کون کہتا ہے کہ اثر نہیں ہوتا…
ندا لکھتی ہیں… آپ کا حالیہ کالم میرے ذہن کی ساری کھڑکیاں کھول گیا، مجھے لگا کہ میں گہری نیند سے جاگی ہوں
سب سے پہلے تو میں علی حسن کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ انھوں نے ای میل کے ذریعے میرے کالموں کی تعریف کرتے ہوئے مجھے '' مفت '' مشورہ دیا ہے کہ میں سیاست پر نہ لکھا کروں، عام آدمی کی زندگی کے مسائل پر لکھے گئے میرے کالم انھیں پسند آتے ہیں... بہت شکریہ بیٹا! مجھے خود بھی ان ھی مسائل کو اجاگر کرنا اچھا لگتا ہے جو ہم سب کی زندگیوں کو ایک ہی انداز سے متاثر کرتے ہیں، ان پر ہم اس لیے بھی اچھا لکھ لیتے ہیں کیونکہ یہ فقط آپ کے نہیں بلکہ ہمارے مسائل بھی ہیں۔
کوئی کہتا ہے کہ کالم کی عمر ایک دن ہوتی ہے، ادھر آپ نے اخبار پڑھ کر ایک طرف رکھا، ادھر اس کالم کی موت واقع ہو جاتی ہے... مجھے اس سے اختلاف ہے، قلم کی طاقت سے کسے انکار ہے، آج کل آپ لوگ سوشل میڈیا کو طاقت ور کہتے ہیں، مگر اس کی بنیاد بھی خیالات ہی ہیں جو کہ ہم قلم کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے ہیں، کیسی خوشی کی بات ہوتی ہے جب کوئی یہ کہے کہ آپ کی تحریر نے میری سوچ کا انداز بدل دیا ہے۔
دو ایک سال پہلے میں نے '' پیارے صبیح '' کے نام سے ایک کالم لکھا تھا، اس کالم نے اس بچے کی زندگی کا رخ بدل دیا تھا،اس سے پہلے وہ ہر ہفتے اپنے باپ سے ملنے کے لیے عدالت میں جاتا تھا مگر اس کے بعد ایسا نہیں ہوا...حال میں میرے لکھے گئے کالم... '' یہ کس جرم کی سزا بھگتتے ہیں '' نہ صرف عام پڑھنے والوں کے لیے متاثر کن رہا ، اس پر مجھے چند آراء وصول ہوئیں جو آپ لوگوں کی توجہ کے لیے حاضر ہیں ...
... ایک ای میل ہے، بھیجنے والی کا نام نہیں لکھوں گی، '' میڈم کبھی کبھار تو مجھے شک ہوتا ہے کہ آپ ایک عورت بھی ہیں یا ایک مرد عورت کے نام سے لکھتا ہے، ایک عورت ہو کر بھی آپ مردوں کے حق میں بولتی اور عورتوں کو قصور وار ٹھہراتی ہیں ، آپ کی کہانیوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور اب آپ نے کالموں میں بھی یہی شروع کر دیا ہے!'' ہنسی نہیں آئی پیاری، واقعی میں سوچ میں پڑ گئی کہ آپ کو اس ای میل کا کیا جواب دوں، سوچا کہ ایک آپ ہیں کہ جنھوں نے لکھ دیا مگر جانے اور کتنے لوگ ایسا سوچتے ہوں گے ، میرے کالم کے ساتھ چھپنے والی میری تصویر تو اس بات کا واضع ثبوت تھی، جو لوگ ذاتی طور پر مجھے جانتے ہیں ، مگر آپ کے لیے جواب حاضر ہے پیاری جو کہ سوالات پر ہی مشتمل ہے...
...ہم آئینہ کیوں دیکھتے ہیں؟
...تحریر کے ساتھ تنقید کیوں لازم ہے؟( اسے سنوارنے کے لیے، زندگی کے باقی معاملات کے لیے بھی تنقید اتنی ہی اہم ہے، مثبت تنقید... تنقید نہ ہو تو ہم میں سے ہر کوئی خود کو عقل کل سمجھنا شروع کر دے)۔
... اگر نسلوں کی فلاح اور معاشرے کے سدھار کا سہرا عورتوں کے سر بندھ سکتا ہے تو بگاڑ میں ذمے داری ٹھہرائے جانے پر ناراضی کیوں ؟
ایک اور صاحب کی ای میل میں ناراضی سے پوچھا گیا ہے کہ مجھے مردوں سے کیا دشمنی ہے کہ میں انھیں اپنی تحریروں سے بدترین ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہوں ... یا اللہ! کس کی سنیں اور کس پر یقین کریں ؟؟
ندا لکھتی ہیں... آپ کا حالیہ کالم میرے ذہن کی ساری کھڑکیاں کھول گیا، مجھے لگا کہ میں گہری نیند سے جاگی ہوں، جو کام میری ماں کو کرنا چاہیے تھا وہ آپ نے کر دیا ہے، مجھے جھنجھوڑ کر جگا دیا ہے، میں سمجھتی تھی کہ میں کون سا ماں باپ پر بوجھ ہوں کہ واپس اس جہنم میں چلی جاؤں جہاں میں اپنی تمام صلاحیتوں کے با وصف منہ پر تھپڑ کھا کر سوتی ہوں اور صبح لات مار کر جگائی جاتی ہوں، سو اپنے دونوں بچوں سمیت میکے آ گئی جہاں میرا والہانہ استقبال ہوا اور میں سکون سے جی رہی ہوں ( بظاہر) ۔ اماں کہتی ہیں کہ جب وہ آ کر اپنی ناک سے زمین پر لکیریں کھینچے گا تب تمہیں واپس بھیجوں گی!! انھیں اس دن کا انتظار ہے اور مجھے معلوم ہے کہ میرے مرنے کے بعد بھی وہ دن نہیں آنے والا، اگر مجھے اس سے محبت نہ ہوتی تو میں پہلے دن ہی طلاق کا مطالبہ کر دیتی مگر میں نے بہت عرصہ سوچ بچار کی اور ان کی طرف سے کوئی بھی رد عمل نہ دیکھ کر طلاق کا مطالبہ کر دیا، جس روز انھیں عدالتی نوٹس ملا اسی روز انھوں نے رابطہ کیا، اس سے ایک دن پہلے آپ کا کالم شائع ہوا تھا، انھوں نے کہا کہ انھیں معلوم نہ تھا کہ بات اتنی بڑھ جائے گی، وہ انتظار کر رہے تھے کہ میں چند دن وہاں گزار لوں ، ٹھنڈے دل سے سوچ لوں اور خود فیصلہ کروں مگر وہ ہر گز نہیں چاہتے کہ نوبت طلاق تک پہنچے!
اماں کا تو یہی کہنا ہے کہ کافی ہو گیا ، اب وہ مجھے واپس نہیں بھیجیں گی مگر میں نے اس عرصے میں سوچا کہ ہمارے درمیان کیا غلط ہوا، چند سال ہماری منگنی رہی، ہم ایک دوسرے سے ہر بات شیئر کر لیتے تھے، شادی ہوئی تو کیا غلط ہونا شروع ہو گیا... مجھے اندازہ ہوا کہ میں اپنے شوہر کے معاملے میں بہتpossessive ہو گئی تھی، میں سمجھتی تھی کہ بہت عرصہ وہ بیٹا اور بھائی رہ لیا اب اسے فقط شوہر ہونا چاہیے, اس کے گھر کے سالن سے لے کر اس کی ماں کی ہر بات پر تنقید کرنا میرا مشغلہ تھا،ہوتا یہ تھا کہ میں اپنی زبان کو بے لگام چھوڑ دیتی اور اس کے جواب میں اس کا ہاتھ اٹھنا شروع ہو گیا، نہ میری زبان رکتی تھی نہ اس کے ہاتھ اور لاتیں... اب ان کے ایک بار کہنے پر ہی میں نے سوچ لیا ہے کہ چاہے وہاں میری طلب اور ضرورت ہو نہ ہو مجھے واپس جانا ہے... ان کا یہ کہنا کہ طلاق تک کی نوبت کا وہ سوچ ہی نہ رہے تھے میرے لیے واپسی کی راہ کھولنے کے لیے کافی ہے، ذرا سا اپنی سوچ کو بدل لوں گی اور سوچوں گی کہ کل کو میری بہو بھی مجھ سے میرا بیٹا چھیننا چاہے گی تو زبان بھی قابو میں آ جائے گی...
اگر اماں میرے اس اقدام پر تھپکی نہ دیتیں تو میں پہلے دن ہی لوٹ جاتی، مجھے یہاں رہ کر اپنے ماں باپ کے بعد بھائیوں اور بھابیوں کے رحم و کرم پر ہونا ہوگا، بھابیاں بھی کیوں چاہیں گی کہ ان کے شوہر بہن کو توجہ دیں ، سو سوچا کہ لوٹ جاؤں... میری آنکھیں کھل گئی ہیں، اللہ آپ کو جزا دے''
اس سے اہم ترین بات تو یہ ہوئی کہ مجھے اپنے کالم میں مذکور ماریہ کا پیغام آیا، '' میڈم... آپ کا کل کا کالم پڑھا، آپ نے کرداروں کے نام اور کچھ واقعات کو تبدیل کیا ہے... (آپ خود لکھاری ہیں، آپ کو علم ہے کہ ایسا کرنا پڑتا ہے) ، میں اس وقت اپنی بیٹی کے ساتھ تنہا رہ رہی ہوں اور میرا شوہر مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وعدہ بھی کر رہا ہے کہ سب کچھ ہمارے بیچ ٹھیک ہو جائے گا اور ہمیں مل کر اپنی بیٹی کو ایک اچھی زندگی دینا ہو گی... ساتھ رہتے ہوئے ہمیں ایک دوسرے میں ہزار برائیاں نظر آتی ہیں... ( کیونکہ ہم نیلے شیشوں کی عینک پہن لیں گے تو سب نیلا ہی نظر آئے گا نا ) مگر اب تنہائی میں سوچتی ہوں تو مجھے اس کے بارے میں سب اچھا خیال آتا ہے، اس کی ساری مثبت باتیں اور اچھائیاں یاد آتی ہیں ، میں سوچتی تھی کہ میں نے علیحدگی کا فیصلہ بہتر کیا تھا۔
اب بھی سوچتی ہوں کہ میں نے علیحدگی کا فیصلہ غلط نہیں کیا تھا کیونکہ اس چند دن کی علیحدگی نے ہمیں بتا دیا ہے کہ ہماری زندگیوں میں ایک دوسرے کے بغیر کیسا خلاہے، ہم ایک دوسرے کی غیر موجودگی کو بری طرح محسوس کرتے ہیں اور دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے ساتھ کی یہ خواہش مضبوط ہو گئی ہے... ( محبت میں انا ، محبت کو مار دیتی ہے پیاری) جلد ہی ہم آپ کو پھر ایک بار اکٹھے نظر آئیں گے... آپ کا شکریہ، آپ نے ایک کالم لکھ کر مجھے ان پہلوؤں سے روشناس کروا دیا ، میرے ذہن میں اگر اس حوالے سے کوئی ابہام تھے بھی توآپ کے کالم نے مجھے فیصلہ کرنے میں مدد کر دی... اب ہم یقینا اس دھچکے کے بعد سنبھل جائیں گے اور ہماری زندگی بہتر طور گزرے گی!!!''