بلاول بھٹو زرداری کا دورہ پنجاب
بلاول بھٹو کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں دہشت گرد عناصر نے خودکش حملوں، بم دھماکوں ...
گزشتہ ہفتے بلاول ہاؤس کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے ظہرانے پر مدعو کیے گئے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2013ء کے عام انتخابات کا اصل الیکشن کمشنر حکیم اللہ محسود تھا جس نے خودکش حملے اور دہشت گردی کی کارروائیاں کر کے روشن خیال جمہوری قوتوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا لیکن ہم نے جمہوریت اور سسٹم بچانے کے لیے انتخابات میں حصہ لیا اور نتائج کو تسلیم بھی کیا۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ پنجاب میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہے سندھ میں بھی سیلاب کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ ادھر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب بھی جاری ہے ایسے حالات میں دھرنوں کی بجائے عوام کے دکھوں کا مداوا اور ان کے مسائل حل کیے جائیں انھوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں لاکھوں آئی ڈی پیز پریشانی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں ان کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس موقعے پر صحافیوں کے سامنے بلاول بھٹو نے اپنی والدہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی نشست پر آیندہ انتخابات لڑنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ گویا یہ کہنا اب درست معلوم ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی سیاست میں حصہ لینے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے اور پہلے مرحلے میں وہ پنجاب کا دورہ کر رہے ہیں۔
اگرچہ ان کے دورہ پنجاب کا مقصد سیلاب متاثرین سے اظہار ہمدردی اور ان کی دلجوئی کرنا ہے۔ تاہم ایک ایسے موقعے پر جب پورے پنجاب میں سیلابی ریلوں نے تباہی مچا رکھی ہے بلاول بھٹو کا پنجاب آنا اور بلا کسی جھجک کے اپنی گاڑی سے اتر کر سیلابی پانیوں و کیچڑ سے گزرتے ہوئے متاثرین تک پہنچنا اور ان سے گھل مل کر اظہار ہمدردی کرنا پھر جواب میں سیلاب متاثرین کا بلاول بھٹو کو پیار کرنا بزرگ خواتین کا ان کی بلائیں لینا اور دعائیں دینا اس امر کا عکاس ہے کہ بلاول اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی ان روایات کو زندہ کر رہے ہیں جو انھوں نے عوامی خدمت کے حقیقی جذبے کے تحت غریبوں، مزدوروں، کسانوں، ہاریوں، طالب علموں اور بے بس و مجبور لوگوں سے قربتوں کا رشتہ جوڑ کر قائم کی تھیں جس کی حدت آج بھی ملک کے کروڑوں غریب و مفلوک الحال لوگوں کے دلوں میں موجود ہے۔
عوام سے پرخلوص تعلق ہی شہید بھٹو کا سیاسی فلسفہ تھا جسے انھوں نے طاقت کا سرچشمہ قرار دیا اور یہی نظریہ سیاست بھٹو اور بے نظیر کی میراث اور پیپلز پارٹی کا اثاثہ ہے جسے محفوظ رکھنا اور آیندہ نسلوں تک اسی جذبہ شوق کے ساتھ منتقل کرنا اب بلاول بھٹو زرداری کی اہم ذمے داری اور قومی سیاست میں آگے بڑھنے اور کامیابی کے حصول کی کنجی ہے۔ ملک کے کروڑوں غریبوں کو امید ہے کہ ان کے شہید بابا اور شہید رانی کا بیٹا بلاول بھٹو ان کے دکھوں کا مداوا کرے گا اور ان کا مسیحا ثابت ہو گا۔
بلاول بھٹو کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں دہشت گرد عناصر نے خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کے ذریعے خوف و ہراس کا ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ لبرل سیاسی قوتیں انتخابی مہم چلانے سے قاصر رہیں نتیجتاً انھیں انتخابی معرکے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کی سب سے بڑی مثال ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت پیپلز پارٹی ہے جسے پنجاب میں انتخابی مہم چلانے کے لیے سازگار و پرامن ماحول میسر نہیں تھا۔ پارٹی قیادت نے عوام کے جان و مال کے تحفظ کو مقدم رکھا نتیجتاً اسے پنجاب میں منظم طریقے سے کامیابی حاصل کرنے سے روکا گیا۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق پی پی پی جیسی مقبول سیاسی جماعت کی شکست کی بڑی وجہ عسکریت پسندوں کی جانب سے پی پی پی کے اہم رہنماؤں کو نشانہ بنانے اور انتخابی مہم سبوتاژ کرنے کی مبینہ دھمکیاں تھیں۔
جس کے باعث پی پی پی کے رہنماؤں و کارکنوں کو پورے ملک بالخصوص پنجاب میں انتخابی مہم چلانے سے گریز کی پالیسی اختیار کرنا پڑی۔ شکست کی دوسری وجہ انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلیاں تھیں۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت سمجھا جاتا ہے تاریخ گواہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری تک پی پی پی کو اسٹیبلشمنٹ مخالف قرار دیا جاتا رہا ہے اور اسے عوام اور اقتدار سے دور رکھنے کے لیے غیر مرئی قوتیں اپنی خفیہ حکمت عملیوں کے تحت پی پی پی کے مضبوط انتخابی حلقوں میں ''منفی سرگرمیوں'' کے ذریعے اس کے ووٹ بینک کو کمزور کرنے کی منصوبہ بندی کرتی رہی ہیں اور بڑے انجینئرڈ طریقے سے پارٹی کی یقینی فتح کو بھی شکست میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
2013ء کے عام انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی کو اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ بالخصوص پنجاب میں جہاں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان اصل مقابلہ تھا۔ وہاں مسلم لیگ (ن) نے حیران کن اور غیر متوقع طور پر باقی دونوں جماعتوں پر بھاری سبقت حاصل کر کے ملک بھر کے مبصرین و تجزیہ نگاروں کو 2013ء کے انتخابات کی شفافیت و غیر جانبداری پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا۔
پی پی پی اور پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتیں مبینہ دھاندلی پر ہم آواز ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے سیاسی بصیرت، تدبر اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک میں جمہوری عمل کے تسلسل کو یقینی بنانے کی خاطر شکست کا کڑوا گھونٹ صبر و تحمل سے پی کر انتخابی نتائج کو قبول کر لیا تاہم پی پی پی کی اعلیٰ قیادت میں اس غیر متوقع شکست کے اسباب و عوامل کا تجزیہ کیا جاتا رہا ہے بالخصوص پنجاب میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے پی پی پی کے ووٹ بینک کو دوبارہ منظم و متحد کرنے کے حوالے سے اجلاسوں میں حکمت عملی بھی ترتیب دی جا رہی ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگار بلاول بھٹو کے حالیہ دورہ پنجاب کو اسی پس منظر میں دیکھتے ہوئے نہایت اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کے لیے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا، ناراض و دل برداشتہ مخلص کارکنوں و ہمدردوں اور عوام کو پھر سے پارٹی کی طرف راغب، متحرک، منظم، فعال اور پرجوش کرنا اور بی بی شہید اور ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی فکر و فلسفے کی روشنی میں پارٹی کو پنجاب کی پیچیدہ سیاست میں ایک ایسا باوقار اور قابل فخر مقام دلانا جو شہید قائدین کے دور میں پارٹی کو وہاں حاصل رہا۔ ایک کڑا امتحان اور مشکل ترین چیلنج ہے۔ تاہم ملک کے سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں اس امید کا اظہار کیا جانا حوصلہ افزا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا اور والدہ کی طرح پیپلزپارٹی کو پنجاب میں ایک باعزت مقام دلانے، عوام کی سطح پر مقبول بنانے اور آیندہ انتخابات میں ''فاتح پنجاب'' بنانے میں یقینا کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ وہ نوجوان و پرجوش ہیں۔
قومی سیاست کی باریکیوں اور نزاکتوں کو سمجھتے ہیں، پارٹی رہنماؤں، کارکنوں اور عوام سے رابطے و تعلق کی اہمیت و افادیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ پنجاب کی سیاست کے متحرک ''کرداروں'' کا انھیں پورا علم ہے۔ جمہوریت کی بقا و تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے قومی سیاسی تاریخ میں پیپلزپارٹی کی طویل جدوجہد اور قربانیوں کا انھیں مکمل ادراک ہے اور سب سے بڑھ کر انھیں اپنے والد آصف علی زرداری جیسے زیرک، معاملہ فہم، دور اندیش اور ملکی سیاست کے اسرار و رموز کو سمجھنے والے تجربہ کار سیاستدان کی سرپرستی و رہنمائی حاصل ہے۔ اس پس منظر میں یہ توقع کرنا غلط نہ ہو گا کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے شہید قائدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جرأت و بہادری کے ساتھ قومی سیاست میں ایک بڑے لیڈر کی حیثیت سے ابھریں گے اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنے نانا اور والدہ کے وژن کے مطابق اخلاص نیت کے ساتھ گراں قدر خدمات انجام دیں گے اور عالمی برادری میں پاکستان کو ایک باوقار مقام دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔