عید قربان اور اس کی اصل روح
قربانی میں شکر، اطاعت، ایثار اور رضائے الٰہی کے حصول پنہاں ہے۔
عیدالاضحی کا تہوار مذہبی سے زیادہ سماجی و روایتی صورت حال اختیارکرتا جارہاہے، ہم قربانی کے اصل فلسفے اور تعلیم کو بھولتے جارہے ہیں، بچوں کو بھی اس سے نا آشنا کرکے محض تفریح و تماشہ میں لگادیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس میں خود نمائی، بڑائی، تکبر ودکھاوا، نمود و نمائش، لوٹ کھسوٹ، دھوکا دہی کا عنصر شامل ہوگیا ہے۔
جانور بیچنے والے خریداروں کی جیبیں صاف کرنے پر کمر بستہ ہیں، جانوروں کی انتہائی قیمتیں وصول کرنے کے باوجود عیب دار و بیمار جانور دھوکا دہی اور فریب سے فروخت کردیے جاتے ہیں، جانوروں کے سینگ و دانت و غیرہ توڑدیے جاتے ہیں یا بڑی مہارت سے مصنوعی طریقہ سے ایلفی اور تاروں سے جوڑکر فروخت کردیے جاتے ہیں، جانوروں کو صحت مند اور خوبصورت ظاہر کرنے کے لیے بیسن و دیگر غذائیں یا دوائیاں کھلاکر وقتی طور پر گاہکوں کو دھوکے سے فروخت کردیے جاتے ہیں، جانوروں کو ان کی فطری غذاؤں کی بجائے دودھ، گھی، بادام اور پستہ وغیرہ کھلائے جاتے ہیں جو انسانوں کو بھی میسر نہیں آتے۔
جانوروں کے علاج کے لیے کلینک قائم کرنے والے، چارہ فروخت کرنے والے، پولیس و دیگر سرکاری اہلکار بھتہ گیر، چور، ڈاکو اور آخر میںقصائی اور کھالیں لینے والے شہریوں کی کھالیں نوچ ڈالتے ہیں۔ سرکاری اہلکار اور افسران اپنے محکموں میں گائے بکرے کے نام پر برملا رشوتیں طلب کرتے ہیں۔ چند دن پہلے راقم نے دیکھا کہ ایک شخص بلا جھجک سر عام سرکاری اہلکار کو پیش کش کررہاتھا کہ میرا یہ کام کردو قربانی کا جانور میری طرف سے ہوگا، یہ رویے ہمارے اجتماعی مزاج کو ظاہر کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
کراچی شہر میں جگہ جگہ مویشیوں کی خرید وفروخت اور عارضی مویشی منڈیوں کے تدارک کے لیے انتظامیہ نے شہر سے باہر سہراب گوٹھ پر مرکزی مویشی منڈی قائم کی تھی تاکہ شہری مسائل پیدا نہ ہوں اور خریدار اور بیوپاری ایک مرکزی جگہ پر تن آسانی کے ساتھ جانوروں کی خرید و فروخت کرسکیں اس سلسلے میں انتظامیہ بیوپاریوں سے کچھ فیس اور ٹیکسز وغیرہ لے کر انھیں جگہ اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ اور انتظام کرتی ہے لیکن اس سلسلے میں نہ صرف مویشی کے بیوپاریوں کو بلکہ خریداروں کو بھی ہمیشہ شکایتیں رہتی ہیں جن میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہاہے۔ اس سال یہ شکایتیں اتنی زیادہ بڑھیں کہ معاملہ احتجاج تک پہنچ گیا، مویشیوں کے بیوپاری مرکزی شاہراہ پر آگئے اور جلاؤ گھیراؤ شروع کردیا، سپر ہائی وے بند ہوگیا، پولیس اہلکاروں نے لاٹھی چارج کیا کئی افراد کے سر پھٹے اور شہری ٹریفک جام میں پھنسے رہے۔ بیوپاریوں کا کہناہے کہ انھیں مطلوبہ سہولیات اور تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا۔
منڈی میں غیر متعلقہ افراد کی مداخلت، من مانیاں اور لوٹ مار چلتی ہے، مختص بلاک میں داخلے کے لیے 10 ہزار رشوت نہ دینے پر آخری اور خراب حصہ میں جگہ دی جاتی ہے۔ اچھے بلاکس میں جگہ کے لیے30 ہزار روپے رشوت طلب کی جاتی ہے۔ ایڈمنسٹریٹر سے شکایات کی جاتی ہیں تو کوئی کارروائی عمل میں نہیں آتی معاہدے کے مطابق جانوروں کے لیے پانی تک فراہم نہیں کیا جاتا جو خریدنا پڑتا ہے۔ بھتہ گیروں و جرائم پیشہ عناصر سے بھی کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا ہے، انتظامیہ خاموش تماشائی یا تائیدی بنی ہوئی ہے جس کی وجہ سے بیوپاریوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ جلاؤ گھیراؤ پر اتر آئے۔
دوسری جانب شہر کے لا تعداد مقامات پر بھی عارضی مویشی منڈیاں غیر قانونی طور پر انتظامیہ اور پولیس کی ملی بھگت سے چل رہی ہیں جہاں سے ایک دو مرتبہ چند افراد کو پکڑکر خانہ پری کے لیے مقدمات بنادیے جاتے ہیں۔ سہراب گوٹھ کی مویشی منڈی پاکستان کی سب سے بڑی منڈی ہے، تعمیر مائیکرو فنانس بینک کے آپریشن ہیڈ کے مطابق اس منڈی میں جانوروں کی مالیت کا اندازہ 6 ارب روپے تک لگایا گیا ہے جہاں سے وی آئی پی جانوروں والے روزانہ ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے ترسیل کرتے ہیں، یہاں ایک نجی بینک نے قربانی کارڈ متعارف کرائے ہیں جس کے ذریعے قربانی کے جانوروں کے خریدار شہر میں اپنی رقوم بینک میں جمع کراکے اسی مالیت کا کارڈ حاصل کرسکتے ہیں۔
جمع شدہ رقم مویشی منڈی میں قائم خصوصی بوتھ سے حاصل کرکے خریداری کرسکتے ہیں بینک نے بیوپاریوں کے لیے بھی والٹ کارڈ جاری کیے ہیں جن کے ذریعے منڈی میں مویشی فروخت کرنے والے بیوپاری اپنی رقوم منڈی میں قائم خصوصی بوتھ میں جمع کرکے اسی مالیت کا والٹ کارڈ حاصل کرسکتے ہیں اور کسی بھی شہر میں قائم بینک کی شاخ سے اپنی رقوم حاصل کرسکتے ہیں اور کسی بھی شہر میں قائم بینک کی شاخ سے اپنی رقوم حاصل کرسکتے ہیں منڈی میں ATM بھی نصب کی گئیں ہیں جہاں سے رقم نکالی جاسکتی ہے۔ کارڈ بنوانے کے لیے 300روپے فیس رکھی گئی ہے جس کے لیے کسی بینک اکاؤنٹ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
اس مرتبہ انتظامیہ نے کار پارکنگ فری سہولت فراہم کی ہے لیکن عملے نے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا ہوا ہے، فری پارکنگ ٹوکن پر بھی عیدی وصول کی جارہی ہے، عملے کی تمام توجہ زیادہ سے زیادہ گاڑیاں پارکنگ ایریا میں داخل کرکے اپنی جیبیں بھرنے پر مرکوز ہے اندر کے حصے میں شدید بد نظمی ہے جس کی وجہ سے گاڑیاں گھنٹوں پھنس کر رہ جاتی ہیں، خریداری سے زیادہ وقت پارکنگ ایریا میں خرچ ہوجاتا ہے فری پارکنگ کی اس سہولت کو خریداروں کے لیے اذیت رسانی کا ذریعہ بنادیاگیا ہے۔
ان ہی پریشانیوں سے بچنے کے لیے خریدار شہر میں قائم غیر قانونی مویشی منڈیوں کا رخ کرتے ہیں جو انتظامیہ کی ملی بھگت سے جگہ جگہ میدانوں اور سڑکوں پر لگی ہوئی ہیں جس سے بہت سے شہری مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں ان کی صفائی کی بجائے جلادیا جاتا ہے، صفائی مہم کے نام پر مختص بجٹ ہڑپ کرلیاجاتاہے عید قربان کے موقعے پر جانوروں، ان کے چارے، علاج، ٹرانسپورٹیشن، ذبح سے لے کر ٹماٹر، پیاز، ادرک، لہسن ودیگر مصالحہ جات کی قیمتوں میں دو چار فیصد نہیں بلکہ کئی گنا تک اضافہ کردیا جاتا ہے، نمود ونمائش کا یہ عالم ہے کہ دودھ، اصلی گھی، بادام اور پستہ کھانے والے قالینوں پر بیٹھنے والے جانور خطیر رقوم میں فروخت کیے جاتے ہیں۔
مویشیوں کو دو سال تک مکانوں کی چھت پر غیر حقیقی ماحول میں پالا جاتا ہے پھر عید کے موقعے پر ان کی درگت بناکر کرینوں کے ذریعے لٹکاکر اتارا جاتا ہے، ان کی پشت پر ان کے نگہبان ظالمانہ انداز میں سوار ہوتے ہیں یہ مناظر ٹی وی پر براہ راست بھی دکھائے جاتے ہیں بھرپور میڈیا کوریج ہوتی ہے اس پر حیوانی حقوق کے علم بردار اور تحفظ کے ذمے دار ادارے، علما کرام اور میڈیا کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرتا۔ قربانی کے جانوروں کی قیمتوں اور جسمانی ساخت کا موازنہ اور تبصرے عام روش بنتی جارہی ہے، بچوں اور خواتین کی جانب سے قربانی کے جانور لانے کی فرمائش اور ضد اور مردوں کی خود نمائی و نمائش کے جذبے نے قربانی جو سنت ابراہیم ؑ اور سنت محمدیؐ ہے کی اصل روح کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ قربانی میں شکر، اطاعت، ایثار اور رضائے الٰہی کے حصول پنہاں ہے۔
جس طرح حضرت ابراہیم ؑ آتش نمرود میں کود پڑے، ضعف العمری میں اپنے اکلوتے مرادوں سے مانگے بیٹے کو اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کا عمل کیا، صابر و شاکر اطاعت بردار بیٹے نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اﷲ کے حکم کی تعمیل کے لیے خود کو قربان کرنے کے لیے پیش کردیا، ہم قربانی کے اس فلسفہ سے لا تعلق اور نوجوان نسل اس سے نا آشنا ہوتی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی صفحات پر چھپنے والے مضامین اور مساجد میں تقسیم کردہ لٹریچر بغیر پڑھے اور کوئی اہمیت دیے بغیر ردی کی نذر کردیا جاتا ہے اس سلسلے میں گھر کے بزرگ علمائے کرام، میڈیا حکومت اور حکومتی ادارے اپنے فرائض سے غافل نظر آتے ہیں۔ اگر اس پہلو پر توجہ نہ دی گئی تو مستقبل قریب میں قربانی کا دینی فریضہ کچھ اور ہی شکل اختیار کرجائے گا۔