ٹین ایجرز
ان کی سوچ روایتوں کے پنجرے سے باہر نکلنے کے لیے پر تولنے لگتی ہے۔ ....
فطرت کی زندگی ہم آہنگی سے عبارت ہے۔ اگر پودے کو زرخیز زمین، ہوا اور پانی مل جائے مگر روشنی نہ ہو تو وہ مرجھا جائے گا۔ بالکل اسی طرح بچے کو پیار، توجہ اور اچھی نگہداشت میسر ہو مگر اس کی زندگی میں یقین کی روشنی کی کمی ہو تو اس کی ذات میں خلا سا رہ جاتا ہے۔ انسانی زندگی مختلف ہے۔ وہ رویوں کا بہتا ہوا دھارا ہے۔ جس میں احساس کی چاشنی مفقود ہے۔ پھر انسان کہیں رک کے یہ نہیں سوچتا کہ وہ کہاں غلط ہے۔ لہٰذا اسے اپنے علاوہ ہر شے بے ترتیب دکھائی دیتی ہے۔
لیکن بچے اس مصنوعی دنیا کی حقیقی خوشی سے ہیں۔ یہ جب بچپن کی دہلیز کو پار کرتے ہیں، تو ان کی آنکھیں خوابوں سے جگمگانے لگتی ہیں۔ یہ تیرہ سال کی عمر میں قدم رکھتے ہیں اور ٹین ایجرز کہلاتے ہیں۔ یہ دور تیرہ سال سے انیس سال تک محیط ہوتا ہے۔ یہ انتہائی خوبصورت ترین دور ہوتا ہے۔ بچوں کا خاندان سے قریبی رشتہ قائم رہتا ہے۔ پڑھائی کے حوالے سے بھی یہ دور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس عمر میں بچے، احساس کی انوکھی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔
ان کی سوچ روایتوں کے پنجرے سے باہر نکلنے کے لیے پر تولنے لگتی ہے۔ وہ بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کے بجائے، اپنے ذہن سے زندگی کو سمجھنا چاہتے ہیں یوں نئی اور پرانی سوچ میں ٹکراؤ جنم لیتا ہے۔ ٹین ایجرز کی اپنی الگ دنیا ہوتی ہے۔ یہ جنگلی پھول کی طرح ہوتے ہیں۔ انھیں ترتیب کے گلدان میں سجانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ والدین کی تمام تر توانائیاں انھیں ترتیب و تہذیب سکھانے میں صرف ہو جاتی ہیں۔
سوچ کے ٹکراؤ میں شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ رشتوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں اور والدین کے مابین رنجشیں بڑھ جاتی ہیں۔ یہ تضادات فطرتی انداز کے برعکس ہیں۔ جہاں سوچ کا فطری پن موجود ہے، وہاں ہم آہنگی ملتی ہے۔ تضاد، انتشار کو جنم دیتا ہے۔ مگر یہ ٹین ایجرز ان تمام تر تضادات سے خود کو بالاتر سمجھتے ہیں۔
ان کے ذہن کی اڑان زمینی حدود سے بہت آگے نکل جانا چاہتی ہے۔ یہ موٹر سائیکل پر کرتب دکھاتے ہیں۔ گاڑی چلاتے ہوئے اسٹیئرنگ سے ہاتھ اٹھا دیتے ہیں۔ اپنی غیر معمولی طاقت کا احساس ان کے اندر جارحیت بھر دیتا ہے۔ وہ خود کو مختلف سمجھتے ہیں۔ وہ بڑے ہو چکے ہیں مگر والدین کی سوچ ابھی ان کے بچپن میں پھنسی ہوئی ہے۔
اس دور میں بچوں کی جسمانی ساخت، ذہنی و جذباتی رویوں میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ ان میں جارحیت، غصہ، بے چینی، جلدبازی، مایوسی، یکسوئی کی کمی اور ڈپریشن کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ اس دور میں بچوں کی ذہنی کیفیات اور ان کے عمروں کے فطری تقاضوں کو بعض اوقات والدین نہیں سمجھ پاتے۔ رویوں کے حبس سے گھبرا کے یہ بچے غلط راستوں میں فرار ڈھونڈتے ہیں۔ انٹرنیٹ، موبائل کا بے جا استعمال، سگریٹ نوشی و نشہ آور اشیا کا استعمال، پڑھائی میں عدم دلچسپی جیسے تلخ حقائق سامنے آنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد والدین اور اساتذہ کے سخت رویے ان مسائل کو مزید الجھا دیتے ہیں۔
بری صحبت اس دور میں عملی و جذباتی نقصان کا سبب بن جاتی ہے۔ ان بچوں کو جب گھر میں توجہ نہیں ملتی تو پھر یہ باہر کی دنیا میں چھوٹی چھوٹی محبتوں میں توجہ تلاش کرتے ہیں آج کل ان میں ''Crush'' کا لفظ بڑا مقبول ہے۔ یہ ان کی وہ محبت ہے جس کے لیے وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں اور اگر 'کرش ' نہ ہو تو ٹین ایجرز کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لیکن ان کی یہ محبتیں ناپائیدار ہوتی ہیں ان کی پڑھائی اور ان کے والدین سے تعلقات بھی اس عارضی اور سطحی رومانس کی نذر ہو جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کامل محبت کا یہ خواب تمام تر زندگی میں تحرک عطا کرتا رہتا ہے۔
اس دور میں ذاتی تصور اور توقیر ذات کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ اسی لیے بچے آئینہ زیادہ دیکھتے ہیں۔ منفرد نظر آنے کے لیے عجیب و غریب فیشن اپناتے ہیں اور تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ بے جا تنقید ان کے سیلف امیج اور سیلف ریسپکٹ کا توازن بگاڑ دیتی ہے۔ جس سے احساس کمتری اور احساس محرومی کا جہنم ان کے اندر سلگنے لگتا ہے۔ ان کی جذباتی صحت تباہ ہو کے رہ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان بچوں کی جسمانی صحت بھی بری طرح سے متاثر ہو جاتی ہے۔ یہ وہ دور ہے جب انھیں مکمل توجہ، اچھی غذا، دوستانہ ماحول، اظہار کی آزادی اور یقین کی ضرورت ہوتی ہے۔ درحقیقت شک، انسان کو بھٹکا دیتا ہے۔
ان بچوں میں خامیاں ہوتی ہیں مگر والدین کی اعلیٰ توقعات ان خامیوں کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔ بچوں پر نظر داری ضروری ہے مگر ان کے سامنے شک کا اظہار انھیں مزید غلطیاں کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ ذہنی تصور ایک طاقت ہے۔ والدین جس ذہنی فریم میں رکھ کے بچوں کو سوچتے ہیں اس کا عکس وہ اولاد کے رویوں میں محسوس کرتے ہیں۔ اگر بچے کو ہر وقت ضد اور بدتمیزی کے تناظر میں دیکھا جائے گا تو، وہ منفی رویے اس میں مزید پختہ ہونے لگیں گے۔ زندگی انسان کی سوچ کا عکس ہے۔ ہمارے منفی و مثبت رویے ماحول سے جھلکتے ہیں اور زندگی کا معیار بھی سوچ کے توازن سے ہی قائم رہتا ہے۔
جدید دنیا مثبت تصور اور سوچ کی قائل ہے۔ جہاں خیال کی تازگی اور جدت زندگی کو بدل دیتی ہے۔ اکثر اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ آخر کیوں ہم فقط اپنے بچوں کی خامیوں پر ہی نظر رکھتے ہیں۔ ان میں خوبیاں بھی موجود ہیں۔ ان چند خوبیوں کو لے کر اگر انھیں سراہا جائے تو بھی بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ ویسے بھی تنقید برائے تنقید کا رجحان قومی مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ اور تنقید برائے اصلاح کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ یہ مستقل تنقیدی رویے شخصی تباہی کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔ بعض اوقات گھر کے افراد بھی ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ بچے منفی رویے والدین سے بھی سیکھتے ہیں۔ میں نے ایک والد کی سرگزشت پڑھی تھی، جس میں لکھا تھا کہ بچوں کی تربیت کرنے کے لیے انھیں خود کو بدلنا پڑا اور وہ خوبیاں اپنانی پڑیں جو وہ اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔
بچوں کے اگر اچھے رول ماڈلز موجود ہیں تو وہ مثبت تصور ان کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عمر کے اس دور کی خاص بات فطرت میں بے ساختہ پن ہے۔ ایک فطری خوشی کا انداز ہے، جسے تنقیدی رویے، سزائیں اور اونچا معیار مستقل اداسی میں بدل دیتے ہیں۔ سختی اور جارحانہ انداز سے کبھی وہ نتائج نہیں ملتے، جو محبت، سمجھداری اور احساس بانٹنے سے برآمد ہوتے ہیں۔ یہ ٹین ایجرز والدین کو بہت کچھ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ دنیا کو کیسے دیکھتے ہیں۔ یہ اپنی ذات کا بلاخوف اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ رشتوں سے یقین کامل چاہتے ہیں کیونکہ احساس کا اظہار اس کے سامنے کیا جاتا ہے، جو اس احساس کو سمجھتا ہو۔
سخت اور بے لچک رویوں کے میکنزم میں فقط خود غرضی، بے حسی اور مادیت پرستی جیسے منفی رویے پروان چڑھتے ہیں۔ یہ رویے انسانی زندگی میں ایک گہرا خلا پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ سطحی اور بناوٹی سوچ کی ترویج کرتے ہیں جب کہ انسانی زندگی رویوں کی لچک و نرمی، سوچ کی نفاست اور مخلص احساس سے جلا پاتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم فطری رویوں سے انحراف کرتے ہیں اور بناوٹی خول میں خامیوں کو چھپانے کا ہنر سکھاتے ہیں۔ یہ دوہرے رویے معاشرتی زندگی کا سکون تہس نہس کر ڈالتے ہیں۔