ایک چیف سیکریٹری کی طلبی
آج کل کوئی مجسٹریٹ کسی چیف سیکریٹری کو سمن بھیج کر طلب کر کے اور پھر اپنا حشر ہوتا دیکھے۔
KARACHI:
عدالت کے ریڈر نے سٹی مجسٹریٹ گجرات کے سامنے آئندہ پیشی پر حاضری کے لیے گواہوں اور ملزموں کے سمن اور وارنٹوں کا پلندہ رکھا تو افسر مجاز نے ان پر بنی مخصوص جگہ پر بغیر پرنٹڈ تحریر اور مطلوب شخص کا نام پڑھے دستخط کرنے شروع کر دیے۔
یہ روزانہ کا معمول تھا اس لیے پڑھنے کی ضرورت بھی نہ ہوتی تھی۔ تیسرے دن ڈپٹی کمشنر کیپٹن (ر) نصیر احمد نے سٹی مجسٹریٹ کو اپنے کمرے میں بلا کر ایک گواہ صفائی کو طلب کرنے والا سمن جو اسی مجسٹریٹ کا دستخط شدہ تھا اس کے سامنے رکھا جس کے مطابق گواہ کا نام افضل آغا چیف سیکریٹری مغربی پاکستان تھا اور انھیں قتل کے ملزم میاں اکبر ایم پی اے کی گواہان صفائی کی پیش کردہ فہرست کے مطابق طلب کیا گیا تھا۔ بات ہو رہی تھی میری ڈپٹی کمشنر کے روبرو پیش ہونے کی جس پر میرا جواب تھا کہ چیف سیکریٹری میرے سینئر افسر ضرور ہیں لیکن اگر ملزم میاں اکبر MPA انھیں بطور گواہ صفائی طلب کرتا ہے تو مجھے تو انھیں قانون شہادت کے تحت طلب کرنا ہی ہو گا۔ افضل آغا ایک شریف النفس افسر تھے لہٰذا بات یہیں ختم ہو گئی۔
آج کل کوئی مجسٹریٹ کسی چیف سیکریٹری کو سمن بھیج کر طلب کر کے اور پھر اپنا حشر ہوتا دیکھے۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب ایک سینئر پوزیشن پر ہونے کے باوجود میں نے صاحب اختیار کو ان کی خلاف منشا گزٹ نوٹیفکیشن دکھاتے ہوئے عرض کی تھی کہ لبرٹی مارکیٹ والا فلاں کمرشل پلاٹ جو پندرہ بیس کروڑ روپے کا ہو گا اسے خلاف پالیسی کسی کو الاٹ کر دینا جناب کے اختیار میں بھی نہیں تو انھوں نے اس فائل کو اس زور سے تھپڑ رسید کیا تھا کہ وہ چھوٹی سی فائل دس فٹ دور جا کر گری تھی لیکن مذکورہ پلاٹ ابھی تک LDA ہی کی ملکیت ہے اگرچہ کئی سو افراد آج بھی اس پلاٹ کو للچائی نظروں سے دیکھ کر اس کے پاس سے گزرتے اور خواہش کرتے ہوں گے کہ کاش یہ میرا ہو جائے۔
افضل آغا 1969-70ء میں مغربی پاکستان کے چیف سیکریٹری تھے۔ نہایت شریف النفس انسان اور قابل افسر تھے۔ ان کو جو پرنٹڈ سمن میرے دستخطوں سے جاری ہوا اس کی آخری قانونی سطریں تھیں کہ ''اگر آپ اس سمن کی تعمیل سے گریز کریں گے تو آپ کی حاضری یقینی بنانے کے لیے وارنٹ گرفتاری جاری ہوں گے'' جب میں نے کہا کہ مجھے آخری سطور احتراماً کاٹ دینی چاہیے تھی تو ڈپٹی کمشنر نے جواب دیا کہ تم اب بے فکر ہو جاؤ میں چیف سیکریٹری صاحب سے بات کر لوں گا۔ یہاں مجھے یاد آتا ہے کہ چیف سیکریٹری مغربی پاکستان کتنے اعلیٰ مرتبہ تعلیم اور تربیت کا حامل افسر تھا اور ''سچ بولنے اور قانون کی کتاب پیش کرنے پر جب ناجائز کاری روکنے کے لیے ایک سرکاری ملازم نے فرض کی ادائیگی کی کوشش کی تو اس کی ستائش کس طرح ہوئی۔ جب میں نے دونوں واقعات ایک دوست کو سنائے تو اس نے کہا اب کوئی عجب نہیں عمران کے دھرنے کے بعد ایک ناجائز کام کی حکم عدولی پر افسر اعلیٰ ماتحت اور کو تھپڑ مار دے اور دو عدد کھا بھی لے۔
میاں اکبر کی طرف سے دوران Commitment Proceeding میرے روبرو دو نامی گرامی وکلاء ڈاکٹر تصدق حسین خالد اور خواجہ محمد صفدر پیش ہوئے تھے۔ میاں اکبر نے Plea of alibi کا سہارا لینے کے لیے ہی چیف سیکریٹری کا نام دیا تھا لیکن وہ جان گئے تھے اس لیے پیش ہونے سے گریز کیا۔ اس مقدمے میں محمد حسین کا الیکشن کے دنوں میں قتل ہوا تھا اور محمد اکبر برق رفتاری سے بذریعہ کار چیف سکیرٹری آفس پہنچ گئے تھے۔
اس مشہور مقدمہ کی سماعت کے دن دونوں فریقوں کے سیکڑوں افراد کچہری پر دھاوا بول دیتے تھے۔ بیسیوں گواہان استغاثہ اور دوسرے فریق کے سپورٹر پورا وقت کچہری میں موجود رہتے۔ مقدمہ چلتا رہا اور میرا تبادلہ راولپنڈی کی اسپیشل ملٹری کورٹ نمبر1 میں ہو گیا۔ یہ عدالت بھی کئی شہروں میں منتقل ہوتی اور قتل کے مقدمات سنتی رہی جن میں ایک مشہور کیس بس اور کار کی ٹکر دکھا کر کار میں بیٹھے شکار اعجاز نامی کا قتل تھا۔ اس میں بھی مشہور وکیل الطاف حسین وکیل صفائی تھے جو بعد میں گورنر پنجاب کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ اس کیس میں ملزموں کی سازش آشکار اور انھیں سزا ہوئی۔
مجھے نہیں معلوم کہ عمران خاں اور قادری کے حکومت مخالف دھرنوں کا انجام کیا ہو گا بہتر ہے اگر کسی ایگریمنٹ کے تحت اب سوا ماہ جو ہو چکا یہ اختتام کو پہنچیں لیکن ماڈل ٹاؤن میں مولانا قادری کے قطعی ناجائز بیریئرز ہٹانے کے عمل سے آگے منہ اور چھاتی پر فائرنگ سے نہتوں کے قتل عام کا کیا جواز تھا۔ اس کا حکم کس نے دیا سیدھی فائرنگ کس کس نے کی کس کے فائر سے کس کی موت ہوئی، کس کی فائرنگ سے کون کون کتنا مضروب ہوا۔ یہ واقعہ بہت سوں کے لیے باعث مصائب ہو گا۔
پتھر یا ڈنڈا استعمال کرنے والے پر کوئی پرائیویٹ شخص یا سرکاری ملازم سیلف ڈیفنس میں فائر نہیں کھول سکتا۔ سیلف ڈیفنس کا اصول برابر کی جوابی طاقت ہے۔ اس سانحہ پر ابھی متعلقہ اہلکاروں اور حکومت کی جوابدہی باقی ہے۔ یہاں سیلف ڈیفنس یا خطرے کی شدت کے ایشو پر بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
اب ذکر ہو جائے اس مقدمہ قتل کا جس کا اہم گواہ استغاثہ مدثر اور ملزم میاں اکبر ایم پی اے تھا۔ کیس سیشن سپرد ہوا تو مرا تبادلہ گجرات سے راولپنڈی ہو چکا تھا۔ سننے میں آیا کہ میاں اکبر بری ہو گئے۔ پھر سنا کہ مدثر مدعی نے میاں اکبر کو قتل کر دیا ہے۔ مدثر کو پھانسی کی سزا ہوگئی جو اپیلوں میں بھی بحال رہی پھر میں نے مکافات عمل کو بچشم خود بقائمیٔ ہوش و حواس دیکھا۔ گجرات جیل میں مدثر کی آخری خواہش قلمبند ہونی اور پھانسی کی سزا پر عمل درآمد ہونا تھا۔ ایک دن مجھے حکمنامہ ملا کہ یہ ڈیوٹی تمہیں انجام دینی ہے۔ میں نے سپرنٹنڈنٹ جیل گجرات کے دفتر پہنچ کر مدثر کو وہاں طلب کیا۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ وہ زبردستی میرے گلے لگ گیا اور کہا ''مجھے بستر مرگ پر پڑی میری ماں سے ملا دو میری اور کوئی خواہش نہیں انصاف ہو گیا ہے۔ میاں اکبر نے Plea of Alibi میں چیف سیکریٹری افضل آغا کو بھی اپنا گواہ بنانا چاہا۔ عدالت نے تو اسے بری کر دیا لیکن میں نے اسے معاف نہیں کیا۔ اب میری ماں کو بلا دو۔'' میں نے کاغذی کارروائی مکمل کی اسپتال سے مدثر کی ماں کو ایمبولینس پر منگوا کر اس سے ملوایا۔ میں نے اس کیس کا نوٹس جناب افضل آغا کی بطور گواہ صفائی طلبی پر ڈی سی کے روبرو اپنی جواب طلبی کے دن لیا تھا لیکن کیا معلوم تھا کہ کہانی کا آخری سین لکھنا اور دیکھنا بھی میرے حصے میں آئے گا۔