پوشیدہ صلاحیتیں

شفا بخش لہریں ایسی طاقتور لہریں ہوتی ہیں جو عامل کے جسم سے نکل کر معمول کے جسم میں داخل ہوجاتی ہیں


Shayan Tamseel October 05, 2014

ایک بار پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ یقیناً تسلسل قائم نہیں رہا لیکن چاہنے والوں نے مستقل ای میل اور بذریعہ فون رابطہ رکھا اور نفسیات ومابعد نفسیات کے موضوع پر لکھتے رہنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہم وقفے وقفے سے ہی سہی لیکن بذریعہ کالم آپ سے مخاطب ہوتے رہیں گے۔ سب سے پہلے تو ایکسپریس کے تمام قارئین کو پیشگی عیدالاضحیٰ مبارک ہو۔ اس عید کے ساتھ قربانی کا سبق وابستہ ہے، امید ہے تمام مسلمان عید قرباں کے حقیقی مفہوم کو سمجھتے ہوئے عید کا دن گزاریں گے اور صرف عید ہی نہیں بلکہ سال کے دیگر دنوں میں بھی قربانی کے اس سبق سے ہدایت پاتے رہیں گے۔

اپنی بے پناہ مصروفیات کے باعث تمام ای میلز کا جواب دینا ممکن نہیں، اس لیے درجہ بدرجہ ای میلز کا جواب دیا جارہا ہے۔ ہم نے اپنے گزشتہ کئی کالموں میں اس بات کا تذکرہ کیا کہ دنیا میں بیشتر ایسے افراد موجود ہیں جن میں کوئی نہ کوئی خاص صلاحیت عام لوگوں سے ہٹ کر موجود ہے، خارق العادات مظاہر کے مالک بھی موجود ہیں لیکن چونکہ ایسے لوگوں کی تعداد کم ہے یا وہ اپنی صلاحیتوں کو عام لوگوں کی نظر سے چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں اس لیے ان کی صلاحیتوں سے دیگر فائدہ حاصل نہیں کر پارہے۔

کچھ ایسے بھی ہیں جن میں صلاحیتیں تو موجود ہیں لیکن وہ خود اپنی قوت سے ناواقف ہیں یا صحیح طور استعمال پر قادر نہیں۔ ہم نے اپنے ان ہی کالموں میں ایسے لوگوں سے درخواست بھی کی تھی کہ اگر آپ کسی خارق العادت مظہر کے مالک ہیں یا آپ میں کچھ صلاحیتیں عام لوگوں سے ہٹ کر ہیں تو ہم سے رابطہ کریں۔ اس درخواست کا تو کوئی مثبت جواب نہیں آیا لیکن گزشتہ دنوں اتفاق سے کراچی پریس کلب میں ایک پرانے واقف کار سے ملاقات ہوئی جو کافی عرصے سے رابطے میں نہیں تھے۔ ہم ان کا تذکرہ عثمانی صاحب کے نام سے کریں گے۔

عثمانی صاحب کا دعویٰ ہے کہ ان کے داہنے ہاتھ میں ایسی طاقتور شفا بخش لہریں ہیں جو کسی عام مرض جیسے عارضی درد، چوٹ یا دیگر جلدی امراض کو بتدریج ختم کردیتی ہیں اور اس کے لیے انھیں پاسز کے عمل (یعنی مریض کے جسم پر خاص طریقے سے ہاتھ پھیر کر درد اور مرض رفع کرنا) کا بھی سہارا نہیں لینا پڑتا، بس وہ متاثرہ حصے پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور مریض افاقہ محسوس کرتا ہے۔

شفا بخش لہروں کا تذکرہ ہم پہلے بھی کرچکے ہیں۔ یہ ایسی طاقتور لہریں ہوتی ہیں جو عامل کے جسم سے نکل کر معمول کے جسم میں داخل ہوجاتی ہیں اور عامل کی باطنی قوت کا سہارا لے کر معمول کے جسمانی امراض کا علاج کرتی ہیں۔ اس طریقہ علاج میں عامل زیادہ تر پاسز کا سہارا لیتے ہیں، جس میں معمول کو لٹا کر یا بیٹھ کر عامل اپنے ہاتھ معمول کے جسم یا متاثرہ حصے کے اوپر سے گزارتا ہے، جسم کو چھونا ضروری نہیں ہوتا، ساتھ میں عامل کو یہ تصور پختہ کرنا ہوتا ہے کہ اس کے جسم سے شفا بخش لہریں نکل کر معمول کے جسم میں جذب ہورہی ہیں اور متعلقہ بیماری کا علاج کررہی ہیں۔ اس طریقہ علاج سے اگر عامل واقعی شفا بخش لہروں کا حامل ہے تو معمول اپنے مرض میں افاقہ محسوس کرتا ہے۔

آپ نے اکثر فلموں میں ہندو یوگیوں یا بدھ بھکشوؤں کو اس طریقہ علاج کا سہارا لے کر درد اور زخموں کو رفع کرتے دیکھا ہوگا، جس میں وہ سخت تکلیف میں مبتلا مریض کے جسم کو چھوئے بغیر صرف پاسز کے عمل کے ذریعے اس کا علاج کرتے ہیں۔ عثمانی صاحب کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے کیونکہ بقول ان کے وہ نہ تو پاسز کا سہارا لیتے ہیں نہ ہی کوئی خاص تصور قائم کرتے ہیں بلکہ صرف اپنا داہنا ہاتھ متاثرہ حصے پر رکھ دیتے ہیں اور کچھ دیر بعد مریض افاقہ محسوس کرتا ہے۔ عثمانی صاحب نے کچھ عرصہ پہلے ہی اپنی اس صلاحیت سے واقفیت حاصل کی ہے اور اس سلسلے میں کوئی رہنمائی بھی نہیں لی۔

نیز وہ اس بات سے بھی خوفزدہ ہیں کہ اگر وہ کسی کو اس بارے میں بتاتے ہیں تو شاید عام لوگ ان کی بات کو حقیقی نہ سمجھیں۔ انھوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا: ''شایان صاحب! جب یہ لہریں مجھ میں کچھ زیادہ ہی ہوجاتی ہیں تو میں بے چین ہوجاتا ہوں اور تلاش کرتا ہوں کہ کوئی درد میں مبتلا شخص مل جائے تاکہ میں اس کا علاج کرسکوں۔'' میں نے جب عثمانی صاحب کا ہاتھ پکڑ کر دیکھا تو وہ اس طرح دہک رہا تھا جیسے بخار میں مبتلا ہوں۔ میرا مشورہ عثمانی صاحب کو یہی ہے کہ وہ لوگوں کے عمومی رویے کی پرواہ کیے بغیر اپنا کام جاری رکھیں، اگر ان میں کوئی صلاحیت ہے تو اس کے استعمال پر پوری طرح قادر ہونے کے بعد خلق خدا کی بھلائی کے لیے کام کریں۔

یقیناً آپ لوگوں میں بھی کوئی نہ کوئی خاصیت ایسی ہوگی جس سے آپ ناواقف ہوں لیکن گزشتہ کالموں میں بھی ہم کہہ چکے ہیں کہ سانس کی مخصوص مشقوں، تنفس نور اور دیگر طریقوں کو اختیار کرکے ایسی خوابیدہ صلاحیتوںکو جگایا جاسکتا ہے۔ ان مشقوں سے آپ ''سپر نیچرل'' تو نہیں بن سکتے نہ ہی ''سپر پاورز'' حاصل کرسکتے ہیں لیکن تنظیم شخصیت و کردار سازی کے ساتھ اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو جلا ضرور بخش سکتے ہیں، نیز وہ خوبیاں جو آپ میں مخفی ہیں، وہ پوشیدہ صلاحیتیں جن سے آپ خود ناواقف ہیں وہ ابھر کر سامنے آسکتی ہیں، بس ضرورت یقین محکم کی ہے۔

تنظیم شخصیت و کردار سازی کی یہ مشقیں مہمیز کا کردار ادا کرتی ہیں، اگر صحیح طریقہ کار اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا جائے تو مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اور آخر میں ایک ضروری بات، ایک خاتون جو سانس کی مشقیں کررہی تھیں انھوں نے فون پر مشورہ مانگا کہ وہ حاملہ ہیں کیا ایسے میں بھی سانس کی مشقیں جاری رکھیں؟ ہم نے انھیں مشقیں عارضی طور پر ترک کرنے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ ہر شخص کی جسمانی کیفیت الگ ہوتی ہے۔ دیگر قارئین جو یہ مشقیں ازخود کررہے ہیں انھیں بھی یہی کہنا چاہتے ہیں کہ بغیر ہدایت یا مشورہ پریکٹس نہ کریں، ان مشقوں کے لیے ایک رہنما کا ہونا ازحد ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں