آدمی حالات کو جنم دیتا ہے
افسوس کی بات یہ ہے کہ حکمران پیچید ہ اور گھمبیر صورتحال کا ادارک کیے بغیر انتشار کو اور بڑھا رہے ہیں ...
ڈزرائیلی نے کہا ہے حالات آدمی کو جنم نہیں دیتے آدمی حالات کو جنم دیتا ہے۔ لوئی کی تخت نشینی کے وقت فرانس میں ذہنی انقلاب رونما ہو چکا تھا فرانس کے فلسفی اور ادیب اپنا کام کر چکے تھے لوئی کے لیے انقلاب کو روک دینا ناممکن تھا۔ فرانس کا شاہی خزانہ خالی ہو چکا تھا عوام عاجز آ چکے تھے بادشاہ کی طرف سے سر کاری عہد ے فروخت ہوتے تھے۔
فرانس کی ساری آبادی 3 طبقوں میں تقسیم ہو چکی تھی اہل کلیسا، امرا اور عوام۔ اہل کلیسا اور امرا بڑے مزے میں تھے لیکن عوام انتہائی درجہ افلاس اور مصیبت میں زندگی کا ٹ رہے تھے تباہ حال، پریشان غریب تمام ٹیکسوں کا بار اٹھائے ہوئے تھے حکومت ان ٹیکسوں کی وصولی کا ٹھیکہ نیلام کرتی تھی لہذا ٹھیکیدار ٹیکس وصول کرتے وقت کون سا ظلم روا نہ رکھتے تھے ایک ٹیکس وصول کرنے والا فرانس کے کسی گاؤں میں پہنچ گیا۔ ٹیکس دو اس نے غریب کسانوں سے کہا، حضور کھانے کے لیے کچھ نہیں ٹیکس کہاں سے دیں۔
ایک کسان نے جواب دیا۔ کپڑے اتار لو محصل نے اپنے ملازموں سے کہا اس کے کپڑے اتار لو اور اس غریب کو سردی سے مر جانے کے لیے زندہ چھوڑ دیا۔ ٹیکس وصول کرنے والے ایک بڑھیا کے گھر پہنچ کر اس سے ٹیکس دینے کا مطالبہ کرنے لگے بڑھیا نے اس سے کہا میرے پاس کوئی پیسہ نہیں ہے مجھ پر رحم کرو۔ اس بڑھیا کے برتن قرق کر لو ٹیکس وصول کر نے والے نے حکم دیا۔ بڑھیا ان الفاظ کو سنتے ہی اپنے برتنوں سے چمٹ گئی لیکن محافظ کے حکم سے اس بڑھیا کے ہاتھ کاٹ دیے گئے۔ جب ایک فرانسیسی آفیسر سے کہا گیا کہ لوگوں کے پاس اتنا پیسہ بھی نہیں ہے کہ وہ باسی روٹی تک خرید سکیں۔ وہ گھا س پر زندہ رہیں اس نے جواب دیا، انقلاب فرانس کے ابتدائی دنوں میں اسی آفیسر کے منہ میں گھاس ٹھونس کر اسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
17 جولائی 1789ء کو بادشاہ لوئی ورسائی سے پیرس روانہ ہوا ہجوم نے بادشاہ کا استقبال کیا لیکن عوام زندہ باد کے نعروں میں ایک مرتبہ بھی بادشاہ زندہ با د کا نعر ہ بلند نہ ہوا۔ پیرس میونسپلٹی کی عمارت پر بادشاہ کا جلوس ختم ہو گیا۔ میونسپل ہال میں چند تقریریں ہوئیں بادشاہ واپس ہوا بادشاہ رات کے 9 بجے ورسائی پہنچا لیکن اس وقت تک متعدد شہزادے اور درباری بھاگ گئے تھے پیرس سارے فرانس کی رہنمائی کر رہا تھا۔ فرانس کے طو ل و عرض میں انقلاب آ چکا تھا پہلے انقلاب پسندوں کی تعداد چالیس ہزار تھی پھر بڑھ کر ایک لاکھ ہوئی پھر دو لاکھ پھر دس لاکھ پھر بیس لاکھ پھر سارا فرانس انقلابی بن گیا۔ فرانس مسلح ہو رہا تھا اور مجلس قومی اپنے گھٹنوں پر سر رکھے ہوئے فرانس کے مستقبل پر غور کر رہی تھی۔
4 اگست 1789ء تک اعلان حقوق پر غور ہوتا رہا پھر آخر اعلان حقوق کا اعلان کیا گیا کہ تم آزاد اور برابر برابر ہو تمہارا اتحاد مشترکہ مفاد کے لیے ہے اے بادشاہ اپنے تخت سے نیچے اتر آ۔ آیندہ تیرا منصب اور انتخاب کا حق قوم کو ہو گا اے کسانوں بیدار رہو اور اپنی آنکھوں سے دوسرے انسانوں کو دیکھو وہ تجھ سے افضل نہیں ہیں تمہاری پیشانی پر نقش حکمرانی موجود ہے، تم بھی قوم کا ایک فرد ہو اور حاکمیت کی ڈور قوم کے ہاتھ ہے تمام لوگ آزاد اور مساوی پیدا ہوئے ہیں، حاکمیت کے تمام تر اختیارات قوم کو ہیں دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر جو چاہے کرنا آزادی ہے قانون رضائے عامہ کا نام ہے۔ شہریوں کو اپنے نمایندوں کے ذریعے قانون بنانے کا حق ہے کسی شہر ی کو بلاوجہ گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ تحریر و تقریر کی آزادی انسان کے بہت بڑے حقوق ہیں انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے ایک قومی فوج کا ہونا ضروری ہے کسی شخص کو اس کے ذاتی عقائد کی بناء پر تکلیف نہیں دی جائے گی۔
سماج کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہر سرکاری عہدیدار کے کام کا محاسبہ کر سکے ذاتی ملکیت کے حق سے کسی شخص کو محروم نہیں کیا جائے گا فرانس کے اس اعلان حقوق نے صدیوں سے جاری سماجی امتیازات کا خاتمہ کر دیا مجلس قومی کے اس اعلان کا مقصد جمہوریت کو آئینی شکل دینا تھا آج صدیوں کی جدو جہد اور قربانیوں کے بعد فرانس ایک جمہوری ترقی یافتہ، خوشحال ملک ہے اور اس کے عوام ملک کے حاکم ہیں۔
ادھر دوسری جانب پاکستان کے عوام مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کا شکار ہیں اور عوام کے یہ حالات گزشتہ 67 سالوں کی بدنظمی، لوٹ مار، افراتفر ی کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں اب اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ملک کے عوام کو ان حالات سے باہر نکالا جائے لیکن حالات میں فوری تبدیلی ممکن نہیں ہوتی ہے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قوموں کی زندگی میں سخت دور آتے ہیں اور ایسا ہی سخت دور پاکستانی قوم پر آیا ہوا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ حکمران پاکستان میں موجودہ اس قدر پیچید ہ اور گھمبیر صورتحال کا ادارک کیے بغیر انتشار کو اور بڑھا رہے ہیں۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ افغانستان میں ایک ایسی جنگ جاری ہے جس کے براہ راست اثرات پاکستان پر مرتب ہو رہے ہیں اور یہ اثرات صرف اس وجہ سے پاکستان پر مرتب ہو رہے ہیں کہ پاکستان میں گزشتہ67 سالوں میں طویل عرصے تک دائیں بازو کی انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا جس کے نتیجے میں اب یہ انتہا پسند تنظیمیں پھل پھول کر تناور درخت بن چکی ہیں، عوام میں وسیع پیمانے پر پذیرائی نہ ہونے کے باوجود عوام کے ایک چھوٹے حصے کی ان تنظیموں کو حمایت حاصل ہے۔
ان تنظیموں کے پاس نظریاتی کارکنوں کی فو ج موجود ہے ان کے اپنے مسلح گر وہ ہیں ا ن تنظیموں کا نیٹ ورک پورے پاکستان میں پھیلا ہوا ہے۔ ایک طرف افغانستان اور پاکستان کی یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف پاکستان کی معیشت ہے جس کی بنیادیں ابھی تک مضبوط نہیں ہو سکی ہیں اس کے لیے امن و امان کا ہونا انتہائی لازمی ہے اور ملک میں امن و امان صرف اسی صورت میں ہو گا جب پاکستان کے سیاسی کرتا دھرتا ایک وسیع ہم آہنگی اور مفاہمت آپس میں پیدا کریں گے۔
موجودہ حالات میں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ایک اہم پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ بھی پاکستان کے معاملات اس حد تک بہتر نہیں ہو سکے جس کے لیے کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور جس کی ضرورت بھی تھی یہ وہ سنگین حالات ہیں جس سے پاکستان گزر رہا ہے ایسے حالات میں تمام سیاسی کارکنوں کو اپنے رویے میں لچک پیدا کر نے کی ضرورت ہے اور اپنے اختلا فات پس پشت ڈال کر ہم آہنگی کی فضا بنانے کی ضرورت ہے تا کہ ملک کو درپیش چیلنجوں کا مل کر مقابلہ کیا جا سکے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم پاکستان کو کسی بھی صورت میں ملائیت کی طرف لے جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
پاکستان کو قائد اعظم کے تصورات کا ہی پاکستان بنانا ہو گا قائد اعظم نے کبھی بھی ملائیت کی حمایت نہیں کی وہ لوگ جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ملائیت کے ذریعے پاکستان میں موجود ہ بحران ختم ہو سکتے ہیں تو انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملک میں ملائیت کے آتے ہی بے انتہا مسائل بڑھ جائیں گے اور ہمیں بین الاقوامی طور پر نہ صرف تنہا کر دیا جائے گا بلکہ ہم پر حملے کی کوششیں شروع ہو جائیں گی خود پاکستان کے عوام بھی کسی بھی صورت میں ملائیت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اب یہ سوچنا ہم سب کا فرض ہے کہ ہمیں پاکستان کو کس رخ کی طرف لے جانا ہے طالبان کا پاکستان یا فرانس جیسا پاکستان۔
فیصلہ ہم سب نے کرنا ہے ۔