ماہ مبارک
کعبہ شریف کے حوالے سے ابرہہ کا واقعہ بھی کفار کی نصیحت کے لیے کافی ہے اور جس کا ذکر سورۃ الفیل میں موجود ہے۔
ادائیگی حج کی مبارک ساعتیں حجاج کرام کو نصیب ہونے والی ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اسلام کا پانچواں رکن حج کو ادا کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ آئندہ گناہوں کی زندگی سے بچنے کی کوشش ضرور کریں گے اور اکثر لوگ حج کی واپسی کے بعد اپنے آپ کو مکمل طور پر بدل لیتے ہیں، حقوق اﷲ کے ساتھ حقوق العباد بھی ادا کرتے ہیں لیکن ایسے حضرات کی تعداد بہت زیادہ ہے جو حج جیسا مقدس فرض بھی ادا کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ذرہ برابر بدلنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں، جھوٹ، تصنع، لالچ، غیبت، رشتے داروں سے قطع تعلق اور ساتھ میں اﷲ سے جنگ کرتے ہیں یعنی سود کھاتے ہیں، سود کھانے کا مطلب یہی ہے جس کا ذکر میں نے درج بالا سطر میں کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس شخص کو جہنمی کہا ہے جو اپنے عزیزوں کے نہ حقوق ادا کرتا ہے اور نہ میل جول رکھتا ہے۔
آٹھ ذوالحج، حج کا پہلا دن ہے، اسی دن حجاج غسل یا وضو کرنے کے بعد احرام باندھتے اور دو نفل ادا کرتے ہیں کہ اﷲ رب العزت نے انھیں عبادت کا موقع دیا، اسی دن منیٰ روانہ ہوتے ہیں، منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب اور عشا کی نماز کے بعد قیام کرتے ہیں۔ دوسرے دن یعنی 9 ذوالحج کو عرفات کو روانہ ہوجاتے ہیں، آٹھ ذوالحجہ سے بارہ ذوالحجہ تک پانچ دن ایام حج کہلاتے ہیں۔
حجر اسود اور بیت اﷲ کے دروازے کے درمیان مقام ملتزم ہے اور یہ جگہ دعا کی قبولیت کا خاص مقام ہے، سرزمین حرم میں حاجی صاحبان یہ دعا ضرور پڑھتے ہیں۔'' اے اللہ! یہ تیرا اور تیرے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا حرم ہے۔ پس تو میرے گوشت، خون، ہڈیوں اور کھال کو آگ پر حرام کردے۔ اے اﷲ! مجھے اپنے عذاب سے محفوظ رکھ، جس روز تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا، اور مجھے تو اپنے ولیوں اور اطاعت گزاروں میں کردے اور میری طرف توجہ فرمادے، بے شک تو توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان ہے۔''
حدود حرم جس کے اندر مکہ معظمہ واقع ہے وہاں پولیس کی چوکی بھی ہے جہاں بورڈ لگا ہوا ہے کہ غیر مسلموں کا داخلہ منع ہے ۔ اور منع ہونا بھی چاہیے کہ اس جیسی متبرک اور مقدس جگہ پوری دنیا میں موجود نہیں ہے، اسے ایک خاص حیثیت اور اہمیت حاصل ہے، کیوں نہ ہو کہ یہاں اﷲ کا گھر خانہ کعبہ ہے، اور جہاں حاجی خانہ کعبہ کے سات چکر لگاتے ہیں اور ہر چکر میں اللہ کی حمد و ثنا اور اپنے لیے دین و دنیا میں کامیابی کی دعا مانگتے ہیں اور یہ وہی مقام ہے جب حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے۔ اے ہمارے رب! ہماری محنت قبول فرما، بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے۔ ہم نے اللہ کا رنگ قبول کیا ہے اور اللہ کے رنگ سے بہتر کسی کا رنگ ہوسکتا ہے۔
کعبہ شریف کے حوالے سے ابرہہ کا واقعہ بھی کفار کی نصیحت کے لیے کافی ہے اور جس کا ذکر سورۃ الفیل میں موجود ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے قبل یمن کے بادشاہ ابرہہ نے اس مقدس و مکرم مقام کو ڈھانے کا ناپاک منصوبہ بنایا، اور وہ مکہ کے قریب چڑھ دوڑا اور وادی محسر یا محسب کے قریب پہنچ گیا اس کے کچھ فوجی حضرت عبدالمطلب کے 40 اونٹ ہنکا کر لے گئے، اس پر عبدالمطلب نے واپسی کا مطالبہ کردیا، اس پر لوگوں نے کہا کہ آپ کو اونٹوں کی بڑی فکر تھی مگر خانہ خدا کی نہیں، آپ نے فرمایا کہ اونٹ میری ملکیت تھے جب کہ کعبہ اﷲ کی ملکیت ہے لہٰذا اس کی حفاظت بھی اﷲ کی ذمے داری ہے۔
چنانچہ اس واقعے کے بعد پوری دنیا نے دیکھا کہ ابرہہ کا لشکر ابھی حدود حرم میں داخل بھی نہ ہوسکا تھا کہ حکم ربی سے ابابیلوں نے یلغار کردی۔ وہ اور اس کا لشکر نیست و نابود ہوگیا۔ آج بھی حجاج کرام اس بات کی گواہی دیں گے کہ ابابیل کی نسلیں خانہ کعبہ کی حفاظت کر رہی ہیں، دن رات پرواز کر رہی ہیں گویا وہ بھی حالت طواف میں ہیں۔
حجر اسود کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ پتھر جنت سے آیا تو دودھ سے زیادہ سفید تھا مگر بنی آدم کے گناہوں سے سیاہ ہوگیا، جس طرح خانہ کعبہ اور مقامات مقدسہ تا قیامت قائم و دائم رہیں گے اور ہر سال کروڑوں حجاج کرام اس مقدس و بابرکت مقام پر جمع ہوکر ''اللھم لبیک، اللھم لبیک'' کی صدائیں بلند کرتے رہیں گے، اسی طرح آب زم زم کا چشمہ بھی یوں ہی جاری و ساری رہے گا اور امت مسلمہ اسے پی کر بے شمار فوائد حاصل کرتی رہے گی کہ اس پانی میں شفا ہے چونکہ یہ اس مقدس مقام کا پانی ہے جو مقام ابراہیم کے جنوب میں جبرائیل امین کی ایڑی یا پر کی بدولت عین اس وقت جاری ہوا تھا جب حضرت اسماعیل علیہ السلام پیاس سے بلبلا رہے تھے اور حضرت حاجرہ علیہ السلام بہت بے تاب تھیں۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ''سطح زمین پر سب سے بہترین پانی زم زم کا ہے اور یہ بابرکت پانی کھانا بھی ہے اور بیماری سے شفا بھی۔''
حاجی یہ دعا پڑھتے ہوئے مکے سے مدینے کی طرف روانہ ہوتے ہیں:
''میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لیے ہی ہیں اور ملک بھی تیرا ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔''
مدینہ منورہ کی فضاؤں میں ذہنی سکون اور راحت قلب شامل ہے، یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شہر ہے۔ اسی شہر میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ اقدس ہے، حضرت امام مالک کے بارے میں روایت ہے کہ آپ مدینے کی گلیوں اور کوچوں میں ننگے پاؤں چلا کرتے تھے کہ کہیں ایسی جگہ پاؤں نہ پڑجائیں جہاں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مبارک قدم رکھ چکے ہوں۔ یقیناً یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت اور عقیدت کا سبب تھا۔ آپؐ کی عزت اور احترام لازم ہے، روضہ اطہر کے پاس ہی حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے روضہ مبارک ہیں، جہاں حجاج کرام سلام پیش کرتے ہیں۔
حج کرنے کا اولین مقصد ایک سچے مسلمان کا یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ مقدس فریضہ بھی انجام دے اور وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرے۔ اور اللہ اسے ایک ایسا انسان بنادے جو دوسروں کے لیے تکلیف کا سبب نہ بنے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ادھر حج سے واپسی ہوئی ادھر دنیا کی لذتوں میں گم ہوگئے، نہ رشتے دار یاد رہے نہ محلے دار، بس سوچا تو اپنا اور اپنے اہل خانہ کا بھلا اور نفع۔ ہر سال ہمارے حکمران حج و عمرے کے لیے تشریف لے جاتے ہیں، اکثریت حکومت کے ہی خرچ پر جاتی ہے، اپنے خرچ پر نہیں، کیا ان کا حج قبول ہوجاتا ہوگا؟ بہرحال اللہ بڑا ہی غفور الرحیم ہے وہ جس کی چاہے خطا معاف فرمادے۔
ہمارے معاشرے میں ایسے بے شمار لوگ ہیں تین تین، چار چار حج کرتے ہیں جب کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں ایک ہی حج کیا تھا، اگر یہ کئی بار حج کرنے والے حضرات ایک حج کرنے کے بعد اپنے مال و زر سے مستحق جو حج کے خواہشمند ہوں، کو حج کرا دیں تو ثواب زیادہ ہوگا، چونکہ انھوں نے تو فرض ادا کرلیا۔ اس وقت مجھے منشی پریم چند کا افسانہ حج اکبر یاد آگیا کہ کس طرح ایک غریب عورت نے جمع پونجی اکٹھی کی اور جب جانے لگی تو کسی ضرورت مند کو اپنی رقم دے دی، بے شک نیت سے تو اللہ واقف ہے، بہت سے ایسے کام ہیں جن کے کرنے سے ایک حج کا ثواب مل جاتا ہے لیکن اس کے باوجود حج ہر صاحب حیثیت مسلمان پر فرض ہے۔ اگر حالات اجازت دیں تو ضرور بیت اللہ شریف اور روضہ اقدسؐ کی زیارت کریں کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔