خیالی پلاؤ – بکرا کہانی

میں بھی اپنے اس بناؤ سنگار پر بہت خوش تھا مگر راستے میں پولیس نے ہمیں دھرلیا کیونکہ وہ رنگ کسی سیاسی جماعت کے تھے۔


شہباز علی خان September 30, 2014
میں بھی اپنے اس بناؤ سنگار پر بہت خوش تھا مگر راستے میں پولیس نے ہمیں دھرلیا کیونکہ وہ رنگ کسی سیاسی جماعت کے تھے۔ فوٹو فائل

بھولو ۔ عید آنے والی ہے مگر انسانوں میں کوئی ہل جل دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کوئی ہماری طرف توجہ کیوں نہیں دے رہا؟ کل شہر سے بھی بابو بکرا آیا تو اس نے بھی عجب کہانی سنائی کہ اب کی بار انسان ہمیں قربان نہیں کررہے بلکہ کسی اور کی قربانی مانگ رہےہیں۔ پہلے ہم دیسی بکروں کا نام ہوتا تھا،لوگ ہمارے لمبے قد، لمبے کانوں اور کتابی چہرے پر جان دیتے تھے۔میرے ابا بتاتے ہیں کہ عید سے کئی ماہ پہلے ہی بچے کیا بوڑھے بھی ہمار ی خدمت میں لگ جاتے تھے،کبھی مہندی لگائی جاتی تھی کبھی سبز اور لال رنگ ہمارے بھرے ہوئے جسم پر لگا یا جاتا تھا۔ طرح طرح کی خوراکیں ہمیں دی جاتی تھی۔ بچے شام میں فخر سے ہمیں لے کر باہر نکلتے جہاں ہم اپنی برادری میں گھل مل جاتے دل کے حالات کے ساتھ ساتھ ملکی حالات کا بھی پتا چلتا رہتا تھا۔ کئی من چلے تو ہمارے پتلے پتلے کھروں پر گھنگرو بھی باندھ دیا کرتے تھے۔ ہائے وہ بھی کیا زمانے تھے۔

موٹو راجا۔ ہاں بھائیوں تم سچ کہتے ہو،وہ اپنا جو ٹپوری ٹیڈی بکرا جہاں گردی کی وجہ سے جانا جاتا ہے وہ بھی تو شام کی محفل میں یہی دکھڑا رو رہا تھا کہ انسان بہت بدل گیا ہے۔ بجلی کے بھوت بل، گیس کے جن بل اور مہنگائی کی بھوتنی نے ساری قوم کو گھما رکھ دیا ہے۔ اب تو ان کی پریشانی ہم سے بھی نہیں دیکھی جاتی ہے پر ہم ان کے لئے کچھ نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ یہ اب اس مقام پر جا کھڑے ہوئے ہیں جہاں گیس سرے سے آتی ہی نہیں مگر یہ جلتے رہیں گے، بجلی کی آنی جانیاں انہیں اندھیروں میں رکھ کر مارتی رہیں گی،گرمی ہوتی ہے تو سردی کی دعا مانگتے ہیں سردی تنگ کرتی ہے تو گرمی مانگنے شروع ہو جاتا ہے۔پانی پانی کرتا ہے مگر اسے محفوظ کرنے کے لئے ڈیم تک بنانے کو تیار نہیں۔ یار بکرے یہ انسان کو عقل کب آئے گی؟ ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ دور سے بنٹی لنگڑاتا ہوا آیا اور پوچھنے پر اس نے بھی اپنا کہانی سنائی ۔

بنٹی۔ میکاؤلی نے ٹھیک کہا تھا کہ انسان بنیادی طور پرڈھیٹ ہے اسے مار مار کر اور کھینچ کر ہی سیدھا رکھا جا سکتا ہے۔اب ہماری رسی تو مالک کے ہاتھ میں ہوتی ہے ہماری کیا مجال جو اپنی مرضی سے جگہ کا انتخاب کریں،انسانوں کا کام ہے کہ وہ پہلے سے انتظامات کر کے رکھیں۔انسانوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ قربانی کا مقام کیا ہے۔عبادات میں کیا درجہ ہے۔ ہماری کھالوں پر بھی تجارت اور دہشت کا کاروبار شروع کر دیا ہے۔پھر ہماری آلائشیں ائیر پورٹس کے پاس ویران جگہ دیکھ کر پھینک دی جاتی ہیں اور پرندے انہیں کھانے کے چکر میں کئی جہازوں کے حادثات کاسبب بن جاتے ہیں۔ پھر بھائیو غیر قانونی منڈیوں کی بھرمار،اور یہ جو مافیا ہے ناں اس نے قانون کو بھی بکری بنا دیا ہے اور بکری بھی وہ جو رسی تڑوا کر ادھر ادھر چوکڑیاں مارتی پھر رہی ہو اور یہ جانتی ہو کہ اگر وہ کسی بھی کھونٹے کے پاس گئی تو مافیا اسے بھی بھیڑ بکریوں کے ساتھ باندھ دے گا۔

بھولو۔ ارے بنٹی یہ سب باتیں چھوڑو یہ بتاؤ کہ تم لنگڑے کیسے ہوئے؟

بنٹی۔ ارے بھائیو،بچوں نے گھر میں پڑے رنگ میرے پیٹ پر مل دیئے ، میں بھی اپنے اس بناؤ سنگار پر بہت خوش ہوا اور میرا مالک مجھے لے کر بیچنے چل پڑا، مگر راستے میں پولیس نے دھر لیا کیونکہ وہ رنگ کسی سیاسی جماعت کے تھے۔ مالک نے جب یہ سنا تو مجھے چھوڑ کر بھاگ گیا، پولیس والے مجھے لے کر تھانے آگئے اور کسی انقلابی اور آزادی والے کے ساتھ جوڑنے کیلئے میری اچھی خاصی چھترول کی۔ جب شام ہوئی ان کے کسی بھائی بندے نے کہا کہ یہ تو بے گناہ لگتا ہے چھوڑ دو۔ کسی نے کہا کہ اسے بڑے صاحب کو بھجوا دیتے ہیں قربانی بھی ہو جائے گی لیکن جب کھینچ کر کھڑا کیا تو پتہ چلا کہ ٹانگ ہی ٹوٹی ہوئی ہے اور قربانی ہو نہیں سکے گی بس پھر باہر بھگا دیا مجھے ۔بھائی بھولو آج کے دور میں انسان اپنے بھائیوں پر رحم نہیں کرتا ہم پر کیا خاک رحم کرے گا۔

ان سب بکروں کی تقریریں سن سن کر میرے چودہ طبق روشن ہوگئے، اور میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ جو لوگ یہ بات کررہے ہیں کہ انہیں ناچ گانے والا پاکستان نہیں چاہئے ،تو پھر کیا یہی پاکستان چاہتے ہیں جہاں ایک انسان بندر بن کر سندھ اسمبلی کے درخت پر چڑھ جاتا ہے اور چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ اس کے گھر فاقوں کا رقص جاری ہے اسے بھیک نہیں ملازمت چاہئے۔ بنت پاکستان تھانوں کے سامنے جل مر رہی ہے،عدالتوں کے احاطے میں پتھروں سے کچلی جا رہی ہے۔

مجھے بھولو، موٹو راجا،بنٹی اور تمام بکروں سے ہمدردی ہے،میں خود پریشان ہوں کہ معاشرے میں یہ تشدد کا عنصر کیوں بڑھتا جا رہا ہے۔ میں سب بکروں کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ انسان میں احساس ختم ہو گیا ہے وہ بدل گیا ہے،لیکن یہ معصوم جانور کیا جانیں کہ ہم انسانوں کی کتنی مجبوریاں ہیں، کتنے مسائل ہیں ،کتنے جنات ہیں جنہوں نے ہمیں قابو کر رکھا ہے۔ کاش کوئی ہماری بھی مجبوریاں سمجھ سکے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں