چھوٹی مگر اہم خبریں

انسانوں کو بھیڑ بکری کی طرح ذبح کرنے والے بھی اپنے آپ کو انسان کہتے اور سمجھتے ہیں۔



SUI: ہم جب اخبار پڑھتے ہیں تو ہمارا اپنا ایک انداز ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ کوئی اخبار کی پرنٹ لائن پڑھتا ہے جس میں تاریخ اشاعت تک لکھی ہوتی ہے (انھیں اخبارات میں) ''لب دریا کے کنارے'' کے طور پر یا صرف مقام اشاعت اور اشاعت کی ''سرزدگی'' کے ذمے دار کا نام ہوتا ہے یا لوگ ''سرسری'' اخبار پڑھتے ہیں یہ لوگ در اصل ''Head Line Reader'' ہوتے ہیں جو بقول شاعر:

''لفافے کو دیکھ کر خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں'' یہ کہاں تک درست ہے۔ شاعرانہ روش کے تحت تو درست ہے۔

کچھ ''چھوٹی'' خبریں ''بڑی'' اہمیت کی حامل ہوتی ہیں جنھیں دوسرا گروپ آف ریڈر کوئی اہمیت نہیں دیتا جب کہ یہی ''عوامی'' اور ''حقیقی'' خبریں ہوتی ہیں۔ میں ان خبروں کو بہت دلچسپی سے پڑھتاہوں شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میں خاصا ''عوامی'' ہوں ''خواص'' میں شمار نہیں ہے میرا۔

امریکا میں ایک خاتون کو تھپڑ مارنے پر پولیس اہلکار کو 15 لاکھ ڈالر جرمانہ۔ ایک راہ گیر نے موبائل کیمرے میں سیاہ فام خاتون کو سرعام تھپڑمارنے کی فوٹیج بنائی تھی۔ جرمانے کی ادائیگی کے بعد لاس اینجلس پولیس اور متاثرہ خاتون میں راضی نامہ طے پاگیا۔ خبر میں آگے بتایاگیا ہے کہ پولیس اہلکار کو برطرف کردیاگیا ہے۔ اس خبر کے چند پہلو ہیں ایک تو یہ کہ ایک تھپڑ سیاہ فام خاتون کو سفید فام پولیس افسر کا ڈپارٹمنٹ کو 15 لاکھ کا پڑا اور تشدد کرنے والے کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑگیا۔

سوال یہ ہے کہ امریکی ڈرون سے وزیرستان اور دوسرے علاقوں میں جو ''بے گناہ'' ہلاک ہورہے ہیں ہم صرف ان لوگوں کی بات کررہے ہیں جو ''معصوم'' ہیں اور دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں کیا وہ انسان نہیں ہیں کیا ان کی کوئی قیمت نہیں ہے، یہ حکومت امریکا کے ساتھ حکومت پاکستان کو بھی سوچنا چاہیے، دوسرا پہلو یہ بھی کہ امریکا میں ''سفید چمڑی'' کا غرور ختم نہیں ہوا ہے اور اس غرور کی سزا وہ اپنی قوم کو نہیں دینا چاہتے بلکہ اس غرور کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، نوکری سے برطرفی تو انتظامی معاملہ ہے۔ سزا بھی دینی چاہیے متعلقہ پولیس افسر کو۔

دھرنا ڈیوٹی پر آئے پنجاب پولیس کے اہلکار پر ساتھیوں کا تشدد، اہلکار ''کمی'' کہتے رہے، روکا تو برہنہ کرکے مارا، مقدمہ درج، ملزم گرفتار نہ ہوسکے۔ تشدد سے دانت ٹوٹ گیا، ڈیرہ غازی خان کا پولیس کانسٹیبل مرتضیٰ دھرنا ڈیوٹی پر اسلام آباد آیا ہوا ہے اس کے ساتھ آنے والے دو ساتھی پولیس کانسٹیبلوں نے یہ کارنامہ انجام دیا۔

یہ دونوں وہاں موجود ہیں۔ اسلام آباد پولیس ان کو گرفتار کرنے یا کارروائی سے گریزاں ہے۔ حالانکہ ''وقوعہ'' کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ پولیس لائنز اسلام آباد کا واقعہ ہے۔ یہاں بھی وہی ''نسلی تعصب'' کا مسئلہ درپیش ہے اور ذہنیت کا مسئلہ ہے کہ دوسرے کو کم تر سمجھا جائے، کہا جائے تاکہ ''دل خوش ہوسکے۔''

دنیا بھر میں انسانوں کو انسانوں سے الگ کرنے اور ایک دوسرے سے ''برتر'' یا ''کم تر'' سمجھنے کا ''شیطانی'' منصوبہ اور سوچ اسی طرح رائج ہے۔ انسانوں کو بھیڑ بکری کی طرح ذبح کرنے والے بھی اپنے آپ کو انسان کہتے اور سمجھتے ہیں۔ ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ ہماری تاریخ کا ایک بد نما داغ ہے۔ ''منہاج القرآن'' اور اسلام آباد میں بے گناہ معصوم لوگوں کو کم تر سمجھنا اور ان پر Tear Gasing اور فائرنگ اور ''ہلاکتوں'' پر آج تک حکومت نے ''افسوس'' تک کا اظہار نہیں کیا۔

ان واقعات کے ذمے داروں نے ذمے داری قبول نہیں کی۔ جب کہ ایسا کرنا ان کی ''شان'' اور ''رتبے'' میں اضافہ کردیتا اور لوگ اس بات کو مان جاتے کہ ''انصاف'' نہ سہی بات تو کم از کم ''انصاف'' کی ہے۔

خیر اس پر غور کرنے کا مقام تو ذمے داروں کا ہے کرتے رہیں۔ اب ایک اور ذمے دار قوت کے گھر کا عالم دیکھ لیجیے۔ دنیا بھر میں سیکیورٹی کے نام نہاد علم بردار اور اس مقصد کے لیے ساری دنیا خصوصاً ''مسلم ممالک'' پر فوج کشی کرنے والے ملک امریکا کی اندرونی سیکیورٹی کا یہ حال ہے کہ ایک شخص وائٹ ہاؤس پر فائرنگ کرکے فرار ہوجاتاہے اور سیکیورٹی پر مامور عملے کو واقعے کی اطلاع چار روز کے بعد صفائی کرنے والا ایک ملازم دیتاہے۔ امریکی اخبار کے مطابق نومبر 2011 میں وائٹ ہاؤس کی عمارت کے سامنے ایک شخص اپنی گاڑی روکتا ہے اور فائرنگ کرکے فرار ہوجاتاہے جس کے نتیجے میں صدارتی محل کی دیواروں پر سات گولیاں لگتی ہیں اور عمارت کے شیشے بھی ٹوٹ جاتے ہیں لیکن سیکیورٹی پر مامور عملہ اس سارے واقعے سے بے خبر رہتاہے۔ سکیورٹی آفیسر فائرنگ کی آواز کو گاڑی کے سائلنسر کا پٹاخہ سمجھ کر نظر انداز کردیتاہے۔ لیکن چار روز کے بعد صفائی کا عملہ جب وہاں پہنچتاہے تو اس کا ایک فرد ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں کے شیشوں سے متعلق آگاہ کرتاہے تو سیکیورٹی والوں کو پتہ چلتاہے۔

اخبار کے مطابق اس وقت کے صدر امریکا کی صاحبزادی گھر میں موجود تھیں۔ اس پر صدر امریکا نے اور ان کی اہلیہ نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ ترجمان حسب معمول تبصرے سے انکاری ہے۔ گزشتہ دنوں ملکہ برطانیہ کے محل میں بھی اس قسم کا ''در انداز'' آگیا تھا جسے بعد میں ''ذہنی مریض'' قرار دے دیاگیا۔

سوال یہ ہے کہ ''ڈرون'' کے ذریعے تو ''صحیح صحیح'' نشانے لگائے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں بقول ان کے حالانکہ اس میں بے گناہ ہلاک ہوتے ہیں۔ مگر شاید یہ قصور بے گناہوں کا ہے کہ وہ ''نشانوں'' کے آس پاس کیوں ہوتے ہیں یہ ساری خبریں بھی میں نے مذکور کیں۔ 29 ستمبر 2014 کے اسی اخبار میں شایع ہوئی ہیں۔

''انصاف'' کے ''پیمانے'' ان کے مرتب کردہ ہیں۔ کارروائیاں ان کی سب ''درست'' ہیں غلط تو دراصل ہم ہیں جنھیں ''حرف غلط'' کی طرح مٹانے کے لیے اندر اور باہر ہر طرف سے ''یلغار'' ہے۔

دنیا بھر کے ساتھ ''مساوات'' اور ''ہمدردی'' کے دعوے کرنے والوں کا کردار بہت ''گندا'' ہے اندر سے ۔سڈنی سے ایک خبر ہے کہ آسٹریلیا کی ایک عیسائی خاتون نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک ہفتے کے لیے حجاب پہنے گی تاکہ دیکھ سکے کہ مسلم خواتین کو اپنی اس روایت پر عمل کرنے میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

27 سالہ کیٹ لینی کا کہناہے کہ وہ یہ جان کر حیران رہ گئی کہ محض ایک کپڑا سر پر لپیٹنے یا پہننے سے کس طرح لوگوں نے اسے نفرت اور اشتعال کا نشانہ بنایا، وہ جہاں بھی جاتی لوگ اسے عجیب نظروں سے گھورتے اور بعض تو اسے دیکھ کر ایسا رویہ اختیار کرتے جیسے وہ کوئی خطرناک ''مخلوق'' ہو۔

ایک پیٹرول پمپ کے ملازم نے اس سے پوچھا کہ وہ آخر ایسی کیوں نظر آتی ہے؟ اور حجاب کیوں پہنتی ہے ایک دفعہ راہ چلتے ہوئے ایک خاتون اور اس کی بیٹی نے اسے دیکھتے ہی راستہ بدل لیا۔

کیٹی نے بتایاکہ ایک ہفتے کے دوران اسے حجاب کی وجہ سے لوگوں کے بے حساب ''منفی رویے'' کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس نے یہ بھی بتایاکہ حجاب پہن کر اس نے پہلے سے بہت زیادہ اچھا محسوس کیا اور بطور ''عورت'' اس نے اپنے آپ کو بہت ''محفوظ'' محسوس کیا۔ کیٹی کی مسلمان دوستوں نے اس ''اظہار یکجہتی'' پر اس کا شکریہ ادا کیا۔

یہ سب کچھ ''نیا'' نہیں ہے ''ایک دن'' میں نہیں ہوا۔ اس میں ''اسرائیلی جد وجہد'' کے بہت سال لگے ہیں جو اس نے عیسائیوں کو مسلمانوں سے الگ کرنے اور ''عدم تعاون'' پر ''تیار'' کرنے میں لگائے ہیں۔ اس کا آغاز اس نے مسلمانوں کے لباس، عادات، رسم و رواج اور مذہب سے نفرت سے کیا تھا اور اس پر بہت سرمایہ اور ''وقت'' لگایا ہے ''تحریروں'' ''تقریروں'' پر سرمایہ، وقت لگایا ہے۔ دنیا کو ''خریدا'' ہے۔

اور آج ساری دنیا میں مسلمان نفرت کا نشانہ ہیں۔ کیوں کہ جن کو خریداگیا بالواسطہ وہ اس تہذیب کے ''پروردہ'' ہیں اپنے لباس، طرز معاشرت، رسوم اور شاید ''دین'' سے بھی بس واجبی سی شد بد ہے اور اپنے دین اور اس کے ماننے والوں کا شاید ''پس ماندہ'' اور غریبوں کا ''عقیدہ'' سمجھتے ہیں۔ ہر قوم اپنے عقائد، دینی معاشرت، تہذیب، رسم و رواج کی حفاظت کرتی ہے۔ ان کو پروان چڑھاتی ہے، آنے والی نسلوں کو منتقل کرتی ہے مگر شاید، شاید مسلمان نہیں ! کیوں کہ انھوں نے بنیادی نکتہ فراموش کردیا ہے وہ نکتہ اﷲ کی رسمی میں پوشیدہ ہے، جسے انھوں نے نہ صرف چھوڑدیا ہے بلکہ ''توڑ'' دیا ہے اور زبان، نسل، عقائد، علاقے کے بتوں کی پرستش شروع کردی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں