احمد داؤد اوغلو نئے ترک وزیراعظم کے دور میں ترکی کیسا ہوگا
احمدداؤداوغلو ایسی جماعت کے رکن ہیں جس کے بانی اور موجودہ صدر مملکت طیب اردگان کواسرائیل نے یہودمخالف شخصیت قراردیاتھا
احمد داؤد اوغلو متعدد کتب کے مصنف بھی ہیں فوٹو : فائل
دو برس قبل، دسمبر کی ایک شام ، ترک دارالحکومت انقرہ کی یلدرم بایزید یونی ورسٹی کے اتاترک ٹیچنگ اینڈ ریسرچ ہسپتال میں اس وقت کے ترک وزیرخارجہ احمد داؤد اوغلو غزہ سے یہاں پہنچنے والے زخمی فلسطینیوں کی بری حالت دیکھ کر زاروقطار روپڑے۔ یہ تمام زخمی اسرائیلی جارحیت کا شکارہوئے تھے۔یہ منظرعجیب تھا، کیونکہ اس سے پہلے فلسطینیوں کی حالت زار دیکھ کر کسی مسلمان بالخصوص عرب حکمران کو رونا تو دور کی بات، ترس بھی نہیں آتاتھا۔
وزیرخارجہ احمد داؤد اوغلو اپنی اہلیہ سارہ داؤداوغلو کے ہمراہ ایک ایک بستر پر جارہے تھے، زخمیوں کو ہمت، تسلی کی تلقین اور جلد صحت یابی کی دعا دے رہے تھے، لیکن جب وہ ایک فلسطینی خاتون مونا الشوا کے پاس پہنچے تو اس کی کہانی سن کر احمد اوغلو پھوٹ پھوٹ کر رودیئے۔ مونا کی 15سالہ بیٹی اسرائیلی بمباری میں شہید ہوگئی تھی۔ وزیرخارجہ نے عثمانی دور کے فلسطین کی تصاویر پرمشتمل ایک کتاب اور ترک پرچم مونا کو پیش کیا۔ فلسطینی خاتون نے ترک پرچم کو تین بار بوسہ دیا۔ اس سے پچھلے نومبر میں جب احمد داؤد اوغلو نے غزہ کا دورہ کیا، تب بھی فلسطینیوں پر مظالم دیکھ کر ان پر رقت طاری ہوگئی تھی، وہ مونا الشوا کی شہید بیٹی کی میت کے اوپر جھکے ہوئے تھے اور زاروقطار رو رہے تھے، ان کی یہ تصاویر ترک اخباروں کے صفحہ اول پر شائع ہوئی تھیں۔ تب انھوں نے مونا کو قرآن مجید کا ایک نسخہ تھماتے ہوئے کہا تھا:''آپ کی بیٹی ترکی کی بیٹی ہے''۔
احمدداؤد اوغلو ایک ایسی جماعت کے اہم ترین رکن ہیں جس کے بانی اور چند روز پہلے تک سربراہ طیب اردگان کو 2009ء میں اسرائیلی وزارت خارجہ نے باقاعدہ طورپر یہودمخالف شخصیت قراردیاتھا۔ سبب یہ ہے کہ 1974ء میں انھوں نے ایک ڈرامہ میں ہدایت کاری اور اداکاری کی تھی، جس کا نام تھا'' "Mas-Kom-Ya" ''۔ اس میں فری مشنری ، کمیونزم اور یہودیت کو برائی قرار دیا گیا تھا، یہی طیب اردگان تھے جنھوں نے2009ء میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں اس وقت کے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کو کھری کھری سنادی تھیں، انھوں نے کہاتھا:'' مسٹر پیریز! آپ مجھ سے عمر میں بڑے ہیں، مجھے یاد ہے کہ آپ نے ساحل پر بچوں کو قتل کیا''۔
اس پر پروگرام کے کمپیر نے کھانے کے وقت کا بہانہ کرکے جناب طیب اردگان کو تقریر ختم کرنے کو کہا ، اس پر ترک وزیراعظم نے یہ کہتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کردیا کہ اسرائیلی صدر کو تقریرکا زیادہ وقت دیاگیا جبکہ انھیں کم۔ انھوں نے آئندہ کبھی اس اجلاس میں شریک نہ ہونے کا اعلان کردیا۔
بعدازاں صہیونیت کو انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب بھی قراردیتے رہے، اسی طیب اردگان کے دورمیں اسرائیل پہلی بار دنیا میں تنہا ہوا اور تاریخ میں پہلی بار دنیا کے مختلف ممالک نے غزہ جارحیت کے ردعمل میں اسرائیلی سفیروں کو اپنے ملکوں سے نکال باہر کیاتھا اور یہ بھی تاریخ میں پہلی بارہواتھا کہ فریڈم فلوٹیلا کے واقعے کے بعد اسرائیل کو ترکی سے معافی مانگنا پڑی تھی۔ نئے ترک وزیراعظم احمد داؤداوغلو اردگان کی فکر اور طرزعمل ہی کا تسلسل ہیں۔
گزشتہ پانچ برس وزیر اعظم اردگان کے ساتھ وزیر خارجہ کے فرائض انجام دینے والے احمد داؤد اوغلوکی فکراور پالیسی کو دیکھتے ہوئے تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ 'نیوعثمان ازم' ان کی خارجہ پالیسی کا عنوان ہے۔ بعض حلقے ان کی پالیسی کو پان اسلامسٹ فارن پالیسی قراردیتے تھے جبکہ بعض حلقے ان کی پالیسی کو مغرب نواز بھی قراردیتے رہے ہیں۔
چھبیس فروری 1959ء میں ترکی کے صوبہ قونیہ کے شہر تاشقند میں پیدا ہونے والے احمد داؤد اوغلو والد کے چاربچوں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے استنبول میں قائم ایک جرمن انٹرنیشنل سکول سے گریجویشن کی، بعدازاں استنبول ہی کی بوغازیچی یونیورسٹی سے اکنامکس اور پالیٹیکل سائنس میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ پھر پالیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل ریلیشنز میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔1993ء سے 1999ء تک وہ مرمرا یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے، 1999 میں مکمل پروفیسر بنے۔ پھر وہ بیکانت یونیورسٹی استنبول میں انٹرنیشل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی رہے۔ 1995ء سے1999ء تک ایک ترک ہفت روزہ میں کالم بھی لکھتے رہے۔
سارہ ان کی اہلیہ ہیں،1984ء میں شادی ہوئی، وہ گائناکالوجسٹ ہیں۔ احمد داؤداوغلو متعدد کتب کے مصنف ہیں جن میں Strategic Depth ترکی کی خارجہ پالیسی کو سمجھنے کے لئے خاصی موثرکتاب سمجھاجاتاہے۔ یہ کتاب یونان میں جولائی2010ء میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب قرارپائی۔ ان کی دیگرکتابوں میں Alternative Paradigms: The Impact of Islamic and Western Weltanschauungs on Political Theory بھی شامل ہے اورCivilizational Transformation and the Muslim World بھی۔ ایک کتاب The Global Crisis بھی ہے۔
فوج، تعلیمی اداروں اور وزارت خارجہ میں احمد داؤد اوغلو کا خاصا اثرورسوخ ہے۔انھیں انگلش، جرمن اور عربی زبانوں پر بھی عبور حاصل ہے۔ وہ 2003ء میں وزیرِاعظم اردگان کے مشیر برائے خارجہ پالیسی کی حیثیت سے جسٹس پارٹی میں شامل ہوئے، جس کے بعد 2009 ء میں انہیں ملک کا وزیرِ خارجہ مقرر کیا گیا اور 2014ء میں وزیراعظم۔
قریباً ڈیڑھ عشرے سے ترکی پر حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے طیب اردگان کے صدرمملکت منتخب ہونے کے بعد احمد داؤداوغلو کو نہ صرف وزارت عظمیٰ کے لئے منتخب کیا بلکہ پارٹی صدارت بھی انہی کے حوالے کردی۔ سبب یہ ہے کہ ترکی کے آئین کے مطابق تین مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے والے طیب اردگان بحیثیت صدرکسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں رکھ سکتے۔وہ ترک جمہوریہ کے پہلے صدر ہیں جن کا انتخاب اراکین پارلیمان کے بجائے براہِ راست عوام کے ووٹوں سے عمل میں آیا ہے۔
احمدداؤداوغلو کانام اس وقت سے اردگان کے جانشین کے طورپر گونج رہاتھا،جب سے سابق وزیراعظم نے صدرکا انتخاب لڑنے کا اعلان کیاتھا۔ اوغلو کی بطور وزیرِاعظم اور پارٹی سربراہ نامزدگی کا اعلان بھی خود طیب اردگان نے کیا اورکہا کہ انہوں نے یہ فیصلہ طویل مشاورت کے بعد کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بطور وزیرِ خارجہ سخت محنت اور کارکردگی کے باعث اوغلو اس انتخاب کے حق دار تھے اور انہیں ا مید ہے کہ وہ وزیرِاعظم بننے کے بعد بھی ملک کی اس ''باشعور خارجہ پالیسی'' کو جاری رکھیں گے، جس پر وہ ماضی میں کاربند رہے ہیں اور اے کے پارٹی کے ''نئے ترکی'' کے قیام کے خواب کو آگے بڑھائیں گے۔ احمد اوغلو نے بھی اردگان کے کام اور مشن کو جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ترکی کی نشاۃِ ثانیہ کی 12برس قبل شروع ہونے والی تحریک کو جاری رکھیں گے جس نے یورپ کے ''مردِ بیمار'' قرار دیے جانے والے ترکی کو ایک علاقائی طاقت بنادیا ہے۔ احمد اوغلو کا کہنا تھا کہ کامیابیوں سے بھرپور اے کے پارٹی کا سفر اپنی منزل تک پہنچے گا اور حقوق اور جمہوریت کے لیے پارٹی کی جدوجہد جاری رہے گی۔
ترک تجزیہ کاروں کے خیال میں 55 سالہ اوغلو اردگان کے قریب ترین اور انتہائی قابلِ اعتماد ساتھی ہیں۔ انھوں نے حالیہ برسوں میں ترک سیاست میں آنے والے اتار چڑھاؤ اور پیش آنے والے مختلف بحرانوں میں وزیرِاعظم اردگان کا مکمل ساتھ دیا۔جناب اوغلوکو ترکی کی نئی خارجہ پالیسی کا معمار سمجھا جاتا ہے۔
جس کا ہدف خطے کے ملکوں خصوصاً عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہے، جو ماضی میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کا حصہ رہ چکی ہیں۔ انھوں نے پڑوسی ملکوں کے ساتھ بھی 'زیرو پرابلم' پالیسی اختیار کی۔
سوال یہ ہے کہ احمد داؤداوغلو بطوروزیراعظم کیسے ثابت ہوں گے؟ ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ طیب اردگان کی نسبت ایک کمزور وزیرِاعظم ثابت ہوں گے، سبب یہ ہے کہ روایتی سیاست دان ہیں نہ ہی ان کا کوئی حلقہ انتخاب ہے۔طیب اردگان نے ان کی اسی کمزوری کے باعث انھیں وزارت عظمیٰ کے منصب اور پارٹی صدارت پر بٹھایاہے۔ اردگان بطورصدرسابقہ صدور کی نسبت زیادہ اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔
طیب اردگان اعلان کرچکے ہیں کہ آئندہ سال پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کی صورت میں اے کے پارٹی ملک میں نیا آئین متعارف کرائے گی، جس میں ملک کا نظامِ حکومت پارلیمانی سے صدارتی کردیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایسا ہونے تک احمد اوغلو اردگان کی توقعات پر پورا اتریں گے اور ایک طاقت ور صدر کے تحت کمزور وزیرِاعظم کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔
مخالفین کو سخت خوفزدہ کرنے والے احمدداؤد اوغلوکا کہناہے کہ 2015ء کے عام انتخابات کے بعد ان کی سب سے بڑی ترجیح ایک نیاآئین ہوگا۔ انھوں نے اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دی ہے کہ وہ بھی اس عمل کا حصہ بنیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی نظام میں چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم کمزور ہے ۔
اس میں بہت سے رخنے موجود ہیں جبکہ موجودہ صورت حال میں سیاسی عمل میں لوگوں کی شرکت بھی کم ہے، سبب متعدد رکاوٹیں ہیں۔ نیا آئین ان رکاوٹوں کو دور کرے گا اور جمہوری نظام کو مزیدمضبوط کرنے کی ضمانت دے گا۔ نئے آئین میں مزید آزادیاں دی جائیں گی، شہریوں کی فلاح وبہبود کا دائرہ بڑھایاجائے گا۔ تاہم اپوزیشن کا کہناہے کہ داؤداوغلو کے حقیقی عزائم مصطفی کمال اتاترک کے اصولوں کاخاتمہ اور آزاد عدلیہ کو غلام بناناہے۔
تاہم ماہرین کاکہناہے کہ بحیثیت وزیرخارجہ ان کا ریکارڈ ظاہر کرتاہے کہ وہ ایک موثر اور مضبوط وزیراعظم ثابت ہوں گے۔ وہ ایسے وزیرخارجہ نہیں تھے جو محض حکومت کی طے کردہ خارجہ پالیسی پر آنکھیں بند کرکے چلتے رہے تھے بلکہ جب وہ اس منصب پر فائزنہیں ہوئے تھے، اس سے بہت پہلے وہ ایک مضبوط اور موثر خارجہ پالیسی کی فکر فراہم کررہے تھے۔ ثبوت ان کی کتب ہیں جن میں سے ایک 'آلٹرنیٹوپیراڈائمز' ہے جو1993میں شائع ہوئی۔ 'سویلائزیشنل ٹرانسفرمیشن اینڈ دی مسلم ورلڈ'کے عنوان سے کتاب1994میں شائع ہوئی، 'سٹریٹیجک ڈیپتھ 'کے نام سے کتاب2001ء میں آئی۔ اسی طرح ان کی دو ترک زبان میں کتابیں جن میں سے ایک عثمانی دور سے متعلق ہے اور دوسری گلوبل کرائسز پر، بھی ان کی فکر کی غمازہیں۔ یہ کتابیں 2005ء سے پہلے شائع ہوئی تھیں۔ اس اعتبار سے نئے ترک وزیراعظم ایک وژنری شخصیت ہیں۔ طیب اردگان کی ٹیم میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو محض 'کارکن ' نہیں بلکہ اپنی اپنی جگہ پر فکری اورقائدانہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
بلاشبہ طیب اردگان اپنے دور وزارت میں ترکی میں اسلامائزیشن کے عمل کو آگے بڑھاتے رہے ہیں۔ انھوں نے ترک معاشرے میں مذہبی آزادیوں کو فروغ دیا۔ مثلاً حجاب کا اہتمام کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کے لئے سرکاری اداروں کے بند دروازے کھولے۔ 70فیصد ترک ان کے ایسے اقدامات کی حمایت کرتے تھے۔ یقیناً نئے وزیراعظم اپنے پیشرو سے زیادہ تیزی سے اس ایجنڈے پر عمل کریں گے جسے مخالفین اسلامائزیشن یا نیوعثمان ازم کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سارہ داؤد اوغلو...ترک میڈیا کا نیاشکار
وزیراعظم احمد داؤد اوغلوکی اہلیہ ڈاکٹرسارہ کے بارے میں بھی مخالفین خوب پروپیگنڈا کررہے ہیں، ان کا کہناہے کہ ڈاکٹرسارہ کے اسلامی حلقوں میں مضبوط رابطے ہیں۔ وہ استنبول کے ایک سرکاری ہسپتال میں ملازمت بھی کرتی ہیں اور اپنا پرائیویٹ کلینک بھی چلاتی ہیں۔ طیب اردگان کی بیٹی ڈاکٹرسارہ کی مریضوں میں شامل ہیں۔ وہ مدرسہ تعلیمی نظام کی مداح ہیں، وہ مریضوں کو ایسی ادویات تجویزنہیں کرتیں، جن میں سور اور بندر کے جسم سے حاصل ہونے والے مادے شامل کئے جاتے ہیں۔
اسی طرح وہ اسقاط حمل پالیسی کی مخالف ہیں۔ مردوں سے ہاتھ نہیں ملاتیں۔ اس صدی کے پہلے عشرے کے اوائل ، جب سے احمد داؤداوغلو بین الاقوامی امور کے ماہر کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں، 2009ء میں ان کے وزیرخارجہ بننے تک ، میڈیا میں ان کے بیوی بچوں کی تصاویر شائع نہیں ہوئی تھیں۔احمد اوغلو کی بطور وزیرخارجہ تقرری کے بعد پارلیمان میں منعقدہ تقریب میں ان کی اہلیہ نے شرکت کی ، تب لوگوں نے انھیں دیکھا۔ جب فوٹوگرافر نے ان کی اور بیٹی کی تصویر اتارنا چاہی تو دونوں نے اپنے چہروں کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا کیونکہ وہ اب بھی منظرعام پر آناپسند نہیں کرتیں۔ سارہ داؤداوغلو کوترک میڈیا اور سیکولرحلقوں کی طرف سے ایسے حملوں کا سامنا ہے جن کا واسطہ طیب اردگان اور عبداللہ گل کی بیگمات کو نہیں تھا۔
دونوں سابقہ خواتین اول کو سکارف کا اہتمام کرنے پر مظلوم، ناخواندہ اور دقیانوسی کہاجاتا تھا لیکن موجودہ وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کو ایسا ''طاقتورجوڑا'' کہا جا رہا ہے جسکی مثال ترک سیاست میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔