مجھے پڑھنے لکھنے اور محبت کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا علی معین

ہمارے ڈراموں میں عورت کی دقیانوسی شبیہ پیش کی جارہی ہے، علی معین


Iqbal Khursheed October 02, 2014
معروف شاعر، ڈراما نویس اور گیت نگار علی معین کی کہانی۔ فوٹو: فائل

کیا آپ کے پاس ردِبلا کا کوئی تعویذ ہے؟ اگر ہے، تو انھیں دے دیجیے کہ اُن کے پیچھے محبت پڑ گئی ہے۔

سوچتا ہوں، محبت نامی مرض انھیں کب لاحق ہوا؟ کیا یہ بہاول پور کی ریت میں سانس لیتی خاموشی کی دَین ہے ، یا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور کے زرخیز ماحول کا اثر؟ کیا اس کا سبب شعر و ادب کی لت میں مبتلا دوست تھے، یا ایک عالم فاضل باپ، جس نے کتابوں کا عشق تحفے میں دیا؟

سبب جو بھی رہا ہو، یہ اچھا ہی ہوا کہ محبت علی معین کے تعاقب میں نکل پڑی۔ اسی نے تو اُنھیں ایک عمدہ شاعر اور پختہ ڈراما نگار کے روپ میں ڈھالا۔

آئیے، علی معین سے ملتے ہیں۔ لکھنوی لہجہ۔ کسی مجذوب سے دراز گیسو۔ بلا کی انکساری۔ جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس اس شخص سے گفت گو کرتے سمے بڑی سہولت رہی۔ اُن کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں، جنھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ایک خاکوں کا منفرد مجموعہ۔ ایک انگریزی ناول۔ دو کتابوں کی اشاعت جلد متوقع ہے۔

ذرا ڈراما نگاری کے سفر پر نظر ڈالیے۔ بیس کے قریب سیریلز۔ ٹیلی فلمز کی تعداد لگ بھگ 70 ۔ میگزین پروگرامز بے شمار۔ ڈاکومینٹریز بھی خوب لکھیں۔ ''نورمحل''، ''پھول والی گلی''، ''باتیں دل کی''،'' ایک دفعہ کا ذکر ہے''، ''خالی آنکھیں'' اور ''مکان نمبر 47'' ان کے مقبول ترین کھیل۔ ''ایک آدھ ہفتہ'' ٹیلی فلمز کے ایک فیسٹول میں بہترین اسکرپٹ کا حق دار ٹھہرا۔ آج کل ایکسپریس سے اُن کا تحریر کردہ کھیل ''رنگ باز'' اپنا رنگ جما رہا ہے۔ گیت نگاری کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ لگ بھگ پانچ سو کے قریب گیت۔ اردو بھی برتی، اورپنجابی بھی۔ لوک گیت لکھے، پاپ آرٹسٹوں کے ساتھ کام کیا۔ ملی نغمے بھی کئی۔ ''یہ ہم نہیں''، ''چل رہنڑ دے''، ''دل پریشاں ہے''، ''کیسا یہ جنوں، کہیں ملے نہ سکوں'' اور ''کٹنا نہیں''سمیت کتنے ہی مشہورگیت علی معین کے قلم سے نکلے۔

سید علی معین، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے خانوادے سے ہیں۔ وہ 20 نومبر 1968 کو لاہور میں، سید فخر الدین بلے کے گھر پیدا ہوئے۔ یوں تو والد محکمۂ اطلاعات، پنجاب میں افسر تھے، مگر شناخت کا اصل حوالہ علم و ادب کی دنیا رہی۔ تصوف تحقیق کا خاص موضوع۔ کئی اخبارات و جراید کے وہ بانی ایڈیٹر۔ ماضی بازیافت کرتے ہوئے علی کہتے ہیں،''ابو اپنی الوہی سرمستی میں رہنے والے انسان تھے۔ جسم تو یہاں، مگر روح کہیں اور تھی۔ اوائل میں اُن سے ربط کم رہا، مگر نوجوانی کے دنوں میں ان کی قربت میسر آئی۔ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔''

ابھی کم سن تھے کہ خاندان بہاول پور اٹھ آیا۔ وہیں شعور کی آنکھ کھولی۔ اور اِس پرسکون شہر کے عشق میں مبتلا ہوگئے۔ ان کے لیے تو سکون اور بہاول پور مترادف الفاظ ہیں۔ وہاں کے باسیوں کی رواداری کا بالخصوص ذکر کرتے ہیں۔ تربیت میں والدہ نے کلیدی کردار ادا کیا، جن کی محبت کو وہ ایک سایہ دار شجر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ دو بھائیوں میں وہ چھوٹے ہیں۔ بڑے بھائی، آنس معین عمدہ شاعر تھے۔ نوجوانی میں اُن کا انتقال ہوگیا۔

بچپن میں علی کی گنتی کم گو بچوں میں ہوتی۔ لوگوں میں کم ہی گھلتے ملتے۔ کسی کھلونے سے نہیں کھیلے۔ بس، ایک اخبار ہوتا۔ شروع شروع میں اسے پرزوں میں تبدیل کرتے رہے، بعد میں اخبار پڑھنے کی عادت پڑ گئی۔ سینٹ ڈومیکین کالونٹ اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، جس کی امریکی استانیاں سائیکلوں پر آتیں۔ ٹیکنیکل ہائی اسکول بہاول پور سے 84ء میں میٹرک کیا۔ اب لاہور پہنچے، جہاں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ایک نئی دنیا منتظر تھی۔ والد کا تبادلہ لاہور ہوگیا تھا، سورہایشی نقطۂ نگاہ سے کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ 91ء میں انگریزی میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ پھر پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔



طالب علمی کا زمانہ خوش گوار یادوں کا حصہ ہے۔ شعر تو چودہ برس کی عمر میں کہنے لگے تھے، مگر شاعری کا باقاعدہ آغاز گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے کیا۔ عباس تابش، عدنان بیگ، احسن محمود مخدوم، فیضی اور مقصود وفا جیسے دوست ملے۔ کہتے ہیں،''ہم دوست کتابوں کے سوا کوئی بات ہی نہیں کرتے تھے۔ بس کی چھت پر سوار ہوتے، کسی موضوع پر بحث شروع ہوجاتی۔ اتنے مگن کہ اسٹاپ نکل جاتا، اور ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا۔''

جب شعر کہنے کی جوت جاگی، جدید شاعری کا چرچا تھا، لفظیات اور تلازمے بدل رہے تھے۔ شکیب جلالی اور آنس معین کے تجربات سامنے۔ علی نے وہی ڈھنگ اپنایا۔ پہلا شعر:

بند کلیو حشر دیکھو پھول کا

احتیاطاً تم زباں مت کھولنا

بڑے بھائی کو دکھایا۔ انعام میں پچاس روپے ملے۔ آغاز میں غزلیں کہیں۔ ساتھ افسانے بھی لکھے۔ فکشن کے میدان میں اشفاق احمد اور ممتاز مفتی سے متاثر تھے۔ اشفاق صاحب کی رہایش گاہ ''داستان سرائے'' کے کئی چکر لگائے۔ اُن کے ساتھ بیتے وقت کو اپنا اثاثہ قرار دیتے ہیں۔ ''اوراق'' اور''راوی''سمیت مختلف پرچوں میں تخلیقات شایع ہوئیں۔ پھر افسانہ نگار کہیں پیچھے رہ گیا۔ لاہور کے زمانے میں کئی مشاعرے پڑھے۔

مقابلے کا امتحان دیا۔ کام یاب ٹھہرے، مگر اندرون باغی ہوگیا کہ وہ بیوروکریسی کی دنیا کے باسی نہیں۔ گھر والوں نے اس فیصلے پر شدید تنقید کی، تو ارادہ کچھ متزلزل ہوا، جس نے بینکنگ کونسل کا امتحان دینے کی خواہش جگائی۔ اس میں کام یاب ٹھہرے۔ نیشنل بینک آف پاکستان کا حصہ بن گئے۔ آٹھ سال تک اس اجنبی سیارے میں رہے۔ اسی دوران اندر کی آواز نے لکھنے پر اُکسایا۔ دوستوں کی تحریک بھی کام آئی۔ ڈرامے اور گیت لکھنے لگے۔ خاصی پزیرائی ہوئی۔ ڈراما انڈسٹری کراچی میں تھی، تو یہاں تبادلہ کروالیا۔ مختلف میڈیا گروپس کے ساتھ کام کیا۔ 2007 میں بینک سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔ ایک پرائیویٹ چینل سے منسلک ہوگئے۔ پھر ایکسپریس انٹرٹینمنٹ کا حصہ بن گئے، جہاں کئی تجربات کیے۔ آج فری لانسر کی حیثیت سے مصروف ہیں۔

ڈراما نگاری کی سمت آنے کا قصہ یوں ہے کہ 2000 میں وہ کراچی آئے۔ بہاول پور کے پرانے دوست اویس خان اور نعیم خان کے ساتھ بیٹھک ہوئی، جو تازہ تازہ ڈراما انڈسٹری سے منسلک ہوئے تھے۔ اس زمانے میں پرائیویٹ پروڈکشن کا تصور نیا تھا۔ دوست انھیں ڈراما لکھنے کے لیے قائل کرنے لگے۔ علی نے کبھی یہ تجربہ نہیں کیا تھا، مگر ہامی بھر لی۔ کہتے ہیں،''قلم اور کتابوں سے تو میری دوستی تھی۔ وہ غلام محمد قاصر کا شعر ہے ناں:

کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

تو میرا بھی یہی معاملہ ہے۔ مجھے پڑھنے لکھنے اور محبت کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا۔ 'سرمایہ' سیٹلائٹ ٹی وی انڈسٹری کا پہلا ڈراما تھا، جسے اویس خان نے ڈائریکٹ کیا۔ یہ تیرہ اقساط پر مشتمل تھا۔ بے حد مقبول ہوا۔ بس، اس کے بعد ڈراما نگاری کا سلسلہ شروع ہوگیا۔''



علی معین کے مطابق گیت نگاری کا فن انھوں نے سجاد علی اور وقار علی سے سیکھا۔ سجاد علی کے کئی مقبول گیت علی معین کے لکھے ہوئے ہیں۔ بہت سے چینلز اور ڈراموں کے تھیم سونگز ان کے قلم سے نکلے۔ یوں تو تمام فن کاروں کے ساتھ کام کیا، مگر سجاد علی اور راحت فتح علی ساتھ کام کرکے زیادہ خوشی ہوئی۔ گیت نگاری کا موضوع زیر بحث آیا، تو کہنے لگے؛ ماضی کے برعکس اب گیتوں کی زندگی بہت کم ہوگی ہے۔ پھر ایسے گیت نگار تھوڑے ہیں، جو شعری پس منظر رکھتے ہیں۔ مزاج بدل گیا ہے۔ اب دھن پر گیت لکھا جاتا ہے۔ یعنی ساز کی آواز کی مناسبت سے لفظ تلاش کیا جاتا ہے۔

اردو شاعری، ان کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے توسط سے نئے نئے تجربات ہورہے ہیں۔ ''چوں کہ برصغیر کا مزاج شعری ہے، اِس لیے یہ سفر جاری رہے گا۔ اب اگر مراکز میں اس طرح کی سرگرمیاں نہیں ہورہیں، تو مضافات سے شاعر سامنے آرہے ہیں۔'' اردو شاعری کے بارے میں تھیسس ہے کہ پہلے غالب آئے، نئے تلازمے ساتھ لائے۔ پھر اقبال نے یہ کام کیا۔ اور آج جس شاعر کا نام لیا جائے گا، وہ ہیں جون ایلیا۔ ''جس طرح جون بھائی کہا کرتے تھے کہ ہر اچھا شعر، میر کا شعر ہے، چاہے کوئی کہہ رہا ہو، تو میرے نزدیک آج ہر شاعر، شعوری یا لاشعوری انداز میں جون ایلیا کے انداز میں شاعری کر رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگلے کئی عشروں تک ان کے اثرات باقی رہیں گے۔''

سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد والدہ کی آنکھوں میں جو خوشی دیکھی، اس نے مسرت کی نئی جہت سے متعارف کروایا۔ والد اور بڑے بھائی کی موت کے سمے وہ گہرے کرب سے گزرے۔

بین الاقوامی ادب اُن کی توجہ کا مرکز رہا۔ ایزاک بشویس سنگر ، موپساں، اوہنری اور آسکروائلڈ کی فکشن نگاری کو سراہتے ہیں۔ شعرا میں شکیب جلالی اور جون ایلیا کا نام لیتے ہیں۔ ہم عصر ڈرامانگاروں میں خلیل الرحمان قمر اور ظفر معراج اچھے لگے۔ میخائل نعیمی کی تصنیف ''کتاب میر داد'' پڑھ کر لطف اندوز ہوئے۔ رضا علی عابدی کا شمار اپنے پسندیدہ لکھاریوں میں کرتے ہیں، جنھوں نے اُن کے بہ قول، پاکستان کو کتابوں میں محفوظ کر دیا۔ سادہ خوراک پسند ہے۔ '' دوست تفریحاً کہتے ہیں، تم تو طبی یونانی نسخوں کے مطابق کھانا کھاتے ہو(قہقہہ)۔'' خود کو بدلباس شخص ٹھہراتے ہیں۔ سجاد علی کی گائیکی کے مداح۔ سہیل اصغر، طلعت حسین، عظمیٰ گیلانی، ریحان شیخ اور فیصل رحمان کی صلاحیتوںکے معترف۔ ''گاڈفادر'' ایسی فلم ہے، جو بارہا دیکھی۔

زندگی کی دل چسپ یادیں اُن کے، زبان زد خاص و عام ہونے والے شعر: ''کوئی تعویذ ہو ردبلا کا'' سے نتھی ہیں۔ یہ 92ء کا شعر ہے، جو تاحال کسی مجموعہ کا حصہ نہیں بنا، مگر دوستوں کے ذریعہ لوگوں تک پہنچا۔ پھر سوشل میڈیا نے اسے پَر عطا کیے۔ کیوں کہ شاعر سامنے نہیں آیا تھا، تو ملکیت کے کئی دعوے دار پیدا ہوگئے۔ 2011 میں کہیں جا کر، ایکسپریس کے مشاعرے میں علی معین نے پہلی بار یہ شعر سنایا۔



یہ ہم نہیں۔۔۔

یوں تو علی معین کے قلم سے نکلے کئی گیت مقبول ہوئے ، مگر ''یہ ہم نہیں'' کا معاملہ کچھ اور ہے۔ اس نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔

اس پراجیکٹ کاخیال سب سے پہلے پاکستانی نژاد برطانوی، وسیم محمودکو سوجھا، جو بی بی سی لندن کا حصہ تھے۔ سانحۂ نوگیارہ کے بعد مغرب میں مسلمانوں کی منفی شبیہ اور ان کے ساتھ برتنے جانے والے رویے کے سدباب کے لیے ، یہ پیغام دینے کے لیے کہ دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، وہ ایک گیت تیار کروانا چاہتے تھے۔ کراچی میں علی معین سے ان کی ملاقات ہوئی۔ علی نے ان کے جذبات کو الفاظ عطا کیے۔ شجاع حیدر نے اسے کمپوز کیا۔ پاکستان کے 15 معروف گلوکاروں نے مل کر اسے گایا۔ تشہیری مہم علی معین ہی نے تیار کی۔ گیت کو بڑی پزیرائی ملی۔ اس نے ایم ٹی وی ایشیا اور برٹش چارٹس میں جگہ بنائی۔ مغربی میڈیا نے اس کا نوٹس لیا۔ بی بی سی، سی این این، فوکس نیوزنے رپورٹس نشر کیں۔ کئی بین الاقوامی جراید میں مضامین شایع ہوئے۔

کیا علی توقع کر رہے تھے کہ یہ گیت اتنا مقبول ہوگا؟ کہتے ہیں،'' قطعی نہیں۔ اور میں توقع کرتا بھی نہیں ہوں۔ کیوں کہ ایک کام مکمل کرنے کے بعد دوسرے کام کی سمت بڑھ جاتا ہوں۔ یہی میرا اصول ہے۔''

ڈراما بُننے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں

ڈراما نویسی کا موضوع نکلا، تو ہمارے زرخیز ماضی کا ذکر آیا۔ علی کہتے ہیں؛ پہلے صرف ایک چینل ہوا کرتا تھا، آبادی کم تھی، مزاج اور رویے مختلف، مگر پھر پرائیویٹ چینلز آگئے، لوگوں کو انتخاب مل گیا۔ موضوعات بدلنے لگے۔ یعنی موجودہ ڈرامے کے، ماضی کے ڈراموں سے مختلف ہونے کے اسباب ہیں۔

خامیوں پر بھی نظر ہے۔ تسلیم کرتے ہیں کہ کمرشل ازم سے ڈرامے کو نقصان پہنچا۔ اپنے قبیلے سے بھی شکایات ہیں۔ کہنا ہے؛ ہمارے لکھاری محنت نہیں کرتے، پھر پروڈیوسرز بھی انھیں محنت کرنے نہیں دیتے۔''ہمارے ڈرامے نے ایک زمانے میں شعور کی تربیت کی۔ مگر آج کے ڈرامے فقط عورت کی دقیانوسی شبیہ پیش کر رہے ہیں۔ بے شک ہر کہانی میں عورت ہوتی ہے، مگر ہر کہانی عورت کے گرد نہیں گھومتی۔ مجھے یقین ہے کہ جلد ڈراما کہانی کی طرف واپس آئے گا۔''

ان کے نزدیک ڈراما نگاری کسی طور آسان نہیں۔ ایک ڈراما بُننے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ خون تھوکنا پڑتا ہے۔ اس میدان وہ اقبال انصاری کو اپنا استاد قرار دیتے ہیں، جن سے اُنھوں نے یہ فن سیکھا۔

لفظوں کے آدمی سے کتابوں کی باتیں

91ء میں علی معین کی غزلوں کا مجموعہ بدن کی خانقاہ سے'' شایع ہوا۔ فلیپ پر اشفاق احمد، مرتضیٰ بیگ برلاس اور عطا الحق قاسمی کی رائے درج تھی۔ دوستوں نے اشاعت کا اہتمام کیا۔ کتاب کی خاصی پریزائی ہوئی۔ ''بھگوابھیس'' اگلی کتاب۔ یہ مجموعہ تھا خاکوں کا۔ غیرروایتی ڈگر اپنائی۔ خواص کے بجائے عام لوگوں کی کہانیاں بیان کیں۔ 93ء میں شایع ہونے والی اس کتاب کا بہت چرچا ہوا۔ کہتے ہیں،''اس نوع کی1940 میں ایک کتاب چھپی تھی: دلی کی چند عجیب ہستیاں۔ تو 'بھگوا بھیس' اپنی نوعیت کی اردو میں دوسری کتاب تھی۔''

اب پابند نظموں کا مجموعہ ''ہم پر ہجر اتار'' منظر عام پر آیا۔''مجھ میں سورج ڈوب گیا'' اگلا مجموعہ۔ دونوں کو سراہا گیا۔ Night Never Ends کے زیر عنوان ایک انگریزی ناول بھی لکھا۔ قصہ اس کا عجیب ہے۔ ہوا یوں کہ اُن کے دوست، احمد دائود نے ''رہائی '' کے زیرعنوان ناول لکھا تھا۔ علی اس کے ترجمے پر جٹ گئے۔ کئی ڈرافٹ تیار ہوئے۔ بات ترجمہ سے آگے نکل گئی۔ ناول کی صورت ابھرنے لگی، جسے کتابی صورت دی گئی۔

کالموں کے مجموعے ''آواز'' کی جلد اشاعت متوقع ہے۔ نعتوں کا مجموعہ ''اعتکاف '' بھی تیار ہے۔ کہتے ہیں،''میں برسوں سے شاعری کر رہا تھا، مگر میرے پاس کوئی نعت نہیں تھی۔ تو ایک رمضان اسی ارادے سے اعتکاف میں بیٹھا۔ کاغذ قلم ساتھ رکھے، مگر سات روز تک ایک شعر بھی نہیں ہوا۔ بالآخر 27 ویں شب پہلا شعر عطا ہوا۔ اگلے 72 گھنٹے میں جذبۂ عقیدت سے سرشار رہا۔ 70 کے قریب نعتیں کہیں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں