خیر مانگتا ہوں
ہمارے حکمران جو بلٹ پروف اور ایئر کنڈیشنڈ وی آئی پی کارواں کے ساتھ سفر کرتے ہیں نہ معلوم کیوں ہموار بلکہ فٹ پاتھوں۔۔۔
تین ہفتے لندن میں گزار کر واپس آ چکنے کے باوجود اور کسی گورے کا مہمان ہونے نہ ہی اس کے مکان کی دہلیز ٹاپنے کے باوجود میں ذہنی طور پر اس کے فٹ پاتھوں، گلیوں، سڑکوں، بسوں، ٹرینوں، دکانوں، ریستورانوں، مارکیٹوں، تفریح گاہوں، بس اسٹاپوں، سائیکل ٹریکوں اور ٹریفک سگنلز کو نہیں بھول پایا۔
حقوق اللہ کا اپنا مقام ہے وہ قادر و خالق ہے اور جزا و سزا کے فیصلے کرنے پر قدرت رکھتا ہے لیکن حقوق العباد جنھیں بلا شبہ اسی نے حقوق اللہ سے افضل قرار دیا ہے ان پر فیصلہ کرنا اپنے بندوں پر چھوڑ دیا ہے کیونکہ ان کا طے کرنا بندوں کے مابین ہے اور ان ہی کی صوابدید پر اسی غرض سے رکھا گیا ہے کہ متاثرہ شخص چاہے تو زیادتی کرنے والے کا احتساب کرے اور چاہے تو معاف کر دے۔
یہ تحریر پڑھنے والا شاید ہی کوئی شخص ہو گا جو گھر سے باہر پیدل چلا جا رہا ہو اور کوئی دوسرا اس سے ٹکرایا نہ ہو۔ میں بھی چند روز قبل سیدھی راہ ایک فٹ پاتھ پر چلا جا رہا تھا کہ سامنے سے آنے والے شخص نے کسی دوسری سمت دیکھتے ہوئے اچانک پلٹا کھایا اور مجھے ٹکر دے ماری اور لطف کی بات کہ نہ رکا اور نہ معذرت کی۔ بازار یا مارکیٹ میں ایسا اکثر دیکھنے کو ملتا ہے اور ایک بار تو میں نے ٹکر مارنے اور کھانے والے میں باقاعدہ گھونسوں تھپڑوں سے لڑائی ہوتے بھی دیکھی۔
لندن ایک مصروف شہر ہے یہ بتانے کی مجھے ضرورت بھی نہیں کہ اب پاکستان کا ہر تیسرا شخص جسے ملک سے باہر جانے کا موقع ملا وہ لندن ضرور گیا ہے اور یہاں سے شروع شروع میں محنت مزدوری کے لیے برطانیہ جانے والوں کی اب تیسری نسل وہاں آباد ہے۔ یہاں البتہ بتانا یہ مقصود ہے کہ ایک گورا اپنی غلطی سے مجھ سے معمولی سا ٹکرا گیا تو تین چار بار اس نے یوں معذرت کی کہ میں خود شرمندہ سا ہو گیا۔
برطانیہ کے لوگوں کو تیز تیز چلنے کی عادت ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ آہستہ چل کر منزل مقصود پر پہنچنے میں لیٹ نہیں ہونا چاہتے دوسرے یہ کہ وہ اسمارٹ اور چاک و چوبند رہنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ تیسری وجہ جو میں خود وہاں پیدل چل کر سمجھ پایا وہاں کے ہموار فٹ پاتھ ہیں جہاں اچانک ٹھوکر (یعنی ٹھڈہ) لگنے یا کسی ڈھکن کے بغیر گٹر میں جا گرنے کا امکان زیرو ہے۔ اچھا اور ہموار فٹ پاتھ آپ کو پیدل چلنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ہمارے حکمران جو بلٹ پروف اور ایئر کنڈیشنڈ وی آئی پی کارواں کے ساتھ سفر کرتے ہیں نہ معلوم کیوں ہموار بلکہ فٹ پاتھوں ہی سے الرجک ہیں یا وہ سمجھتے ہیں کہ ہر شہری کے پاس موٹر کار ہے۔
غریب عوام کے لیے انڈر پاس، فلائی اوور اور میٹرو بس سے زیادہ فٹ پاتھ اہم ہے۔ لندن کے فٹ پاتھوں پر بے شمار والدین کو دیکھا جن کے ہمراہ چار پانچ سال عمر کے بچے اپنی اپنی Scooty ایک پاؤں کی Kick سے چلاتے ہوئے لطف اندوز بھی ہو رہے تھے یہ ایک دو فٹ لمبے تخت پر آگے پیچھے دو پہیے اور تختے پر بچے کے قد کے برابر ہینڈل والی ایک سستی اور مفید سواری ہے جس کی وجہ سے بچوں کی ایکسرسائز کے علاوہ ذریعہ تفریح ہے اور والدین کو بچے کو گود میں اٹھا کر چلنے سے بھی بچاتی ہے۔
تین ہفتوں کے دوران کئی سو ٹریفک سگنلز کو دیکھا لیکن حسرت لیے پاکستان واپسی ہوئی کہ کسی ایک موٹر، بس، ٹرک یا ٹرالے کو سگنل سرخ ہونے پر پھرتی سے ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرتے نہ دیکھا۔ واپسی پر تو اپنے ہم شہریوں کو دندناتے ہوئے سرخ بتی کی ایسی کی تیسی کرتے دیکھا بلکہ ٹریفک پولیس کی گاڑیوں کو بھی دیکھا کہ عوام الناس کی اس سلسلے میں رہنمائی کر کے انھیں ٹریفک ریگولیشنز کو جوتے کی نوک کے نیچے رکھنے کی تحریک دلا رہی ہیں۔ اگر پولیس اور دیگر محکموں کے افسر اور حکام صرف ٹریفک رولز ہی پر کاربند ہونے کا مظاہرہ کریں اور وی آئی پی کہلانے والے حکمران عوام کے زیر استعمال سڑکیں بلاک نہ کریں تو ہر خاص و عام پر مثبت اثر ہو گا۔
ایک روز میں نے ایک گروسری اسٹور میں داخل ہونے کے لیے اس کا دروازہ کھولا تو ایک سیاہ فام عورت نے مجھ سے پہلے داخل ہونا چاہا لیکن فوراً ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور اس نے رستہ چھوڑ کر مجھے اشارہ کیا میں نے بھی اپنی پاکستانیت منوانی چاہی اور پیچھے ہٹ کر اسے رستہ دیا لیکن یہاں پہلے آپ پہلے آپ کا مقابلہ شروع ہو گیا لیکن اس میں بھی مجھے ہی ہار ماننی پڑی۔ اسٹورز میں رقم کی ادائیگی تو ہمارے ہاں بھی قطار میں لگ کر ہونے لگی ہے لیکن صرف بڑے اور مہنگے اسٹورز میں۔ ٹرینوں اور بسوں میں بیٹھے اکثر نوجوان بزرگوں کے لیے سیٹ خالی کر دیتے ہیں اور گوروں کا یہ رویہ ایشیا کے مسافروں کے لیے قابل ستائش دیکھنے کو ملا۔
ہماری اکثر مارکیٹوں کے عقب میں گندگی کے ڈھیر ملتے ہیں۔ ہماری مقامی حکومت کو قطعی احساس نہیں نہ ہی بڑے بڑے اسٹورز کے مالکان کو کہ انسان کھاتا پیتا ہے اسے خارج بھی کرنا ہوتا ہے۔ آپ اسے ٹائیلٹ کہیں واش روم یا ریسٹ روم اس کی ضرورت کا قطعی خیال نہیں جاتا۔ اگر کسی نے اپنے اسٹور میں ٹائیلٹ کی سہولت رکھی بھی ہے تو اس کی گندگی دیکھ کر ماتم اور افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ میں نے اپنے تین ہفتہ قیام کے دوران کسی پبلک پلیس پر گندگی یا کوڑا کرکٹ نہیں دیکھا بلکہ عام کاغذ کے ٹکڑے پتھر، کنکر یا روڑے نہیں دیکھے نہ کسی کو ٹشو پیپر کا ٹکڑا پھینکتے، تھوکتے یا ناک سڑکتے پایا۔
لندن میں قیام کے دوران میرا واسطہ اپنے رشتہ داروں اور ان دوستوں سے رہا جو اب برٹس سٹیزن ہیں۔ کوئی برطانوی نہ تو میرا دوست یا ملاقاتی تھا اور اپنے تمام دوستوں کا میل ملاپ بھی اپنے یا انڈین Origin والوں سے تھا اس لیے خوب وقت گزرا۔ حیرت یہ تھی کہ یہ تمام احباب ماسوائے رنگت اور زبان کے ان ھی کے رنگ میں رنگے جا چکے تھے اور حقوق العباد میں گوروں کی تقلید کرنے کے علاوہ ان ھی کے اصولوں اور ضوابط پر کاربند پائے۔
وطن واپسی کے وقت چیک اِن کے بعد لندن ایئر پورٹ پر اپنی ملکی ایئرلائن کے گیٹ تک پہنچنے کے لیے کئی دوسرے گیٹس کے پاس سے گزرے۔ ہر جگہ ڈسپلن شائستگی اور امن چین اور ترتیب کا ماحول تھا۔ جونہی ہمارا اپنا گیٹ آیا یوں ماحول بدلا جیسے بھاٹی گیٹ آ گیا ہو۔ سب مسافر ہم وطن تھے۔ یوں لگا میں جہاز میں سوار ہونے سے پہلے ہی واپس پہنچ گیا ہوں۔ یا اللہ میرے ملک کی خیر ہو۔