یہ اہم کردار
حکومت کا خیال تھا کہ وہ یہ لڑائی میڈیا کے ذریعے جیت جائے گی مگر سرکار یہ بھول گئی ۔۔۔
افسوس مسلم لیگ (ن )90ء کی دہائی سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ بحران پیدا ہوا تو اس کا توڑ کرنے کے لیے اپنے 'ہم خیال' اینکروں اور کالم نگاروں کو میدان میں اتارا گیا۔ ان چنیدہ افراد نے حکومت کا مقدمہ لڑنا شروع کیا۔ یہ سرکار کی وکالت میں اتنے آگے چلے گئے کہ لوگوں میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے۔ اس دوران بڑے پیمانے پر رقوم بانٹنے اور دیگر مراعات کا ذکر بھی ہونے لگا۔ میرے نزدیک بہر حال یہ محض الزامات ہیں کیونکہ ثبوت کے بغیر نہیں کہا جا سکتا کہ کسی نے حکومت سے کچھ لیا ہے۔
حکومت کا خیال تھا کہ وہ یہ لڑائی میڈیا کے ذریعے جیت جائے گی مگر سرکار یہ بھول گئی کہ یہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں میڈیا کے چند اہم کردار اپنے ساتھ ملا کر آسانی سے مقصد حاصل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن آج میڈیا کا نیٹ ورک بہت وسیع ہے۔ تب صرف تین چار بڑے اخبارات تھے۔ آج ٹی وی چینلز کی بھرمار ہے۔ سوشل میڈیا بھی بہت بڑی طاقت ہے۔ اخبارات اور چینلز کسی حد تک کنٹرول کیے جا سکتے ہیں لیکن سوشل میڈیا مادر پدر آزاد ہے۔ یہاں کسی کا بس نہیں چلتا۔
عمران خان کے لاہور والے جلسے نے میاں صاحب کے بڑے سے بڑے حامی کو بھی مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ اس ایک جلسے نے بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کے حامیوں کو عمران خان کی شکل میں آئندہ وزیر اعظم دکھائی دینے لگا ہے۔ ن لیگ کے حامی اینکرز اور کالم نگار اپنے موقف میں تبدیلی لانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں یہ تبدیلی کچھ یوں ہے کہ ان کے تبصروں اور کالموں میں میاں صاحب اور ان کی حکومت کی حمایت کے ساتھ ساتھ تھوڑی تھوڑی غیر جانبداری کی جھلک دکھائی دینے لگی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ یہ سلسلہ چلے گا۔ حمایت حکومت کی ہو گی لیکن ساتھ ساتھ ''غیر جانبداری'' کا تڑکا بھی لگایا جاتا رہے گا۔
یہ چنیدہ لوگ تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو پر عمل کرتے رہیں گے۔ ایک دو اور بڑے جھٹکے لگنے کی دیر ہے ان کی اکثریت کو نواز شریف اور ان کے طرز حکومت میں اتنی خامیاں دکھائی دیں گی کہ مخالفین بھی حیران رہ جائیں گے۔ پتہ نہیں حالات بدل جاتے ہیں یا ایسے لوگوں کو حالات کے ساتھ بدلنا آتا ہے۔ اس فن کا مظاہرہ قوم ایک مدت سے دیکھ رہی ہے اور نجانے کب تک دیکھتی رہے گی۔ آپ دیکھ لیں مشرف حکومت کا مقدمہ لڑنے والے آج نواز حکومت کا مقدمہ بڑی مہارت سے لڑتے ہیں۔ آج کچھ سیاستدان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے مشرف دور میں صعوبتیں برداشت کیں۔ ٹھیک ہے وہ اس عمل سے گزرے ہیں لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ جس دور میں وہ صعوبتیں برداشت کر رہے تھے اس دور میں وہ دولت کمانے میں کیسے کامیاب ہو گئے۔
اس طرح کے ماہرین کا یہی کمال ہے کہ وہ ہر دور میں کامیابی کو اپنا مقدر بنا لیتے ہیں۔ آپ کو حیرت نہیں ہونی چاہیے اگر آج نواز حکومت کے شدید ترین حامی کل کی حکومت کے ساتھ ہو جائیں اور وہ آنے والے حکمرانوں کی بھی مجبوری بن جائیں۔ پہلے کہا جاتا تھا اس قوم کا حافظہ کمزور ہے آج مجھے لگتا ہے ہمارے حکمرانوں کی یادداشت بھی خاص اچھی نہیں ہے۔ میڈیا کے بڑے نام جو آج نواز شریف حکومت کے گن گاتے نہیں تھکتے کل نئے حکمرانوں کی بھی مجبوری بن جائیں گے۔ یہی کمال فن ہے۔ تبدیلی کی باتیں کرنے والوں کو یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ایسے لوگوں کے سہارے پر حکومت کرنے سے کوئی بچ سکتا ہے یا اور زیادہ مشکل میں پھنس جاتا ہے۔
یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان لوگوں نے اپنے تئیں حکومت کا مقدمہ بہت اچھے طریقے سے لڑا۔ حکومت اور ان اہم کرداروں سے مگر ایک چھوٹی سی غلطی ہو گئی۔ وہ زمینی حقائق پر نظر ڈالنا بھول گئے یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں۔ انھوں نے کئی بار یہ دعویٰ کیا کہ دھرنے اب ختم ہونے کو ہیں۔ عمران خان کی مقبولیت میں کمی کی بات بھی لاتعداد مرتبہ کی گئی۔ انھیں یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ حکمرانوں کی طرف سے ہونے والی کئی سال کی زیادتیوں کا لاوا اندر ہی اندر پک رہا تھا۔ عمران اور طاہرالقادری کے دھرنوں اور ان کی روزانہ کی تقریروں سے یہ لاوا پھٹ پڑا۔ ملک ''گو نواز گو'' کے نعروں سے گونجنے لگا۔ یہ سلسلہ بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
ایک امید تھی کہ ان حالات سے حکومت کچھ ضرور سیکھے گی لیکن بدقسمتی سے رویہ وہی پہلے والا ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کرتے تھے۔ سیاسی بحران کی وجہ سے نواز شریف مسلسل پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے لیکن خوشی سے نہیں۔ وہ ان کی مجبوری تھی۔ اتنی تنقید کے باوجود میاں صاحب نے نیو یارک جانا ضروری سمجھا۔ ان کے پاس کوئی وزیر خارجہ ہوتا تو وہ اسے جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے بھجوا دیتے۔ شہباز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کابینہ کے اجلاسوں میں اپنے وزراء سے ہاتھ تک نہیں ملاتے۔ رانا مشہود کا اتنا بڑا اسکینڈل سامنے آیا لیکن کارروائی نہیں ہوئی۔ سانحہ ماؔڈل ٹاؤن پر اب بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔
خامیاں اور بھی بہت ہیں۔ خاندانی سیاست جاری ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری کے ساتھ مذاکرات سے مسئلہ حل کرنے کے بجائے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ شیروں کے جاگنے کی بات ہو رہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر گلو، بلو اور توفیق بٹ کی طرح باقی شیر بھی جاگ گئے تو کیا ہو گا۔ مجھے تو نیا منظر نامہ یوں بنتا دکھائی دیتا ہے۔ جگہ جگہ تصادم ہو گا، گاڑیوں کے شیشے اور سر پھٹیں گے۔ پھر کیا ہو گا؟ حکومت مضبوط ہو گی یا کپتان کا کاز مزید آگے بڑھے گا۔ دھرنوں کے بعد ایک بات تو طے ہو گئی ہے کہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے گھما پھرا کے ہی سہی مڈ ٹرم الیکشن کی بات کر دی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری ناراض کارکنوں سے معافی مانگ چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو احساس ہو گیا ہے کہ وہ سوئی رہی تو کپتان اس کے مضبوط قلعہ میں شگاف ڈال دے گا۔ جماعت اسلامی بھی جلسے شروع کر چکی ہے۔ ممکنہ تبدیلی کا احساس ہر جگہ ہے۔ اگر کوئی پارٹی اپنا رویہ تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں تو وہ مسلم لیگ ن ہے۔ حکومت کو اس حال تک پہنچانے والے وزراء آج بھی پردھان بنے ہوئے ہیں۔ یہی طرز عمل رہا تو تبدیلی آنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ الیکشن شاید مقررہ وقت پر ہی ہوں لیکن یہ سیٹ اپ نہیں رہے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت 1990ء کی دہائی سے باہر نکلے۔ موجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھا جائے۔ میڈیا کے ذریعے یہ لڑائی نہیں جیتی جا سکتی۔ جنگ جیتنے کے لیے حکمت عملی تبدیل کرنا پڑے گی۔ کیا نواز شریف اس کے لیے تیار ہیں؟ بظاہر تو ایسا نہیں لگتا۔
حکمران اور کچھ نہیں کر سکتے تو گلو بٹ کی طرح اپنا حلیہ ہی بدل لیں۔