اساتذہ عمارت سازوں کی ایک قسم…
اساتذہ عمارت سازوں کی ایک قسم ہیں جو کسی بھی معاشرے میں نئی نسل کو مستقبل کا بہترین شہری بنانے کے ذمے دار ہوتے ہیں
KARACHI:
کیا ہم تصور کرسکتے ہیں کہ یہ وہ قدیم وسیع سرزمین ہے، جو آج سے 5 ہزار سال قبل علم وادب کا گہوارہ ہوا کرتی تھی، مارگلہ سے سوات کی پہاڑیوں تک یہاں ایک ایسی قوم آباد تھی جو تہذیب وتمدن میں اپنی مثال آپ تھی جس کو تاریخ میں ساری دنیا ٹیکسلا، بدھا اور گندھارا کے نام سے جانتی ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں چینی سیاح ہیون سانگ اپنے سفرنامے میں ٹیکسلا کی عظمت و شوکت سے متاثر نظر آتے ہیں، یہاں عظیم الشان درس گاہ تھی۔
دنیا کے بہترین دانشور، فلاسفر اور عالم و فاضل اساتذہ یہاں تعلیم دیا کرتے تھے، نایاب اور قیمتی کتابوں کے نسخے موجود تھے، ہر سال سیکڑوں طالبعلم، علم کی پیاس بجھانے اس درسگاہ میں آتے تھے، اس درسگاہ کے عالم و فاضل اساتذہ دنیا کے ہر علم کو سائنس کی حیثیت سے پڑھایا کرتے تھے، داخلے کے لیے باقاعدہ ایک عملی ٹیسٹ سے گزر کر اس عظیم ادارے میں داخل ہوا جاسکتا تھا، اس درسگاہ میں داخلے کے لیے اٹلی، عرب، چین، بابل اور ہندوستان سے لوگ آتے تھے، بڑے بڑے امراء و روساء اور بادشاہ اپنے بچوں کو یہاں علم کی دولت حاصل کرنے کے لیے بھیجتے تھے، اسی درسگاہ کے عظیم اساتذہ نے آریو ویدک طریقہ علاج کے بانی، فن سیاست و سفارتکاری کی شاہکار کتاب ''ارتھ شاستر'' کے مصنف کوٹلیہ اور سنسکرت کے بانی جیسے عالم طلبگار کو علم کی روشنی عطا کی۔
آج اسی جگہ وہ شہر اقتدار ہے جہاں ہمارے اکثر انگوٹھا چھاپ امراء، وزراء کے دولت کدے ہیں، جو ہماری قسمتوں کے فیصلے کرتے ہیں، جو علم کو مذاق اور اساتذہ کو ملازم سے زیادہ کوئی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں اور بھاری معاوضے دے کر اسکول اور ٹیچرز کو گویا اپنا زرخرید غلام سمجھ لیتے ہیں۔ اساتذہ عمارت سازوں کی ایک قسم ہیں جو کسی بھی معاشرے میں نئی نسل کو مستقبل میں ملک کا بہترین شہری بنانے کے ذمے دار ہوتے ہیں، وہ علم و فنون کی تعلیم سے لے کر آداب زندگی اور طرز عمل سکھاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ والد تین قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ سرپرست ہوتا ہے جس کے خون سے انسان پیدا ہوتا ہے، ایک باپ وہ کہلاتا ہے جو اپنی بیٹی دے کر بیٹا بناتا ہے، ایک والد وہ ہے جو اپنے فہم و ادراک کی روشنی سے انسان کی صلاحیتوں کو اجاگرکرکے اسے دولت علم سے مالامال کردیتا ہے اس لیے استاد روحانی والدین کا درجہ رکھتے ہیں۔ شاگرد اپنے استاد کا جتنا بھی احترام کریں، کم ہے، کہ استاد کے احترام کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ سرور کائنات حضور ﷺ نے خوشامد کو سخت ناپسند فرمایا ہے، مگر حصول علم کی خاطر استاد کی خوشامد کو بھی روا رکھا جاسکتا ہے، گویا استاد کا احترام خوشامد کی حد تک بھی جائز ہے۔
دین اسلام کا پہلا سبق پڑھ یعنی اقراء سے شروع ہوتا ہے۔ علم کی قدروقیمت اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ اسے مومن کی معراج کہا گیا ہے۔ علم کے حصول کے لیے فرمایا گیا علم حاصل کرو خواہ اس کے لیے تمھیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ حصول علم کی خاطر گھر سے نکلنے کو جہاد جیسے عظیم مرتبے کے برابر قرار دیا گیا۔ یہ علم ہی ہے جس کی بدولت ہم حیوان سے انسان کی صف میں کھڑے ہیں، یہ علم وعرفان انسان تک کون پہنچاتا ہے؟
یقیناً استاد ہی انسان کو علم وآگہی کی منزلوں تک پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔ اگر ایسے میں اساتذہ ہی نظر انداز کیے جائیں گے، ان کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی جانب توجہ نہیں دی جائے گی، تو وہ کیسے اپنا کام مکمل یکسوئی سے کرسکیں گے؟ جب وہ مالی و دیگر الجھنوں سے آزاد ہوں گے تب ہی بچوں کو پڑھا سکیں گے۔ یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں جو اپنی ریسرچ کا تجربہ طالب علموں میں منتقل کرسکیں۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیم کی اہمیت کا یہ حال ہے کہ ہر سال ہماری حکومتیں تعلیمی بجٹ میں صومالیہ جیسے انتہائی پسماندہ ملک کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہیں۔ نئے اسکول کھولنے اور اساتذہ کی تقرری کے بارے میں اختیارات کرپشن اور غفلت کا شکار ہیں۔ عالمی سطح پر ورلڈ یورنیورسٹی رینکنگ میں پاکستان دنیا کے اولین چار سو اداروں میں بھی شامل نہیں جن کا معیار عالمی سطح پر ماناجاتا ہو۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارا ایشیاء کی 100 بڑی یورنیورسٹیوں میں بھی شمار نہیں۔ پ
رائمری سطح پر استاد اور طالب علم کی شرح کے حوالے سے یونیسکو کی مرتب کردہ رپورٹ میں 175 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 123 واں ہے۔ اس فہرست میں پاکستان سے کم تر صرف غریب پسماندہ افریقی ممالک ہیں جب کہ 121 ممالک میں سیکنڈری سطح کی تعلیم کے لیے طالب علم استاد کی شرح کے حوالے سے پاکستان 124 ویں نمبر پر ہے۔ وزرات تعلیم ہائر ایجوکیشن کمیشن اور پلاننگ ڈویژن کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ایک دہائی کے دوران تمام سطحوں پر طالب علموں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے مگر بجٹ کی مد میں رکھی گئی رقم ناکافی ہوتی ہے، جو ظاہرکرتی ہے کہ حکومت کی توجہ تعلیمی شعبے کی جانب کہیں کم ہے۔
یہی وجہ ہے اساتذہ کی مالی و سماجی حالت بہت خراب ہے۔ دہشت گردی نے اور خاص کر لڑکیوں کے اسکولوں کو شدت پسندوں نے تباہ و برباد کردیا ہے، اب لڑکیوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا دشوار ہوچکا ہے۔ دوسری جانب ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں نے اسکولوں کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ پہلے ہی سرکاری اسکولوں کی حالت سخت مخدوش تھی، فرنیچر نہ ہونے کے برابر ہے، بعض علاقوں میں تو سرے سے اسکول کی عمارت ہی نہیں، قوم کے معمار کھلے آسمان تلے زمین پر بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں۔
کسی بھی قوم کی ترقی میں تعلیم کو اولین حیثیت حاصل ہے، اگر ہمارے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا ہے تو حکومت کو اس بارے میں کی جانے والی زیادتی و لاپروائی پر توجہ دینی ہوگی۔ تعلیم کی مد میں مزید فنڈز کا اضافہ کرنا ہوگا۔ آج جب پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی یوم اساتذہ منایا جا رہا ہے تو یہ دن پوری قوم کو سوچنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ ہماری یہ وسیع و قدیم سرزمیں جو پانچ ہزار سال قبل علم و ادب کا گہوارہ ہوا کرتی تھی، آج ہم کس طرح ایمانداری وخلوص نیت سے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ کر اپنی تہذیب وتمدن کی میراث کو دوبارہ پاسکتے ہیں۔