میڈیا واچ ڈاگ – مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے

اسکرین پر ہنستے مسکراتے،ناچتے ہوئے،محبت کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے ہوئے وحید مراد حقیقی دنیا میں اس کے بلکل برعکس تھے


شہباز علی خان October 02, 2014
اسکرین پر ہنستے مسکراتے،ناچتے ہوئے،محبت کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے ہوئے وحید مراد حقیقی دنیا میں اس کے بلکل برعکس تھے۔ فوٹو فائل

پرانے زمانے کی بات لگتی ہے جب لوگ اپنے ہیروز سے دل سے محبت کرتے تھے ایک ہی فلم کو بار بار دیکھتے، سینما ہال میں سیٹیاں بجاتے اور جب کوئی المیہ منظر چل رہا ہوتا تو آنسو بھی بہاتے۔ اس دور میں سب کی محبتیں سمیٹنے والے ایسے بھی ایک شخص موجود تھے جنہیں آج بھی ان کی لازوال اداکاری نے زندہ رکھا ہوا ہے، جو آج بھی ہمارے دلوں کی دھڑکن میں محسوس ہوتے ہیں۔ وہ عام اداکاروں جیسا نہیں تھے جو نالائق بچوں کی طرح اسکرپٹ اٹھائے رٹا مار رہے ہوتے ہیں اور سیٹ پر قابلیت سے زیادہ اپنے اثر رسوخ سے آتے ہیں، گھنٹوں تیاری کے بعد ایک مختصر سین اور Cut کی آواز لگا کر ہانپتے کانپتے بیٹھ جاتیں۔

آج ہی کے دن 1938 ء میں کراچی میں ایک بچے نے نثار مراد اور شیریں مراد کے گھر آنکھ کھولی اور سورج کی پہلی کرن کو اپنے اندر اس طرح سمیٹا کہ پھر وہ جب تک زندہ رہے روشنی ہی بکھیرتے رہے، اور پھر 23 مارچ 1983ء کو اپنے چاہنے والوں کو اسی روشنی میں قید کر کے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ وہ 75-1960 کے فلمی دور کے بے تاج بادشاہ تھے۔ انہیں پیار سے ویدو کے نام سے پکارتے تھے۔ابتدائی تعلیم میری کولیکو اسکول سے حاصل کی اور پھر ایف ایس سی لارنس کالج اور پی اے ایس ایم آرٹس کالج سے پاس کیا ، ساتھ ہی کراچی یونیورسٹی کے انگلش لٹریچر کے ڈیپارٹمنٹ سے ماسٹرز کیا۔

ان کے والد فلم ڈسٹری بیوشن سے وابستہ تھے لہذا فلمی ستاروں کا گھر میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔بچپن میں ہی ویدو گلے میں گٹار ڈالے ناچتا کودتے اور اس سکول کے دور میں ڈراموں میں حصہ لیتے رہے۔ ان کی زندگی میں تنہائی کا عنصر بچپن سے ہی حاوی رہا شاید اس کی وجہ اس کا اکلوتی اولاد ہونا بھی تھا۔ اسکرین پر ہنستے مسکراتے،ناچتے ہوئے،محبت کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے ہوئے حقیقی دنیا میں اس کے بلکل برعکس تھے۔ ان کی زندگی ان کے بچپن کے دو دستوں پرویز ملک اور اقبال یوسف کے گرد ہی گھومتی تھی، بعدازاں یہ تینوں یکے بعد دیگرے فلمی صنعت میں آئے۔ اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے وہ بیرون ملک اعلی تعلیم کے لئے نہ جا سکے مگر پرویز ملک نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے فلم میں ماسٹرز کیا اور تب ان دونوں نے مل کر پاکستان کی فلم انڈسٹری کو عروج پر پہنچا دیا۔ نرم اتنے تھے کہ ایک بار فلم ماں بیٹا کے سیٹ پر جذباتی اداکاری کرتے سچ مچ میں رونے لگے۔ کبھی انہیں رومانوی دنیا کا بادشاہ، کبھی فلموں کا ماسٹر، کبھی سپر اسٹار کہا گیا، تو کبھی انہیں چاکلیٹی ہیرو کا خطاب دیا گیا۔ اب تو آپ جان ہی گئے ہونگے کہ کس کی بات ہو رہی ہے۔جی ہاں وحید مراد۔

وحید مراد کو اس وقت کے مشہور ہ معروف سنگر ایلوس پریسلے سے بھی تشبیہ دی گئی مگر وہ تو سب سے جدا سے ہی رہے۔ وحید مراد جو فلمی صنعت میں ایک خوشگوار جھونکا بن کر آئے زیادہ دیر ٹھہر نہ سکا۔ وہ انسان کی اس تعریف پر پورا اترتا تھا جس کا خمیر ہی محبت سے اٹھایا جاتا ہے جس نے نفرت کرنا یا نفرتیں باٹنا سیکھا ہی نہیں۔ دلیپ کمار جیسے لیجنڈ نے انہیں پاکستان کا بہترین اداکار قرار دیا، جیتندر نے برملا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ وحید مراد سے متاثر ہو کر ادکار ی کے زینوں پر چڑھتا ہوا کامیاب ہوا۔ راجیش کھنہ نے جب ان کی فلم ''شمع'' دیکھی تو بے اختیار انہیں ایشیا کا بڑا اداکار کہا اور یہ کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی بھی اس فلم میں اداکاری کر ہی نہیں سکتا تھا۔

وحید مراد نے بطور پروڈیوسر بھی بہت سے فلمیں دیں جن میں 'انسان بدلتا ہے' اور 'جب سے دیکھا ہے تمہیں' شامل ہیں، جبکہ 115 سے زائد اردو، 8 پنجابی اور ایک پشتو فلم میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس کا نام فلموں میں کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ 250 سے زائد گانے ان پر پکچرائز ہوئے اور ہر گانا بلندیوں تک پہنچا۔ مہدی حسن، احمد رشدی، اے نیر، مجیب عالم، اسد امانت علی خان، غلام عباس، رجب علی، اخلاق احمد، بشیر احمد، شوکت علی، غلام علی اور سلیم رضا کی آوازوں نے وحید مراد کو لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنا دیا۔




ان کے مشہور گانوں میں کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے، مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے، کو کو رینا، بھولی ہوئی ہوں داستان شامل ہیں۔ وحید مراد کی مشہور فلموں میں اولاد، دامن، ممتا، ہیرا اور پتھر، بہو بیگم، ڈاکٹر، عید مبارک، کنیز، ہونہار، جوش، جاگ اٹھا انسان، انسانیت، دیور بھابھی، احسان، دوراہا ، پھر صبح ہوگی اور بیشمار فلمیں شامل ہیں۔ وحید مراد ایک لیجنڈ اداکار جنہیں ہم واقعی کبھی بھلا نہ سکیں گے۔




نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔