پاکستان ایک نظر میں اِس بار دو نہیں تین تین عیدیں

وہ کون سی وجوہات ہیں جو پشاور والوں کو رویت ہلال کمیٹی کے قریب آنے نہیں دیتیں؟ کیا اُن کو مرکزی کمیٹی پراعتبار نہیں؟


سہیل اقبال خان October 01, 2014
اِس بار وطن عزیز میں 2 نہیں بلکہ 3 عیدیں منائی جارہی ہیں ۔۔۔۔ ذمہ داران سے کہنا چاہتا ہوں کہ ایک عید کا انتظام کرکے قوم کو خوشیوں سے نوازدیں جو پہلے ہی درد اورغموں میں ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور: وطن عزیز میں ایک طویل عرصے سے عید ایک دن منانے پر اتفاق نہیں ہوپارہا ہے اور اس بار نہیں ہو سکا ہے۔پہلے تو بات صرف عید الفطر کی حد تک دیکھائی دیتی تھی،لیکن اس بار تو بات عیدِ قربان تک جا پہنچی ہے۔

یہاں 2 عیدیں تو ہم بہت بار دیکھ چکے مگر اِس بار تو بلکہ تین عیدیں منانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ عید کو منانے کو فیصلہ اب تو یوں لگتا ہے جیسے ہر کوئی اپنی مرضی سےکر رہا ہے۔جس کو جو دن پسند ہوتا ہے اس دن ہی وہ عید منانے کو تیار ہو جاتا ہے۔ویسے تو عید تین دن کی ہوتی ہے،لیکن اس بار ہمارے ملک میں تین مختلف تاریخوں کو ملا کر پانچ دن عید منائی جائے گی۔ پشاور والے قاسم علی خان مسجد کے اعلان پر 5اکتوبر کو عید منائیں گئے، دوسری جانب کراچی سے مفتی صاحب نے سرکاری طور پر چاند نظر نہ آنے پر ملک میں عید 6اکتوبر کو منانے کا اعلان کیا ہے، اور تیسری جانب پاکستان میں موجود افغان مہاجرین اور فاٹا میں رہنے والوں نے4اکتوبر کو سعودی عرب کے ساتھ عید منانے کا فیصلہ کیا ہے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ ایک ہی ملک،ایک ہی عقیدہ،ایک ہی مذہبی تہوار،لیکن ایک دن منانے پر اتفاق نہیں۔پاکستا ن ہے ہی کتنا بڑا کہ جہاں ایک کونے میں میں چاند نظر آجاتا ہے مگر دوسرے کونے میں نظر آنے کے لیے ایک دن کا انتظار کرنا پڑجاتا ہے جبکہ تیسرے کونے میں رہنے والے دونو ں پر اعتبار نہ کر کہ سعودی عرب کے ساتھ عید منانے کا اعلان کر دیتے ہیں۔دنیا میں دوسرے مذاہب کے لوگ جب اپنے مذہبی تہوار ایک ساتھ ایک دن منا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟۔کیا ہمیں پورے ملک میں ایک ساتھ خوشیاں منانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے؟۔میری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ ہم آج ایک سائنسی دور میں ہیں،جہاں سائنس کی تحقیق نے انسان کو چاند پر پہنچا دیا ہے مگر اہم اُسی دور میں اب تک چاند کو ہی دیکھنے پر متفق نہیں ہو سکے۔میرے ذاتی خیال میں اِس میں کسی اور کا خیال نہیں بلکہ ہماری خود کی بہت بڑی کمزوری ہے۔

حیرانگی تو اس بات پر ہے کہ سالانہ بنیادوں پر ایک ہی مسئلے کا سامنا کرنے کے باوجود نہ ہی ہماری حکومتیں کوئی حل پیش کرسکی ہیں اور نہ ہی معاشرے کے دیگر طاقتور افراد جن کا معاشرے میں کچھ اثرو رسوخ پایا جاتا ہے جو لوگوں کو اِس بات کی جانب راغب کرسکے کہ وہ کسی طرح ایک ہی دن عید منانے پر تیار ہوجائیں۔

شاید اِس کی وجہ آپس کے اختلافات ہیں جن کی کی بناء پر کوئی اس مسلئے کو حل بھی نہیں کرنا چاہتا ورنہ ایسی کون سی وجوہات ہیں جو پشاور والوں کو رویت ہلال کمیٹی کے قریب آنے نہیں دیتیں۔ کیا پشاور والے مرکزی کمیٹی کے فیصلے پر اعتبار نہیں کرتے؟ اور خود ان کو کراچی والوں سے پہلے ہی چاند نظر آ جاتا ہے؟۔کیا پشاور والوں کے پاس زیادہ بہتر آلات موجود ہیں جن سے پشاور میں ہر بار کی طرح اس بار بھی جلد چاند نظر آ کر عید منانے کا فیصلہ کر دیا۔دوسری رویت ہلال کمیٹی کے کیا پشاور اور اس کے ساتھ کے علاقوں میں کوئی علاقائی،صوبائی دفتر،اور ٹیم موجود نہیں ہے؟جو پشاور میں چاند نظر آنے اور نہ آنے کی شہادت دے سکے اوراگر ہے تو پھر ان کو کیوں نہیں وہ چاند نظر آتا جو چاند قاسم علی خان مسجد کو نظر آ جاتا ہے۔

خدا کے لئے قوم کی خوشیوں کے ساتھ مت کھلیں۔ یہ قوم پہلے ہی بہت دردوں،غموں میں ہے،اس کو اگر سال میں ایک دن خوشی منانے کا مل جاتا ہے تو اس کو ایک ساتھ منانے کا موقع دیں،آپس کے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک اور قوم کا سوچیں،عالمی سطح پر بھی ہمارے بارے میں کیا تاثرات جا رہے ہوں گئے کہ یہ قوم ایک ساتھ مذاہبی تہوار بھی نہیں منا سکتی۔

اگر پشاور اور رویت کمیٹی کے مسئلے کو حل کر لیا جائے تو فاٹا سمیت دوسرے علاقوں کا مسئلہ بھی خود بخود حل ہو جائے گا۔ اور پورے ملک میں ایک ساتھ عید کا دن منایا جا سکتا ہے۔حکومت کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ،جس سے ایک فیصلے پر اتفاق کروایا جائے۔ اب ایک سے زائد عیدوں کی روایت کو ختم کرنا ہو گا،آخر کب تک ہم ملک میں دو دو،اور تین تین عیدیں مناتے رہیں گئے؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں