میری کھال اتار لو
پاکستان کی سرحدوں پر ایک جانب افغان انتظامیہ تو دوسری جانب بھارت اشتعال انگیزیوں اور در اندازیاں کرکے ماحول کو۔۔۔
عید الاضحی میں جانوروں کی قربانی ، سنت ابراہیمی ہے اور دیگر شعائر اسلام کی طرح امت مسلمہ یہ سنت بھی نہایت جوش وخروش سے مناتی ہے ، لیکن کراچی والوں کے لیے ایک مسئلہ قربانی کی کھالوں کا ہے۔کھالیں دیں تو کس کو دیں ، کسی کو منع کریں تو وہ یہ کہہ کر جاتا ہے کہ ہمیں تو کھال چاہیے، جانور کی دو، یا اپنی! ، کچھ اس عمل سے اتنے تنگ آچکے ہیں کہ کھال کی مساوی رقم انھیں دے دیتے ہیں کہ بھائی، ہمارے اسلامی فریضے کو اپنے سیاسی کاروبار کی بھینٹ مت چڑھاؤ۔
کھالوں کی بکنگ پہلے سے شروع کردی جاتی ہے اور گھروں میں پرچیاںبھیج کر بتا دیا جاتا ہے کہ کارکن آئیں گے اور کھال لے جائیں گے ، اجتماعی قربانی کے حوالے سے عذر پر یہی کہاجاتا کہ ہم نے پرچی دے دی ہے ، اب ہمیں تو کھال چاہیے ، چاہے وہ کسی کی بھی ہو ۔پچھلے سال تو قربانی کے جانوروں کو گولیاںاسی لیے ماریں گئیں کہ چرم قربانی دینے سے انکار کردیا گیا تھا ، کچھ حساس علاقوں سے نقل مکانیاں بھی کی گئیں کہ یہاں قربانی مویشی سے پہلے ہماری ہوجائے گی۔
اس لیے دوسرے علاقے میں رشتے داروں کے گھر جا کر قربانی کی ۔ لیکن اس وقت موضوع چرم قربانی کے حوالے سے ہی نہیں ہے کہ کون ،کیسے کھالیں دے گا کہ نہیں ، بعض اوقات کچھ احباب مجھ سے نالاں بھی ہوجاتے ہیں کہ تم ہر بات کی کھال کیوں اتارتے ہو، تو میں اکثر حیران رہ بھی جاتا ہوں کہ میں دھرنے والا قصائی نہیں ہوں، لیکن عید قربان کے حوالے سے کچھ کئی مہینوں سے پیش گوئی جاری تھیں کہ عید سے پہلے قربانی ہوگی ، اب ان شیخ صاحب پر سب اعتراض کر رہے ہیں کہ آپ نے الیکشن کی تاریخ میں ایک سال کی توسیع کردی لیکن آپ کے دعوے کے برعکس قربانی نہیں ہوسکی۔
قربانی والے آئے تھے ، قربانی لینے ، استعفے دے کر خود قربانی کا بکرا بن گئے ہیں اب ان کے استعفی ان کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس چکے ہیں ۔اسی طرح شہر کراچی میں قربانیاں دینے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے، صرف ماہ ستمبر 2014 میں دہشت گردی اور پر تشدد واقعات میں معروف علمی و مذہبی شخصیت مفتی نعیم کے داماد اور جامعہ کراچی میں جز وقتی استاد مولانا مسعود بیگ ، جامعہ کراچی شعبہ اسلامک اسیٹیڈیز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج ، علامہ عباس کمیلی کے بیٹے ، علی اکبر کمیلی سمیت دس پولیس افسران و اہلکار ، پاک فوج کے جوان، ڈاکٹرز اور تاجروں کے ساتھ 156 افردا جاں بحق ہوئے اور متعدد افراد نے زخمی ہوکر قربانی دی۔
دو بم دہماکوں میں ایس ایس پی فاروق اعوان سمیت دو درجن سے زائد افراد زخمی اور کریکر بم حملے میں پولیس اہلکاروں نے جاں بحق ہوکر اور متعدد افراد نے زخمی ہوکر دہشت گردوں کی کارروائیوں میں شجاعت کی قربانی دی۔ ستمبر کی بینک ڈکیتیوں میں دو کروڑ 81 لاکھ روپے کی بینکوں کو، ڈاکوؤں کو قربانی دینا پڑیں۔ستمبر ماہ میں شہر کے مختلف علاقوں سے عوام نے 1870موٹر سائیکلوں ،975 کاروں اور چھ ہزار سے موبائل فونز کے چوری اور چھین جانے پر اپنے قیمتی مال کی قربانی دی۔
اسی طرح پولیس و رینجرز نے ماہ ستمبر2014 میں کالعدم جماعتوں ، لیاری گینگ وار ، اغوا کار اور مختلف جرائم میں ملوث 74ملزمان کی جانوں کو قانون کی چھری سے قربان کردیا ، مجموعی طور پر 4013مزمان گرفتارکیے ۔ جہاں ایک طرف جرائم پیشہ عناصر معصوم بے گناہ عوام کو خوف و ہراس کے نام پر قربان کر رہے ہیں تو دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے بھی اپنی چھریاں تیز کر کے بیٹھے ہیں۔دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزامات لگائے جاتے ہیں ۔اس لیے اس پر تبصرہ اس وقت نہیں کیا جاسکتا کہ سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے رینجرز کے سربراہ نے جو تفصیلات مختلف جماعتوں کی گرفتاریوں کے حوالے سے لائیں ، ان پر تمام سیاسی جماعتوں کو شدید تحفظات ہیں ، کیونکہ ابھی تک مانیٹرنگ کمیٹی نہیں بنی اس لیے اس کی شفافیت پر تبصرہ نہیں کیا جاسکتا ۔
پاکستان کی سرحدوں پر ایک جانب افغان انتظامیہ تو دوسری جانب بھارت ، اشتعال انگیزیوں اور در اندازیاں کرکے ماحول کو پرگندا کر رہی ہیں لیکن اس کا جواب بھی انھیں برابر دیا جا رہا ہے ، آئی ڈی پیز نے مملکت کی سلامتی کے لیے اپنے گھر بار کی قربانی دیں یہاں تک کہ ان کے کیمپوں پر بھی دہماکے کیے گئے ۔ مختلف جماعتوں کی جانب سے استعفوں اور جمہوریت کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کا اعلان کیا گیا اور 48روز سے زیادہ دھرنے دیکر میڈیا کی کوریج سے پاکستانی کروڑوں عوام کے جذبات اور صبر کی قربانی لی ۔ پرانے زمانے میں بادشاہ اپنے مخالفین کی کھالیں کھینچوا لیا کرتے تھے ۔
ان میں بھوسا بھروا کر قلعے کے دروازے پر لٹکا دیا کرتے تھے ، لیکن اب صورتحال مختلف ہوچکی ہے ، شک پر قانون نافذ کرنے والے مشکوک افراد کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور پھر ان کی کھالیں سیاہ پڑ جاتی ہیں ، کچھ بے گناہ ہوتے ہیں تو کچھ گناہگار ، لیکن عدالتوں میں جا کر وکیلوں کی ہاتھوں اپنی کھال اتارنے سے بہتر ہے کہ خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے بجائے وہ اپنی کھال ہی کھنچوا لے ۔
اینکر پرسن اور بعض میڈیا گروپس اپنی ذاتی مخالفت میں سیاست دانوں کی عزت کی کھال اتارنے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح مہنگائی،لوڈ شیڈنگ، اوور بلنگ،عدم تحفظ اور شدید بد امنی کے ساتھ بے روزگاری نے محنت کشوں اور غریب عوام نے اپنی کھالوں سے ایسے جوتے بنا دیے ہیں کیونکہ اپنا حق پانے کے لیے جوتے مہنگے اور کھال سستی پڑتی ہے ۔ بچے پوچھتے ہیں کہ ہم کس کی قربانی کریں گے تو بے بسی سے جواب دینا پڑتا ہے کہ پورے سال حکومت کے معاشی سخت اقدامات کی وجہ سے قربانیاں ہی تو دے رہے ہیں اور باقی کھال کی بات تو مغرور اور فرعون نما ہٹلر عزت کی چمڑی ادھیڑ دیتا ہے ۔
کوئی دعوی کرتا تھا کہ شیر کو ووٹ کی طاقت سے گیارہ مئی کو واپس بھگا دیں گے تو دوسری جانب دھرنوں، مظاہروں اور احتجاجی جلسے جلوسوں نے عوام کی کھال اتار دی۔ جیسے کسی پولیس والے کے ہاتھ کوئی ملزم چڑھ جاتا ہے تو اس کی کھال اس وقت تک اتاری جاتی رہتی ہے جب تک وہ بے نظیر بھٹو کے قتل یا نائن الیون کے گرانے کی ذمے داری قبول نہیں کرلیتا، سابقہ وزیر جیل خان جات سندھ نے انکشاف کیا جیلوںمیں روزانہ کی آمدنی دس لاکھ روپے سے زیادہ ہے یعنی جیلوں میں قید مقید اسیر بھی کھالیں اتارے جانے سے محفوظ نہیں ہیں۔
میرے پاس کسی بھی مذہبی و سیاسی جماعت کا کوئی کارکن قربانی کھالوں کے لیے پرچی نہیں لاتا ، بلکہ فون پر جاننے والوں کے لیے اپیل نما چیز کرواتا ہے کہ اس بار قربانی کی کھالیں ، فلاں کو دیں تو کبھی کبھار وہ موصوف چراغ پا ہو جاتا ہے کہ بھائی ، مہنگائی ، بھتہ خوری ، بدترین معاشی حالات اور موجودہ ملکی حالات کے سبب ممکن نہیں کہ سنت ابراہیمی ادا کرسکوں ، بس لے دے کر میری کھال رہ گئی ہے، اب آکر بچی کھچی یہ میری کھال اتار لو۔