بقرید سے عیدالاضحی تک

خیر فریضہ تو ادا ہو گیا۔ سالہا سال سے ہم جس بدسلیقگی سے قربانی کا فریضہ ادا کرتے چلے آ رہے ہیں ۔۔۔


Intezar Hussain October 09, 2014
[email protected]

RALEIGH, NC, US: لیجیے بقر عید کے فریضہ سے بھی لشٹم پشٹم ہم عہدہ برآ ہو ہی لیے۔ لشٹم پشٹم اس اعتبار سے کہ ہم آپ نے بکرے کی چڑھی قیمتوں پر ہر سال کی طرح اس سال بھی بہت ناک بھوں چڑھائی۔ بکر منڈیوں کے کتنے پھیرے لگائے اور واپس آ گئے۔

اس سے خبر دینے والوں نے یہ تاثر دیا کہ اب کے بکروں کی خریداری کا سلسلہ ٹھنڈا ہے۔ ہر سال وہ یہی خبر دیتے ہیں اور ہر سال آخر میں ان کا سارا تخمینہ غلط نکلتا ہے۔ عید کے طلوع سے پہلے پہلے مہنگائی کے خلاف مزاحمت کرنے والے ہمت چھوڑ جاتے ہیں اور کسی نہ کسی طور بکرا خرید کر لے جاتے ہیں۔ آخر قربانی کا فریضہ تو ادا کرنا ہے۔ تو ہر سال کی طرح اس برس بھی جیت بالآخر بکرا فروشوں ہی کی ہوئی۔

خیر فریضہ تو ادا ہو گیا۔ سالہا سال سے ہم جس بدسلیقگی سے قربانی کا فریضہ ادا کرتے چلے آ رہے ہیں اس بدسلیقگی کی وضع کو ہم نے من حیثیت المجموع برقرار رکھا ہے۔ یعنی کہ قربانی کے بعد گلی کوچوں میں، بیچ سڑکوں پر، نالیوں میں اسی ہمیشہ کی طرح اوجڑیاں، انتڑیاں وغیرہ وغیرہ بکھری نظر آئیں۔ ایک دوست ڈیفنس کے پوش ایریا سے چل کر ہمیں عید کی مبارک باد دینے آئے۔ وہی شکایت کہ اوجڑیوں، انتڑیوں کی رستوں میں ریل پیل ہے۔ اس سے ابھرتا تعفن۔

ہم نے حیرت سے کہا کہ ''ڈیفنس میں بھی۔ وہ تو پوش ایریا ہے۔''

بولا ''بقر عید کے دن کیا ڈیفنس، کیا گلبرگ، کیا ماڈل ٹاؤن، کیا مزنگ، سب کوچے ایک ہی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔''

عجب بات ہے کہ زمانے گزر گئے مگر ہمارے مسلمان معاشرے کو اس مقدس تیوہار کو منانے کا سلیقہ نہ آیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بھلے معاشرے اپنی بہت سی خرابیوں کی اصلاح کر لیتے ہیں۔ مگر اصلاح تو اس صورت میں کریں گے جب ان کے یہاں یہ شعور ہو کہ صفائی کیا چیز ہے۔ پاکیزگی کا مطلب کیا ہے۔ جب سرے سے یہ شعور ہی نہ ہو اور اس بے شعوری، بدسلیقگی اور پھوہڑ پن کا احساس نہ انتظامیہ کو ہو، نہ شہریوں کو، تو پھر اصطلاح کیسے پیدا ہو۔

عجب بات ہے جب ہم اپنی پرانی داستانیں پڑھتے ہیں تو وہاں شہروں کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا جاتا ہے کہ کوچے مصفا، شاہراہیں معنبر، ہر رستہ پاک صاف، صراف کے مقابل صراف، ہزاری بزاری سب اپنی اپنی روش پر رواں گویا اس زمانے میں شہر کا تصور اور تھا اب اور ہے۔ تب سارا زور صفائی پر تھا۔ سلیقہ پر تھا۔ اب صفائی کا خیال ہمیں نہ عام دنوں میں آتا ہے نہ تیوہاروں کے موقعوں پر۔ بقر عید ایسا تیوہار ہے جب ہر مسلمان جانور کی قربانی اپنے پر فرض سمجھتا ہے۔ لیکن اس کے آداب کیا ہیں، یہ اس کی بلا جانے اور جیسی پرجا ویسا راجہ۔ جب لوگوں کے یہاں یہ احساس نہیں ہے تو انتظامیہ بھی سوچتی ہے کہ کوئی مضائقہ نہیں۔ جو ہو رہا ہے وہ ہونے دو۔ اگر لوگ گندگی میں خوش ہیں تو ہم بھی کیوں تردد کریں۔

تو ہم بقر عید جس رنگ سے سالہا سال سے منا رہے ہیں اس پر قائم چلے آتے ہیں۔

ہاں ایک شعبہ میں فرق آیا ہے۔ یعنی عیدین پر جو نماز کا فریضہ ادا کرتے ہیں اس کا نقشہ اب اور ہے۔ وہ زمانے گئے جب عید بقر عید کی صبح چھوٹے بڑے نیا لباس یا کم از کم صاف ستھرا لباس پہن کر گھر سے نکلتے، لپک جھپک مسجد کی طرف دوڑتے، تیزی سے اندر داخل ہوتے، جلدی جلدی وضو کرتے اور دوڑ کر جس صف میں جگہ ملتی جا کھڑے ہوتے۔ اب رستہ طے کرنے میں بھی احتیاط برتتے ہیں۔ جب مسجد کے نواح میں پہنچتے ہیں تو سیکیورٹی والوں کو یہ یقین دلانا لازم آتا ہے کہ ہم نماز ہی پڑھنے آئے ہیں، بم پھاڑنے نہیں آئے۔ بہرحال اس عمل سے گزرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ صف میں جگہ پا کر اطمینان سے کھڑے ہو جاتے ہیں اور نماز کی نیت باندھ لیتے ہیں۔ یہ خوف نہیں ہوتا کہ برابر میں جو کھڑا ہے وہ نمازی ہی نہیں ہے۔ خطرہ اصل میں اب مسلمان کو مسلمان ہی سے ہوتا ہے۔ کافر اب پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے اور مسلمان مسلمان سے خائف ہے۔

اب ذرا یہ بیان بھی ہو جائے کہ عید اور عید میں یہ فرق کیسا ہے کہ ایک عید کو تو ہم محض عید کہتے ہیں۔ خاص موقعوں پر عیدالفطر کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ جو دوسری عید آتی ہے اس کے ناموں کی ایک قطار لگی ہوئی ہے۔ بقرید، بقر عید، عید قرباں، عیدالضحیٰ، عیدالاضحیٰ۔

ہمارا معاملہ یہ ہے کہ بچپن میں ہم بقرید کہتے تھے۔ ایرا غیرا نتھو خیرا بھی بقرعید کو بقرید ہی کہتے تھے۔ اس عوامی تلفظ کو اہل لغت نے لائق اعتنا نہیں سمجھا ہے۔ صرف نظیر اکبر آبادی نے اسے قابل اعتنا جانا ہے۔

ایسی نہ شب برأت نہ بقرید کی خوشی
جیسی ہر ایک دل میں ہے اس عید کی خوشی

جب ذرا ہوش سنبھالا تو احساس ہوا کہ ارے بقرید تو غلط ہے۔ اصل میں لفظ تو بقرعید ہے۔ اب تک ہم بقرعید پر ہی اٹکے ہوئے ہیں۔ عید قرباں، عیدالضحی، عید الاضحی کے سلسلہ میں الجھے ہی نہیں۔ مگر اپنے پچھلے
کالم میں ہم نے سودا کا یہ مطلع نقل کیا تھا۔
جہاں میں شادی عیدالضحی ہے آج کے روز

اچھا کیا ایکسپریس نے اس کی تصحیح کر دی اور عیدالاضحی لکھ دیا۔ کیونکہ اب تو عربی الفاظ کے سلسلہ میں فارسی اردو کے میل کو پسند نہیں کیا جاتا۔ خالص عربی تلفظ پر زور دیا جاتا ہے۔

بہرحال ہم نے سوچا کہ ذرا اپنی لغات کو دیکھا جائے وہ کیا کہتی ہیں۔ کم از کم تین لغات ہماری الماری میں موجود تھیں۔ سید احمد دہلوی کی لغت فرہنگ آصفیہ، نور الغات، فرہنگ عامرہ۔

سنا تھا کہ شمس الرحمن فاروقی کی پسندیدہ لغت نور الغات ہے۔ لیکن اس نے کمال دکھایا ہے کہ عید قرباں کے معنی عیدالضحیٰ لکھے اور آگے گزر گئی۔

فرہنگ عامرہ نے البتہ یہ دو ترکیبیں پیش کی ہیں۔ عیدالضحی، عیدالاضحی۔

ہاں فرہنگ آصفیہ نے ذرا تفصیل پیش کی ہے۔ وہاں اس طرح ہے

عید الضحیٰ، یعنی عید قرباں (صحیح عید الاضحیٰ) الضحی ٰلفظ اضحات کی جمع۔ اضحات اصل میں اضیحہ تھا جس کے معنی ہیں قربانی جو چاشت کے وقت کی جائے۔

مسئلہ کچھ یوں نظر آیا کہ دلی میں عیدالضحیٰ کا چلن تھا اور دلی کے نواح میں بھی عیدالضحیٰ بولا جاتا تھا۔ سودا نے بول چال میں جو اصطلاح رائج کی تھی اسے اپنایا۔ عیدالضحیٰ سے عیدالاضحیٰ کی طرف مراجعت یہ بعد کا عمل ہے۔

باقی بات عربی داں حضرات زیادہ وضاحت سے کہہ سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں