حمایت کی درخواست کی گئی ہے۔ ''فتح'' کے نام سے پشتو اور دری زبانوں میں شایع شدہ 12 صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ پشاور شہر کے افغان پناہ گزین کیمپوں میں تقسیم کیا گیا اور افغان امور پر کام کرنے والے بعض صحافیوں کو بھی ارسال کیا گیا۔
پشاور میں افغان امور پر کام کرنے والے سینئر صحافی تحسین اللہ کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا کے کچھ علاقوں میں داعش کے حق میں وال چاکنگ اور بعض گاڑیوں میں پوسٹرز بھی دیکھے ہیں۔ یہ بھی میڈیا اطلاعات ہیں کہ جس میں ایران نے کہا ہے کہ داعش میں شمولیت کے لیے ایرانی سرحد سے عراق میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے متعدد پاکستانی اور افغان شہریوں کو گرفتار کرلیا گیا جن کی تعداد نہیں بتائی گئی۔ ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فاضلی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ تکفیری گروپ (داعش) کی جانب سے ایران میں فورسز کو بھرتی کیے جانے کے بارے میں رپورٹیں بالکل بے بنیاد ہیں، درحقیقت ایسے کیسز افغانستان اور پاکستان میں ہیں۔
اطلاعات یہ بھی ہیں کہ داعش میں برطانوی اور آسٹریلوی شہریوں کی بھی شمولیت ہے۔ اس تناظر میں یہ تشویش ناک صورتحال ہے جس پر بروقت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ دیگر یہ ناسور بھی جڑ پکڑ سکتا ہے۔ ادھر داعش سے علیحدگی اختیار کرنے والے اہم رہنما شیخ مہر ابو عبیدہ نے لبنانی اخبار ال سفیر کو دیے گئے ایک خفیہ انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ داعش کا اگلا ٹھکانہ سعودی عرب ہے، یہ گروپ (داعش) اپنے ابتدائی نصب العین سے انحراف کرچکا ہے۔
بظاہر دولت اسلامیہ کا ہدف ایک اسلامی خلافت کا قیام ہے جو گزشتہ کچھ عرصے میں شام اور عراق کے بڑے علاقوں کو اپنے زیرنگیں کرچکا ہے۔ لیکن اس کی انتہا پسندانہ کارروائیاں اور ظالمانہ ہتھکنڈے اسلامی تعلیمات کے برعکس ہیں جس سے صاف صاف نظر آرہا ہے کہ یہ گروہ اسلام کے نام پر اسلام کا دشمن ہے جس کی ڈور اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں ہے جن کا مقصد داعش کی آڑ میں مسلم ممالک کا شیرازہ بکھیرنا ہے۔
دولت اسلامیہ ہے کیا؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہفتہ 12 جولائی 2014 کو خودساختہ خلیفہ ابوبکر البغدادی نے عراق میں اپنی کابینہ تشکیل دی اور فضل عبداللہ المعروف ابومسلم الترکمانی کو اسلامی ریاست کا نائب امیر مقرر کیا۔ امریکی خفیہ ادارے سی آئی کے سابق اہلکار ایڈورڈ اسنوڈن نے انکشاف کیا ہے کہ دولت اسلامی شام و عراق کے سربراہ ابوبکر البغدادی امریکا اور اسرائیل کا ایجنٹ ہے اور اسے اسرائیل میں تربیت فراہم کی گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایڈورڈ اسنوڈن کا کہنا تھا کہ سی آئی اے اور برطانیہ کے انٹیلی جنس ادارے نے بدنام زمانہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ مل کر ایک دہشت گرد تنظیم بنائی جو دنیا بھر کے شدت پسندوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکے ۔ اس پالیسی کا مقصد تمام دنیا کے لیے بڑے خطرات کو ایک جگہ اکٹھا کرنا تھا تاکہ انھیں ایک جگہ سے کنٹرول کیا جاسکے اور عرب ممالک میں انتشار پھیلایا جاسکے۔ داعش سربراہ ابوبکر البغدادی کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ذریعے سے انتہائی سخت فوجی تربیت دلوائی گئی، فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ البغدادی کو بولنے میں مہارت کی تربیت بھی دی گئی تاکہ وہ دنیا بھر کے دہشت گردوں کو اپنے بیان سے متاثر کرسکے۔ اسنوڈن نے کہا کہ تینوں ممالک کے نزدیک صیہونی ریاست (اسرائیل) کی حفاظت کے لیے اسرائیل کی سرحدوں کے قریب ایک دہشت گرد تنظیم ضروری ہے۔
تھنک ٹینک، گلوبل ریسرچ کینیڈا نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ داعش کو امریکا نے اپنے مقاصد کے لیے کھڑا کیا ہے اور اس کے جنگجوؤں کو سب سے پہلے امریکا نے ہی اردن کے میدانوں میں گوریلا جنگ کی تربیت دلوائی تھی۔ داعش جنگجوؤں کو قبضے میں لیے گئے تیل کے کنوؤں اور ریفائنریز سے تیل کی فروخت کا موقع فراہم کیا گیا۔ گلوبل ریسرچ کا دعویٰ ہے کہ امریکا نے القاعدہ کے اندر تک رسائی حاصل کی ہوئی تھی اور اس کی انٹیلی جنس نے القاعدہ میں موجود انتہائی سخت گیر نظریات کے حامل افراد کو چن کر الگ کیا ہے، جن کو آج (داعش) کہا جاتا ہے۔
وائس آف رشیا نے بھی ایک رپورٹ میں داعش کو سی آئی اے کی پیداوار قرار دیا ہے اور سوال اٹھایا ہے کہ داعش کی کارروائیوں پر امریکی افواج ایکشن کیوں نہیں لے رہی اور 4000 سے زیادہ امریکی فوجی افسران عراق کیا کرنے گئے ہیں۔ اخبار نے الزام عائد کیا ہے کہ داعش کی مالی امداد میں امریکا اور اس کے عرب اتحادی شامل ہیں۔ گلوبل ریسرچ نے اپنے تجزیہ میں لکھا ہے کہ داعش کو شام میں استعمال کرنے کے لیے یوایس اسپیشل ٹرینرز نے اردن کی سرزمین پر خصوصی تربیت اور چھوٹا اسلحہ دیا تھا۔ ماہرین کے مطابق یہی گروہ خود امریکا اور برطانیہ کے لیے مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ کیونکہ جب اس گروہ کے پاؤں عراق میں مضبوط ہوجائیں گے تو اس کے سیکڑوں مسلح یورپی جہادی اپنے اپنے ممالک میں مسائل کھڑے کرسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ برطانوی حکومت نے خصوصی طور پر برطانیہ سے جو منی ٹرکس شام میں باغیوں کو بھیجے تھے وہ آج داعش کے جنگجوؤں کے استعمال میں ہیں۔ ایک خاص حکمت عملی کے تحت داعش جنگجوؤں کے ساتھ صدام دور کے کمانڈرز کو ملاکر موصل، تکریت، باقوبہ، فلوجہ، الانبار اور ملحق علاقوں پر قبضے کی راہ ہموار کی گئی تھی۔ جب کہ خصوصی احکامات کے ذریعے عراق کی سرکاری افواج کو پسپائی کی ہدایت کی گئی جس کے نتیجے میں داعش جنگجوؤں کو نہ صرف سرکاری فوج کے زیر استعمال انتہائی جدید امریکی اسلحہ، میزائل، راکٹس اور بکتر بند گاڑیاں ہاتھ لگیں بلکہ بھاری مالیت کی نقدی اور سونا بھی ان کے قبضے میں آگیا۔
آن لائن امریکی جریدے Living Like Country نے ایک تجزیہ میں انکشاف کیا ہے کہ عراق میں داعش کی جانب سے مقرر کیے جانے والے جنگجوؤں کے خلیفہ پر امریکی سی آئی اے کی خاص نظر کرم رہی ہے۔ اگرچہ 43 سالہ خودساختہ خلیفۃ المسلمین اپنے آپ کو ''ابوبکر البغدادی'' متعارف کراتے ہیں، لیکن ان کا اصل نام ''عواد ابراہیم علی البدری السماری'' ہے وہ سی آئی اے کی دعوت پر امریکا بھی جاچکے ہیں اور آج کل موصل میں مقیم ہیں۔
اکثر جمعہ کے خطبوں میں دکھائی دیتے ہیں، لیکن عراقی فضائی حدود میں ہر روز 100 پروازیں کرنے والے امریکی ڈرونز طیاروں نے ابوبکر البغدادی یا ان کے جنگجوؤں کے خلاف ایک بھی کارروائی نہیں کی۔ کیوں؟ امریکی تجزیہ نگار برنی زیبارٹ لکھتے ہیں کہ 2005 میں ابوبکر البغدادی کو یو ایس اسپیشل فورسز نے عراق سے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا اور وہ 2009 تک امریکیوں کی تحویل میں رہے۔ لیکن کئی امریکی فوجی کمانڈوز نے بتایا ہے کہ انھوں نے 2009 کے بعد ابوبکر البغدادی کو عراق کے بجائے نیویارک میں محفوظ مقام پر نقل و حرکت کرتے دیکھا تھا۔ جس کا مطلب تھا کہ بغدادی پر ''ہاتھ'' رکھ دیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف بغداد سے تعلیم حاصل کرنے والے ابوبکر البغدادی کو امریکیوں نے صدام دور سے ہی نگاہوں میں رکھا ہوا تھا۔ کیونکہ ان کی شعلہ بیانی لوگوں کے دلوں میں آگ بھڑکا دیتی ہے۔ امریکی صحافی برنی زیبارٹ لکھتے ہیں کہ ابوبکر البغدادی کی اصل طاقت ان کے القاعدہ سے نکلے ہوئے سخت گیر ساتھی اور ہزاروں کی تعداد میں غیرملکی پاسپورٹ رکھنے والے جنگجو ہیں۔
ایران کے قریب سمجھی جانے والی النہرین نیوز ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق داعش جنگجوؤں کو ماہانہ ایک ہزار ڈالر تنخواہ کی ادائیگی کی جا رہی ہے، جس کا بیشتر حصہ کویت اور قطر کے راستے آتا ہے۔ مقامی عراقی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پوری چین میں امریکا، قطر اور متمول عرب باشندے شامل ہیں۔ عرب تجزیہ نگار ڈاکٹر نفیس احمد کا کہنا ہے کہ امریکی سرپرستی میں داعش کی تشکیل کا کام 2005 میں شروع ہوا جب عراق نے فرقہ واریت کو پنپنے کا موقع دیا اور عراقی حکومت کے مقابل سنی گروپوں کو یہ کہہ کر مسلح کیا گیا کہ عراقی حکومت اقلیتی مسالک کے خلاف کام کر رہی ہے۔
اس کا مقصد عراق اور ملحق خطے میں ایسا ماحول قائم کرنا تھا کہ مسالک باہمی لڑائیوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور بالخصوص عراق کی سرحدوں کو تبدیل کرکے تیل کی سپلائی کو مستقل اور آسان بنایا جائے۔ اسی امریکی پلان کے مطابق آزاد کردستان ریاست کی راہ ہموار کی جاچکی ہے اور اسرائیل نے عندیہ دیا ہے کہ اگر آزاد کردستان کا اعلان کیا جاتا ہے تو اسرائیل اس کو فی الفور قبول کرلے گا۔ بات آئی سمجھ میں؟