بابا اسلم، ادھیڑ عمر42 سالہ سانولہ، سنجیدہ ، گہری سوچ میں گم رہنے واے شخص تھے۔ وہ روزانہ صبح سات بجے موٹر سائیکل پر سوار ہوکر ہمارے گھر آتے، ابو کی گاڑی کی صفائی کے بعد مجھے میری بہن اور بھائی کو بالترتیب اسکول، کالج اور یونیورسٹی چھوڑ آنے کے بعد ابو کو جو پاکستان کے بدقسمت ترین شہر کی پولیس کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہیں آفس چھوڑ کر آتے تھے۔ وہ گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کے علاوہ ملکی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے تھے، وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ پاکستان کے حالات میں بہتری تب ہی آئیگی جب ملک میں انقلاب آئیگا، انہیں بے نظیر بھٹو کی شہادت کا شدید دکھ تھا، وہ نواز شریف کو صرف پنجاب کا لیڈر عمران خان کو کھلاڑی خان سمجھتے تھے۔
بابا اسلم اکثر مجھے کہتے تھا کہ بی بی جی میرے آٹھ بچے ہیں، میں اتنا زیادہ پڑھا لکھا ہوا نہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے آپ کی جیسے پڑھیں، وہ بھی بڑے بڑے اسکولوں، کالجزاور یونیورسٹیوں میں تعلیم کے زیور سے خود کو آراستہ کریں،۔وہ اکثر کہتے تھے کہ بی بی جی یہ بڑے چھوٹوں کا الگ الگ نظام کیوں ہے؟ میں اس کے ان سوالوں پر خاموش ہو جایا کرتی کیونکہ میرے پاس انکے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا، وہ پھر خود ہی اپنے ہی سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہتے تھے کہ بی بی مجھے یقین ہے ایک ایسا انقلاب ضرور آئیگا جو یہ ساری تفریق مٹا دے گا، سب انسان برابر ہونگے۔
اس دن جمعہ کی نماز سے قبل بھی انہوں نے ایسی ہی باتیں کیں تھیں۔ بی بی عمران خان، اور طاہرالقادری باتیں تو بہت اچھی کررہے ہیں اللہ کرے یہ لوگ ہی انقلاب لے آئیں، بابا اسلم یہ کہہ کرابو کا چیک اپ کروانے کیلئے ڈاکٹر کے پاس چلے گئے۔ عمران خان روز مرہ کی طرح دھواں دار تقریروں میں مصروف تھے تب اچانک گھر کے ٹیلی فون پر گھنٹی بجی کہ بابا اسلم کو نامعلوم افراد نے گولی مار کر قتل کر دیا ہے، ابو خیریت سے ہیں لیکن بابا اسلم نہیں رہے۔
یہ خبر سنتے ہی میرے پیروں تلے زمین ہی نکل گئی، میرے ذہن میں بار بار بابا اسلم کا ادھیڑ عمر چہرہ تصویر کی طرح آرہا تھا۔ ان کی موٹر سائیکل، انقلاب کا انتظار، آٹھ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کی خواہش، ملک بھر میں یکساں نظام ایک جیسے حقوق، سمیت وہ تمام باتیں میرے ذہن میں گھومنے لگیں۔ رات کے 3 بجے کے بعد جب ابو گھر واپس آئے تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہمارے معاشرہ بے رحم اور بے بس ہوچکا ہے ۔ بابا اسلم کے قاتل نقاب پوش نہیں تھے لوگ انہیں باآسانی سے پہچان سکتے اور ان کا حلیہ وغیرہ بتا سکتے تھے لیکن جائے وقوعہ پر موجود کوئی بھی فرد کچھ بھی بتانے یا گواہ بننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ جس ملک میں ہم خود ہی اپنے بھائیوں کے قتل پر خاموش ہیں وہاں کیا خاک انقلاب اور تبدیلی آئے گی۔
یہ کہانی مجھے کراچی سے ایک دوست نے سنائی جسے سننے کے بعد میں ساری رات نہ سوسکا۔ میرا دماغ خود سے ساری رات یہ سوال کرتا رہا کہ بابا اسلم کے بچوں، بیوی، والدین، عزیزوں کا کیا قصور تھا؟ وہ بیچارے تو اپنا گھر بھار چھوڑ کر اس بے رحم شہر میں 22 سال کی عمر میں کچھ کمانے کی غرض سے آئے تھے، جب یاروں، دوستوں کو چھوڑ کر آنے والے کی نعش اس کے گاؤں میں گئی ہوگی تو کیا مناظر ہونگے؟ ہم اتنے بے حس کیوں ہوگئے ہیں؟ انسانی جان کے قتل پر احتجاج تو دورہم افسوس بھی نہیں کر رہے، آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ہماری معاشرتی روایات اور اخلاقیات کیوں ختم ہو رہی ہیں؟
روز انہ کوئی نہ کوئی اپنی دوکان چمکانے کیلئے انقلاب لانے کا ڈھول تو پیٹ رہا ہے لیکن معاشرہ میں پائی جانے والے حیوانیت کے خلاف انقلاب لانے کا کون بیڑا اٹھائے گا؟ کہتے ہیں معاشرہ کسی بھی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، جس کی قوت اور درستگی پر قوم کے وجود، استحکام اور بقا کا انحصار ہے۔ معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو اس سے ایک صحت مند اور باصلاحیت قوم وجود میں آتی ہے اور اگر معاشرہ بگڑا ہوا ہو تو اس کا فساد قوم کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے ۔
قوم کے سنجیدہ عناصر جب اصلاح احوال کے لئے فکر مند ہوتے ہیں تو متنوع مفاسد پر گرفت کے لئے انہیں کوئی طریقہ سجھائی نہیں دیتا، وہ خرابی کی ہمہ گیری کو دیکھتے ہوئے اشتہار بازی کا سہارا لیتے ہیں اور اس طرح دل کو تسلی دیتے ہیں کہ انھوں نے قوم کی اصلاح کا حق ادا کر دیا۔ جبکہ با اختیار طبقہ اخلاقی فساد کا علاج نگران ادارے قائم کرکے کرنا چاہتا ہے، رشوت ستانی کے خاتمہ کیلئے انسداد کا محکمہ، ملاوٹ اور چور بازاری کو روکنے کیلئے چھاپہ مار عملہ ترتیب دے کر اس پر قابو پانا چاہتا ہے،اصلاحی کمیٹیاں قائم کی جاتی ہیں کہ وہ اس ہمہ گیر فساد پر قابو پانے کے لیے سفارشات پیش کریں۔ اس ساری سرگرمی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام نگران اداروں اور تنظیموں کا عملہ اسی مفسد معاشرہ سے آتا ہے۔ وہ نہایت آسانی سے خود انھی خرابیوں کا شکار ہو جاتا ہے جن کی روک تھام کے لئے ا س کا تقرر کیا گیا تھا۔
میری نظر میں کسی بھی بیماری کا صحیح علاج صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب اس کے اسباب کا صحیح طور پر تعین کر لیا جائے ۔ کوئی جرم یا گناہ بلاوجہ صادر نہیں ہوتا، ہمیں بھی کھوج لگانی چاہئے کہ ہم سے ایسی کون سی غلطی ہوگئی ہے جس کی وجہ سے بابا اسلم جیسے معصوم لوگ روزانہ تاریک راہوں میں گم ہو رہے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔