غارت گرتہذیب کے ہاتھوں میں وطن ہے
ہر سو مرے گھر آہ و بکا، رنج و محن ہے
یاں نفس پرستوں کی ہوس کا ہے یہ عالم
رستے میں پڑی نعش بھی بے گوروکفن ہے
ہر راہ درندوں سے ہے پامال وطن میں
آسیب زدہ یوں ہی پڑا دارورسن ہے
ہم آج تمدن سے نظر کیسے ملائیں
بے آبرو تہذیب کا عریاں جو بدن ہے
کم ظرف کی ہوتی ہے نظر تختِ شہی پر
یہ دیکھ کے شرمندہ بہت کوہ و دمن ہے
اک سمت لہو رنگ ہوا زیست کا مقتل
اک سمت سخن ور ہیں، بہ ایں رنگ سخن ہے
خوشیوں کی بہار آئے، مقدر میں نہیں ہے
گیتی پہ ابھی نوحہ کناں برگِ سمن ہے
کج فہمی حالات کو کہتے ہیں ہنر یہ
اندھیر ہے خورشید کہیں، جس کو کرن ہے
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے غزل لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔