مرحلہ وار انقلاب
ارسطو اپنے استاد افلاطون کے خیالات کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھتا تھا۔ ۔۔۔
انقلاب کا مطلب ہی ہوتا ہے کہ کیفیتی تبدیلی، یعنی برف پانی بن جائے یا پانی بھاپ بن جائے۔ 90 ڈگری سینٹی گریڈ کی حرارت اگر 110 میں تبدیل ہوجائے تو اسے مقداری تبدیلی کہتے ہیں۔ مکمل تبدیلی یعنی اس کی ہیئت ہی بدل جائے تو اسے کیفیتی تبدیلی کہتے ہیں۔ کیفیتی تبدیلی کو ہم نے انقلاب سے منسوب کیا ہے۔
لہٰذا معلوم تاریخ میں غلامانہ نظام کے خلاف انقلاب آیا تو اسے جاگیرداری کہا گیا اور جاگیرداری کے خلاف انقلاب آیا تو اسے سرمایہ داری کہا گیا اور اب سرمایہ داری کے خلاف جو نظام آئے گا، وہ امداد باہمی، اشتمالی، کمیونسٹ یا عوامی پنچایتی نظام ہوگا یا پھر اس کا نام جو بھی رکھ لیں مگر ہوگا یہ نسل انسانی کی برابری کا نظام۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عوامی یا قومی جمہوری انقلاب کے مرحلے سے گزر کر سوشلسٹ انقلاب آئے گا اور پھر سرمایہ داری کا خاتمہ ہوگا، جب کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ سوشلزم کے عبوری دور سے گزرنے کے بعد ہی کمیونزم آئے گا۔ مگر یہ دونوں مکتبہ فکر کے دانشور اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ریاست کے وجود کو قائم رکھتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب آئے گا۔
ارسطو اپنے استاد افلاطون کے خیالات کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ افلاطون میرے لیے بہت پیارے ہیں لیکن نظریہ اس سے بھی پیارا ہے۔ اس نظریے پر لینن، ٹراٹسکی، ماؤ، اسٹالن، کاسترو، کم ال سنگ اور شاویز سب چلے۔ پہلی انٹرنیشنل میں میخائل الیگزینڈر باکونن اور کارل مارکس دونوں شریک تھے، جب کہ جرمن فلسفے کے بابائے آدم ہیگل سے پرودھون، باکونن، مارکس، اینگلز، پیترکرو پوتکن سب متاثر تھے۔ پہلی انٹرنیشنل (1864-67) باکونن،گوئیلم، مارکس اور اینگلز ساتھ تھے۔
انٹرنیشنل کی 1872 کی 5 ویں کانگریس منعقدہ ہیگ میں باکونن اور مارکس میں اختلاف ہوا، چونکہ باکونن اس کانگریس میں پہنچ نہیں پائے تھے تو انھیں اور ان کے ساتھیوں کو انٹرنیشنل سے نکالا گیا، جب کہ باکونن کا کہنا تھا کہ کانگریس میں سازش کی گئی اور کمیونسٹ انقلاب کے بجائے اجارہ داری سوشلزم یا پرولتاری آمریت کے موقع پرست نظریہ کو اپنایا گیا، اس کے بعد باکونن نے سوئٹزرلینڈ کے شہر سینٹ ایمائر میں 1972 میں ہی دنیا کی سب سے بڑی انٹرنیشنل کا انعقاد کیا۔ باکونن کا موقف تھا کہ انقلاب کے بعد اسٹیٹ لیس سوسائٹی یعنی ریاست کے خاتمے کا اعلان کردیا جائے اور ریاست کی جگہ وہ سارے کام جو ریاست کرتی ہے، انھیں پیشہ ورانہ، علاقائی اور مقامی بنیادوں پر خودکار انجمنوں اور عوامی کمیٹیوں سے کروائے جائیں۔
ایما گولڈمان جب 1917 میں انقلاب روس کے بعد امریکا سے جلاوطن کی گئیں تو روس آگئیں، وہ عمر میں لینن سے بڑی تھیں۔ لینن نے انھیںملاقات کے لیے دعوت دی اور وہ اپنے ایک کامریڈ ساشا کے ساتھ ملنے گئیں۔ جب لینن سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ میں سات دروازوں پر سلامی لیتی اور تلاشی دلواتی ہوئی آ رہی ہوں، تمھاری یہ ریاست نہیں چل سکتی، اس لیے کہ یہ عوامی طریقہ ہے اور نہ ریاست عوام کے لیے فلاحی ادارہ بن سکتا ہے۔ لینن نے انھیں کہا کہ 'آپ ہمارا ساتھ دیں' جس پر ایما گولڈمان نے کہا کہ نہیں آپ نے ہمارے ہزاروں انارکو کمیونسٹوں کو مقید کر رکھا ہے، ہڑتالوں پر پابندی لگا رکھی ہے، ہڑتالیوں پر تشدد کیا جارہا ہے، ہم آپ کا ساتھ نہیں دے سکتے۔
واضح رہے کہ 1917 سے 1920 تک بالشویک اور انارکسسٹ مل کر زار شاہی کی سفید فوج اور مینشویکوں کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے رہے اور جب زار شاہی کی فوج کو شکست دے دی تو بعد میں وہی بالشویک کی چیکا (خفیہ پولیس) انارکسسٹوں پر مظالم ڈھاتی رہی۔ عظیم انقلابی رہنما پیتر کرو پوتکن نے جو کہ زار کے بھائی تھے، بادشاہت کو لات ماری اور انقلاب روس کی عملی جدوجہد میں شریک ہوگئے، اسی رہنما کرو پوتکن کو 1917 سے 1920 تک یعنی ان کے انتقال تک انھیں اپنے فارم ہاؤس میں مقید رکھا گیا، ان سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں تھی، ان کے انتقال پر بڑی مشکل سے ٹراٹسکی نے چند کامریڈوں کو جیل سے جنازے میں شرکت کے لیے اور ایک پمفلٹ نکالنے کی اجازت دی (حوالہ سرخ رو، ایماگولڈمان)۔ باکونن، پیترکرو پوتکن اور گوئیلم کا موقف تھا کہ ریاست کے خاتمے کے بغیر کوئی انقلاب کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ہے اور یہ بات 70 سال بعد عملی طور پر ثابت ہوگئی۔
چین سے روس تک، پھر ہند و چین (ویتنام، لاؤس اور کمبوڈیا) کوریا، منگولیا، مشرقی یورپ، اسٹونیا، لٹویا، لیتھونیا یعنی بالٹیک ریاستیں، کوہ قاف، وسطی ایشیا اور عرب ممالک عراق، لیبیا، الجزائر اور جنوبی یمن یہ سب سوشلسٹ ممالک کہلاتے تھے، یعنی کہ آدھی دنیا سے بڑی آبادی سوشلسٹ ریاستوں کی لپیٹ میں تھی۔ اگر ان کی سرحدیں ختم کردی جاتیں تو آج ساری دنیا ایک ہی خاندان کے طور پر زندگی بسر کررہی ہوتی۔ دنیا کی ساری دولت اور وسائل سارے لوگوں کے ہوتے۔ یہ اس لیے ایسا نہیں ہو پایا کہ ریاست کو برقرار رکھا گیا اور ریاست جبر کا ادارہ ہوتا ہے، جبر سرمایہ دار کرے یا پرولتاریہ، جبر میں طبقات جنم لیتے ہیں، ویسے بھی سوشلسٹ ریاست میں طبقات (کسی اور شکل میں) کے وجود رہنے کی وجہ سے سرمایہ داری ابھر کر آنا ناگزیر ہوتا ہے۔ اس لیے کہ طبقات ہی ریاست کو جنم دیتی ہے، ہر چند کہ سوشلزم میں سرمایہ داری کے مقابلے میں عوام کو بنیادی سہولتیں ضرور ملتی ہیں ۔
جس طرح سوشل ڈیمو کریسی میں کٹر سرمایہ داری کے مقابلے میں کچھ زیادہ ویلفیئر ملتا ہے۔ سوشلزم سے گزر کر اگر کمیونسٹ نظام قائم ہوسکتا تو کسی نہ کسی ملک میں خواہ روس ہو، منگولیا، کوریا، ویتنام، چین یا پھر مشرقی یورپ یا کیوبا میں ہوتا۔ کہیں بھی سوشلزم کا عبوری مرحلہ ختم نہیں ہوسکا اور نہ ہوسکتا ہے، اس لیے کہ ریاست کی موجودگی میں رد انقلاب کی توقع تو کی جاسکتی ہے لیکن کمیونسٹ سماج کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ روسی انقلاب سے قبل جو کام زار شاہی کے خفیہ ادارے کرتے تھے وہی کام انقلاب کے بعد چیکا (روسی خفیہ پولیس) کرتی تھی۔ اذیت، جبر، تشدد اور قتل کی آہ و بکا سن سن کر زار شاہی کی طرح لینن اور ٹراٹسکی کے کان بھی عادی ہوگئے تھے۔
دنیا کے بڑے واقعات، انقلاب فرانس ہو یا پیرس کمیون، شکاگو کی مزدور تحریک ہو یا انقلاب روس، اسپین کی عوامی جنگ ہو یا وال اسٹریٹ قبضہ تحریک، ان سب انقلابات کی رہنمائی عوام نے خود کی اور فوائد حاصل کیے ہیں۔ جہاں جماعتیں اور قائدین مخل ہوئے وہیں انقلاب ناکام ہوا۔ لیڈر لیس ریولیشن ہی اسٹیٹ لیس کمیونزم یا انسانی برابری کا سماج قائم کرسکتا ہے۔ یہ انقلابی ریلے جنوبی یورپ اور لاطینی امریکا میں تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے۔ دنیا کے پیداواری کارکنوں، محنت کش عوام اور شہریوں کے مسائل کا واحد حل ایک عالمی کمیونسٹ یا امداد باہمی کی بے ریاستی سماج میں مضمر ہے۔ سچے جذبوں اور نظریے کی قسم کہ جلد یا بدیر ایک آسمان تلے ایک خاندان ہوگا، کوئی طبقہ اور نہ کوئی ریاست۔