بات کچھ اِدھر اُدھر کی استاد تجھے سلام

روسٹرم پرآکر چند رٹی رٹائیں کتابی باتیں کرنااورمارکرسے بورڈ پر کچھ لکیریں کھینچ کر سمجھانے والا استاد نہیں ہوسکتا۔


اویس حفیظ October 05, 2014
یہ اِس قوم کا المیہ ہے کہ یہاں استاد سے تعلیم کے علاوہ سارے کام لیے جاتے ہیں پھر چاہے بات ہو پولیو مہم کے دوران ڈیوٹی سرانجام دینے کی یا پھر الیکشن میں اپنی خدمات پیش کرنے کی۔ فوٹو اے ایف پی

FAISALABAD: عالم انسانیت کے لئے یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ آج استاد کی عظمت اجاگر کرنے کیلئے بھی ایک دن موسوم کرنا پڑتا ہے۔اقوام متحدہ، یونیسیف اور عالمی ادارۂ صحت کے زیر اہتمام عالمی سطح پرایک سال میں تقریباً 118 دن منائے جاتے ہیں اور جائے افسوس یہ ہے کہ آج اساتذہ کا شمار بھی ان 118 دنوں شامل ہے جن کی قدر و اہمیت اجاگر کرنے کی آج ضرورت ہے۔

ہر وہ شخص جو روسٹرم پر آ کر چند رٹی رٹائیں کتابی باتیں کرنا اور مارکر سے بورڈ پر کچھ لکیریں کھینچ کر سمجھانا شروع کر دے ، میرے نزدیک استاد کہلانے کا حقدار نہیں ہے۔استاد تو وہ ہے جو رٹانے سے بڑھ کر پڑھائے، پڑھانے سے پڑھ کر سمجھائے اور سمجھانے سے بڑھ کر سکھائے۔نصابی و کتابی باتیں تو بہت سے لوگ پڑھا سکتے ہیں مگر حقیقی استاد وہی ہے جو کسی کو زیست و عالم کے اسباق پڑھا، سمجھا اور سکھا سکے۔

ہم نے تو استاد لفظ کی بھی حرمت پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ آج ایک مکینک کو بھی ''استاد'' کہا جاتا ہے ۔اگرچہ مکینک ہونا کوئی بری بات نہیں اوراس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایک مکینک بھی اپنے شعبے کا استاد ہوتا ہے مگر ہمیں ''ماسٹر'' اور ''ٹیچر'' میں فرق کرنا سیکھنا ہو گا۔جب تک ہم ماسٹر و ٹیچر کا فرق واضح نہیں کریں گے اُس وقت تک ہم اپنے معاشرے میں اساتذہ کا تقدس بحال نہیں کر سکیں گے۔ہمارے ہاں اساتذہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔''واٹر کینین'' کا استعمال بھی کراچی میں سب سے پہلے اپنے حق کی خاطر آواز بلند کرنے والے اساتذہ پر ہی کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کہیں اساتذہ پولیو مہم کے دوران کی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں، کہیں یہ الیکشن میں اپنی خدمات پیش کرتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے سرکاری کام اور سروے وغیرہ کروانے کیلئے بھی اگر حکومت کی نظر کسی شعبے پر پڑتی ہے تو وہ درس و تدریس کا مکرم و محترم شعبہ ہی ہے۔مقام استاد کو اس نہج پر پہنچانے میں جہاں اور بہت سے عوامل ہیں وہیں پر کہیں نہ کہیں اس میں خود اساتذہ کا بھی حصہ ہے۔ہر سکول، کالج، یونیورسٹی میں آپ کو ایسے استاد ضرور مل جائیں گے کہ جن پر ''ایک مخصوص صنف کی''جانبداری کا الزام ہو گا۔اگرچہ کچھ الزامات محض ''کاروباری'' رقابت کے باعث لگائے جاتے ہیں مگر بہت سوں میں حقیقت کے رنگ میں بھرے ہوں گے لیکن کیا کچھ مثالوں کی بنیاد پر اِس مقدس پیچے کو بدنام کرنا کیا ٹھیک کام ہے؟

کیونکہ اِس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پروفیسر کہلوانے کے شوق میں بہت سے ایسے بھی افراد اساتذہ کی صفوں میں در آئے ہیں جنہیں استاد کہنا بھی اس پیشہ پیغمبری سے بے وفائی کرنے کے مترادف ہے۔ہر شخص چند کتابیں پڑھنے کے بعد یہ گمان کر لیتا ہے کہ وہ استاد بننے کے قابل ہو گیا ہے اوروہ کسی کالج یا یونیورسٹی میں پڑھانے کی کوششیں شروع کر دیتا ہے۔(اگرچہ ایسی ہی اک دبی دبی خواہش کے شرارے ہمارے دل میں بھی ارمانوں کی راکھ تلے دفن ہیں لیکن ہم تو ۔۔۔ہم ہیں)۔ یہ ایک طرف طالبعلموں کے ساتھ ظلم ہے اور دوسرا ملکی ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بھی ہے اور اس بگاڑ میں نجی تعلیمی سیکٹر نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ کسی یونیورسٹی میں ایک آدھ کلاس پڑھانے والا بھی خود کو پروفیسر سمجھنے لگتا ہے مگر بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ پروفیسر بننے کا اصل ''کرائی ٹیریا '' کیا ہے۔لوگوں کی عمر پڑھاتے پڑھاتے بیت جاتی ہیں مگر وہ پروفیسر کے معیار تک نہیں پہنچ پاتے اور آخر میں اسسٹنٹ پروفیسر یا ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں۔

ان سب باتوں کا مطلب قطعی یہ نہیں ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں اچھے استاد نہیں ملے بلکہ ہمیں تو ہر استاد ہی ''سکھانے ولا''ملا ۔ جو اور کچھ نہ سکھا سکا کم از کم ہمیں ''استادی'' ضرور سکھا کر گیا۔اسی باعث ہم آج اپنے تمام اساتذہ کے ممنون و مشکور ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی میں بے شمار لوگوں سے پالا پڑتا ہے مگر بہت کم اس مقام پر فائز ہوتے ہیں جہاں وہ کسی کو کچھ سکھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ہمیں بھی آج اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے یہ تسلیم کرنا ہے کہ ہم نے اپنے اساتذہ سے جو کچھ سیکھا ہے اگر وہ ہمیں نہ ملتے تو شاید ہماری زندگی میں ایک بہت بڑا خلا رہ جاتا جو کبھی بھی پورا نہ ہو سکتا۔
استاد تجھے سلام! بار بار سلام!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں